27جنوری،جس سے وہ ڈرتے ہیں!

صریر خالد

گو، پلوں کو دنوں میں ،دنوں کو ہفتوں میں اور پھر برسوں کو دہائیوں میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے لیکن یادیں باقی رہ جاتی ہیں چاہے ، رُلا دینے والی ہوں یا لطیف احساس سے سرشار کرانے والی۔

رُلا دینے والی یادوں کا “امتیاز” یہ ہے کہ وہ جب بھی انسانی ذہن کی اوپری تہہ پر آجاتی ہیں ایک تلا تم مچ جاتا ہے، اسی طرح کی کیفیت سے آج شمالی کشمیر کے کپوارہ قصبے کے لوگ دوچار ہیں۔

ڈیڑھ دہائی کا عرصہ گذر گیا ہے لیکن 27جنوری کی تاریخ آج بھی کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر نے والی خونی لکیر (ایل او سی) کے اس قریبی قصبہ کے لوگوں کو جیسے دہشت زدہ کرتی ہے کہ جب یہاں محض آدھے گھنٹے میں27 افراد کی لاشیں گرائی گئی تھیں۔

عبد الغنی نامی ایک دکاندار کے مطابق انکی نظر جب بھی کلینڈر کی 27 تاریخ پر جاتی ہے تو انکے رونگٹے کھڑا ہو جاتے ہیں۔

27جنوری 1993ء کو بھارتی فوج کی اندھا دند فائرنگ سے کپوارہ قصبے میں 27 افراد مارے گئے تھے۔ عبد الغنی کا کہنا ہے “میں تب بازار میں ہی تھا جب فوج کی ایک کانوائے کا یہاں سے گذر ہوا۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا کہ اچانک ہی ایک گولی چلی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے قصبے کی ہر سمت میں موجود فوجیوں نے بندوقوں کے دہانے اس طرح کھول دئے کہ جیسے کسی فتح کا جشن منا رہے ہوں”۔

عبد الغنی کا مزید کہنا ہے کہ فائرنگ کی آواز اور پھر اس کی زد میں آنے والے لوگوں کی چیخ و پکار سے قصبے میں افراتفری کا عالم تھا اور لوگ اپنی جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔

عبد الغنی کے الفاظ میں ” وہ تو کربلا کی منظر کشی لگ رہی تھی،کئی لوگ اپنے انجام سے بے خبر جان کی امان پانے کے لئے اسی سمت بھاگ رہے تھے کہ جہاں سے فوجیوں کی گولیاں آ رہی تھیں، میں نزدیک ہی ایک گاو خانے میں گھس گیا اور قریب آدھ گھنٹے ہوئے ،فائرنگ بند ہونے کے بعد باہر آیا تو فوجیوں نے مجھے بازار کی جانب دھکیلا جہاں سہمے ہوئے سینکڑوں لوگوں کی شناختی پریڈ کی جا رہی تھی۔ راستے میں ، میں نے کئی لوگوں کی لا شیں دیکھیں جن میں میری جان پہچان کے کئی لوگ بھی شامل تھے”۔

انہوں نے کہا کہ فوج نے انہیں لاشیں اٹھانے کی اجازت نہیں دی یہاں تک کہ انکی شناختی پریڈ کی گئی اور کئی جوانوں کی شدید مار پیٹ ہوئی۔ عبد الغنی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کپوارہ کے ہی ایک اور شہری غلام محمد نے کہا کہ ” ایک سرکاری ملازم کو تو گھسیٹتے ہوئے بازار میں لایا گیا اور پھر اس پر گولیوں کی بو چھاڑ کی گئی”۔
حالانکہ گزشتہ بیس برس کے دوران کپوارہ کے علاوہ وادی کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں تاہم اس دن (27جنوری 1993ء) یہاں 27افراد کا اجتماعی قتل ہوا، جن میں ریاستی پولس کے کئی جوان بھی شامل تھے۔

آخر ایسا کیوں ہوا؟عبد الغنی سے پوچھئے تو وہ کہتے ہیں،” آپ مجھے 27جنوری یاد نہ ہی دلائیں تو اچھا ہے، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ آپ مجھ پر احسان کریں۔ میں پندرہ سال سے اس واقعہ کو بھلانا چاہتا ہوں مگر کیا کریں کہ 27جنوری کی تاریخ ہر سال آکر ہمیں ایک بار پھر خوفزدہ کرتی ہے”۔

لمحہ بھر کی خاموشی اور پھر ایک سرد آہ کے ساتھ عبد الغنی نے میرے سوال کا جواب دینا شروع کیا اور کہا ” در اصل جنوری کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں مقامی پولس اور ایک فوجی افسر کے بیچ کسی معمولی بات پر توتو میں میں ہوئی تھی ، اُسوقت تو معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن فوجی افسر پورے قصبے کے لوگوں کے لئے خطرناک نتائج کی دھمکی دے کر گیا۔ در اصل فوجی افسر کو لگا تھا کہ لوگوں نے اسکے مقابلے میں ریاستی پولس کے اہلکاروں کے ساتھ ہمدردی دکھائی ہے۔
پھر مذکورہ افسر نے 26جنوری(بھارتی یوم جمہوریہ) کے دن ،عسکریت پسندوں کی ہڑتال کال کو نظر انداز کر کے، دکانیں کھولنے کا حکم دیا جسے تاہم ہم نے بجا نہیں لایا۔ 26 (جنوری) کو مکمل ہڑتال ہوئی ، میجر صاحب کو غصہ آیااور پھر اگلے ہی دن یہ واقعہ پیش آیا جو آج اتنے برس گذرنے کے بعد بھی مجھے اور میرے جیسے کئی لوگوں کو، جو اس خونین واقعہ کے چشم دید ہیں ، دہشت زدہ کر کے چھوڑتا ہے”۔

عبد الغنی جذباتی ہو گئے اور یہ کہتے کہتے میرے کئی سوالات کو تشنہ چھوڑ گئے کہ ” مجھ سے مت پوچھو ، مجھے مت یاد دلاو ، میں اس کر بلا کو بھول جانا چاہتا ہوں “، وہ فون رکھ بیٹھے اور میرے پھر کال کرنے پر مزید بات چیت کے لئے آمادہ نہ ہوئے۔

پولس اس معاملے کی فائل بند کرکے اسے دھول چاٹنے کے لئے چھوڑ چکی ہے ، میجر صاحب آزاد کہیں اپنی “بہادری” کے قصے سنا رہے ہیں اورکپوارہ میں عبد الغنی جیسے کئی لوگ 27جنوری سے بھاگنا چاہتے ہیں مگر وہ بے بس ہیں کہ27 جنوری ہر سال آتا ہے اور آتا ہی رہے گا۔

شکریہ: اس دوست کے بہت شکریہ کے ساتھ کہ جس نے میری عبد الغنی اور غلام محمد کے ساتھ فون پر بات کرائی تاہم کسی 27 جنوری کے خوف سے انکا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہ ملی۔ (ص خ)

نوٹ: صریر خالد کی یہ تحریر سن دو ہزار تین کی تخلیق ہے تاہم اسکے صدا بہار ہونے اور مذکورہ بالا میجر صاحب کے ابھی تک آزاد ہونے کی وجہ سے اسے قارئینِ تفصیلات کی دلچسپی کے لئے دہرایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ادارہ تفصیلات)

 

(یہ مضمون پہلے ۲۰۰۳ میں شاءع ہوا ہے)

Exit mobile version