ان حالات میں کہ جب گذشتہ سال کی عوامی مزاحمت کے دوران سرکاری فورسز کی طاقت سے کچلے جاچکے لوگ ابھی درد سے کراہ ہی رہے ہیں اسلام آباد اور سرینگر کے پارلیمانی حلقوں میں انتخابات کا بگل بجادیا گیا ہے۔
جہاں عمر عبداللہ، اور ان کے حلیف ،لوگوں کو اس بات کیلئے آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ وہ ان انتخابات میں محبوبہ مفتی کو شکست دیکر بہت بڑا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں وہاں حریت اور اس کی سہ نفری قیادت حسب سابقہ کشمیریوںکو شہیدوں اور دوسری قربانیوں کا واسطہ دیکر انتخابات سے دور رہنے کی اپیلیں کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔عام کشمیری ،جو کہ ہمالیہ جتنی قربانیوں کا وارث ہے، نجی محفلوں میںہر بار کی عوامی تحریک کے بعدتمام نظریات کے لیڈروں کو گالیاں دینے کی اپنی عادت پر قائم ہے۔افسوسناک حیرت اور بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے یہاں ہرشخص کو غداریا ایجنٹ کہنا جیسے ہمارے مزاج میں رچ بس گیا ہے ۔اس بات میں اگر چہ کوئی شک نہیںہے کہ کشمیریوں کو ہر نظریہ کی لیڈرشپ وقت وقت پر مایوس کرتی آرہی ہے لیکن لیڈر شپ کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی ایک بنیادی وجہ خود عوام کی غیر مستقل مزاجی بھی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کشمیریوںنے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بے پناہ قربانیاں دیکر تاریخ رقم کی ہے لیکن احتساب اور جوابدہی کے فقدان کے باعث انہیں ابھی تک کوئی معقول معاوضہ نہیں ملاہے ۔ تائیدوحمایت کی بات ہو تواہل کشمیر نے نہ نام نہاد مین اسٹریم کوکبھی مایوس کیااور نہ ہی علیٰحدگی پسند قیادت کا ساتھ دینے میں کبھی بخل کیا۔ایک بات البتہ واضح ہے مین اسٹریم کے سیاستدانوں کو روز مرہ کے مسائل،جنہیں اصطلاحی طور سڑک پانی بجلی کہا جاسکتا ہے، کے حل کیلئے ووٹ دیا جاتا رہا ہے لیکن علیٰحدگی پسندوں کی حمایت کرنا لوگوں نظریاتی موقف بھی ہے اور مجبوری بھی ۔
تحریکوں میں اتار چڑھاﺅ قدرتی بات ہے، لیکن کچھ اہم مواقع پر اہل کشمیر اس حد تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں بری طرح ناکام رہے ہیںکہ دوست تو دوست دشمن بھی ہماری عقل پر افسوس کرتے رہے۔ ہڑتال کرنے پر آئیں تو تاریخ کے ریکارڈ توڑ دیتے ہےں اور جب سڑکوں پر نکل کر پولیس ، فوج و دیگر سرکاری فورسز کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی باری آتی ہے تو ،نہتے ہوکر ،بے لگام وردی پوش سپاہیوں کی لاٹھیوں، پیلٹوں یہاں تک کہ گولیوں کے سامنے مردانہ وار سینہ سپر ہونے میں اس قوم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔لیکن جب کسی بڑے سے بڑے سنگ باز یا مزاحمت کار کو تھانے سے بلاوا آتا ہے تو نہ صرف وہ خود بلکہ اس کے اہل خانہ رہائی کیلئے انہی لوگوں کے آگے بھیک مانگنے لگتے ہیں کہ جنہیں ظالم، قاتل ، جابراور نہ جانے کیا کیا کہکر انہوں نے پتھر مارے ہوتے ہیں۔
اس کڑوی حقیقت کے ساتھ کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ جب جذبہ مزاحمت عروج پر رہتا ہے تو ساری قوم ایک نظر آتی ہے لیکن جونہی پولیس کسی کو گرفتار کرکے لے جاتی ہے تو اس کے اہل خانہ کے سوا سارے لوگ اس کا ساتھ چھوڑتے ہیں۔اگر کسی بھی گرفتار شدہ نوجوان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے پوری بستی تھانے پہنچ جائے اور وہاں احتجاج کرکے تب تک نکلنے سے انکار کرے کہ جب تک نہ گرفتار نوجوان کو رہا کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ نہ صرف ان نوجوانوں کو رہائی ملے گی بلکہ اس عوامی مزاحمت کی وجہ سے پولیس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ایسا نہیں ہے کہ یہاں سے لوگ تھانے پہنچے اور وہاں سے گرفتار شدگان کو چھوڑ دیا جائے گا لیکن ہاں اگر مستقل مزاجی اور عزم کا اظہار ہو تو مثبت نتائج یقینی ہیں۔پھراگراحتجاجیوں کو راتیں بھی تھانوں کے باہر گذارنا پڑےں گی تویہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہوگی اور ایسے میںمزاحمتی تحریک کا ایک نیا باب رقم ہو سکتا ہے۔
ایک ایسے مرحلہ پر جب لیڈرشپ میں تدبر کا فقد ان بھی ہو اور پھرہندوستا ن ہر کشمیری کی شبیہ کو، اپنے ہی لوگوں کی نظروں میں، مشکوک بنانے پر تلا ہواہو،کشمیریوں کے لئے مستقل مزاج ہوکر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے اور کچھ تلخ فیصلے لینے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے ۔جہاں حریت کو اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو تعمیری مان کر ہوش سے کام لینا ہوگاوہاں لوگوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ علیٰحدگی پسند قیادت جیسی بھی ہے اپنی لاکھ خامیوں اور کوتاہیوں کے با وجود اہل کشمیر کے جذبات کی ترجمانی کے علاوہ قربانیوں کی وارث اور محافظ ہونے کی دعویدار ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کشمیری قوم ایک طرف حریت کے ہڑتالی کلینڈر پر عمل بھی کرے اور پھر وہی عوام ووٹ ڈالنے کی وجہ سے غدار اور خونِ شہیداں کے سودا باز بھی کہلائےں توپھر اس تحریک کے انجام کا اندازہ لگانے میں کسی کو کیا دقعت آنی چاہئے ۔نہ ہی حریت ووٹ ڈالنے کے پیچھے عام کشمیریوں کی مجبوریوں کو سمجھتی یا سمجھ پاتی ہے اور نہ ہی بد قسمتی سے عام لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف سے حریت لیڈران کی بائیکاٹ کال کو نظر انداز کرنے کو ہندوستان اور اس کے چیلے چانٹے کس طرح تحریک مزاحمت کی بد نامی اوربیخ کنی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ حریت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ فقط،روزمرہ کے مسائل کے حل کے لئے، ووٹ ڈالنے سے ہی کوئی غدار نہیںبنتا ہے اور نہ فقط بائیکاٹ کرنے والا ہی تحریک نوازہے ۔یاپھر عام لوگوں کوہی حریت کی بات مان کرانتخابات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیئے ۔ اگر حریت قیادت اور عوام ایک دوسرے کی مجبوریوں کو نہیں سمجھیں گے تو قوم کی ساری بیش بہا قربانیاں حسب سابقہ ضائع ہوتی رہیں گی۔ اگر الیکشن بائیکاٹ کو ایک بار پھر تحریک سے غداری کے مترادف قرار دینے کے باوجود عام لوگوں کی قلیل تعداد بھی ووٹ ڈالنے کیلئے سامنے آتی ہے تو حریت اور عوام دونوں تاریخ کے کٹہرے میں کھڑاہونگے ….!
ویسے بھی اگر انتخابات کے بائیکاٹ کو ہی تحریک نوازی کامعیار ماناجائے تو پھر اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ وادی کے علاوہ جموں ، پیر پنچال، چناب اور لداخ خطوں میں بائیکاٹ نام کی کوئی چیز کبھی بھی نظر نہیں آئی ہے۔حالانکہ اس تلخ حقیقت کے باجود بھی خطہ چناب اور پیر پنچال کے علاوہ لداخ یہاں تک کہ جموں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیںہے کہ جو ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیںہیں۔ اگر صرف انتخابی بائیکاٹ کوہی بھارت مخالف ہونے کا معیاربنایا جائے تو پھربھارت کے اس بہتانکے کئی خریدار ہوسکتے ہیں کہ وادی کو چھوڑ کرریاست میں کہیں بھی کوئی گروہ یا فرد بھارت مخالف یاتحریک پسندہے ہی نہیں ۔چیزوں پر سطحی طور سوچنے کی بجائے گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو انتخابات کا تحریک مزاحمت سے کوئی واسطہ ہے ہی نہیں….!
لیکن جن حالات میں اس وقت بارہمولہ اور سرینگر کی پارلیمانی نشستوں پر عام انتخابات کرائے جا رہے ہیں،اور حریت اگر بائیکاٹ کی کال پر بضد رہتی ہے، ایسے میں انتخابات میں لوگوں کی شرکت کوبھارت اپنی بھاری کامیابی سے تعبیر کرنے کے دعویٰ میں کچھ حد تک حق بجانب ہوگا۔فیصلہ کشمیریوں کو خود کرنا ہوگا کہ وہ یا توان لوگوں کا،کہ جنہیں انہوں نے تحریک کی وکالت کرنے اور قربانیوںکی وارثت کا ٹھیکہ دیا ہوا ہے، بھرم رکھنے کیلئے مکمل بائیکاٹ کریںیا پھر ان لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ انتخابات میں لوگوں کی شرکت یا عدم شرکت کا تحریک کے ساتھ کوئی واسطہ ہے ہی نہیں۔حالانکہ ایسا کرناتحریک کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھنے اور قربانیاں دیتے آرہے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن اگر وہ یہ ذمہ داری نہ نبھائیں تو بھی کم از کم ایسے لوگوں کوو وٹ دیں کہ جو نظریاتی طور جموں و کشمیر اوربھارت کے الحاق کو جبری مانتے ہوں۔فقط ہر کسی کو غدار اور ایجنٹ کہنا ہرگز مسئلہ کا علاج نہیں ہے ۔
ایک طرف لوگ محبوبہ مفتی سے نفرت بھی کریں اور دوسری طرف این سی – کانگریس اتحاد کو ووٹ دیکر اپنی بھڑاس نکالنے کا دعویٰ بھی کریں تواس” جواز“ کو ہرگز تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے بڑی بد نصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ عام کشمیری تحریک نواز ہونے کا دعویٰ بھی کریں ، قربانیاں بھی دیں ، ہڑتال بھی کریں اور پھر پی ڈی پی سے نفرت کا اظہار کرنے کی خاطر ان ہی عناصر کو ووٹ دیں کہ جن کی کوکھ سے پی ڈی پی نے جنم لیاہے؟۔جہاں کانگریس کو پی ڈی پی کی ماں کہا جا سکتا ہے وہاں این سی نے بھی اہل کشمیر کے ساتھ کیاکیاہے،یہ کوئی تحقیق طلب بات نہیں ہے بلکہ اس حد تک تو ہمارے ان پڑھ لوگ بھی جانتے اور سمجھتے ہیں ۔
گوکہ ہم نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ انتخابات کا تحریک مزاحمت کے ساتھ کوئی واسطہ ہے ہی نہیں لیکن جن حالات میں ابھی کے انتخابات روبہ عمل آرہے ہیں انہوں نے انہیں بڑااہم بنادیاہے۔ظاہر ہے اور سرینگر کے لوگوں کیلئے یہ انتخابات کسی بھاری آزمائش سے کم نہیںہیں….اور ان کا فیصلہ ہر لحاظ سے تحریک مزاحمت پر دور رس اثرات کاموجب بننے جا رہا ہے۔لوگ ان انتخابات میں شرکت کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں ریاست کے سیاسی منظر نامہ پر ایک نئی تاریخ کا رقم ہونا طے بات ہے۔
ختم شد