• Latest
  • Trending
  • All
سید گیلانی کا بند دروازہ….!

سید گیلانی کا بند دروازہ….!

March 26, 2017

جموں کشمیر میں انتخابات کا اشارہ

March 3, 2023
برطانیہ جانے سے قبل راہُل گاندھی نے بالآخر۔۔۔

برطانیہ جانے سے قبل راہُل گاندھی نے بالآخر۔۔۔

March 2, 2023
قبل از وقت گرمی سے ’پریشانی کے شگوفے‘

قبل از وقت گرمی سے ’پریشانی کے شگوفے‘

March 2, 2023
کشمیرمیں حالات پہلی بار تو نہیں بگڑے ہیں:شاہ

دلی کی ٹیم جموں میں نہایت مصروف

March 2, 2023
سنہا لوگوں کو ٹیکس پر آمادہ کرنے کیلئے کوشاں

سنہا لوگوں کو ٹیکس پر آمادہ کرنے کیلئے کوشاں

February 28, 2023
آئی فون لیکر ڈیلیوری بوائے کا قتل

آئی فون لیکر ڈیلیوری بوائے کا قتل

February 22, 2023
”بھارت ماتا کی جئے“نہ کہنے والے انسانیت کے دشمن

کشمیریوں کو محتاج بنایا جا رہا ہے:فاروق

February 21, 2023
سونہ مرگ اور رام بن میں درجنوں مکانات تباہ

سونہ مرگ اور رام بن میں درجنوں مکانات تباہ

February 21, 2023
تُرکی میں تازہ زلزلے سے کئی عمارتیں منہدم

تُرکی میں تازہ زلزلے سے کئی عمارتیں منہدم

February 21, 2023
مودی مبصرین کو مایوس کرکے چلے گئے!

سرکار غریبی کے خاتمہ کیلئے پُرعزم

February 18, 2023
مژھل میں برفانی تودہ نوجوان کو کھا گیا

مژھل میں برفانی تودہ نوجوان کو کھا گیا

February 17, 2023
…اوراب 370 کو بھی چلینج،سپریم کورٹ تیار!

سُپریم کورٹ 370کی شنوائی کیلئے تیار

February 17, 2023
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجیے
  • ٹیم تفصیلات
11th Year of Publication
-18 °c
Wednesday, July 2, 2025
Tafseelat - تفصیلات
  • جموں کشمیر
  • بھارت
  • دیگر اہم خبریں
  • کھیل/سائنس
  • کاروبار/ سیاحت
  • مزید
    • انٹرویو
    • تازہ ترین
    • لطیفے/گھریلو ٹوٹکے
    • میٹھی مرچیں
    • آج کے کالم
    • تصویروں کی زبانی
No Result
View All Result
English
Tafseelat - تفصیلات
  • جموں کشمیر
  • بھارت
  • دیگر اہم خبریں
  • کھیل/سائنس
  • کاروبار/ سیاحت
  • مزید
    • انٹرویو
    • تازہ ترین
    • لطیفے/گھریلو ٹوٹکے
    • میٹھی مرچیں
    • آج کے کالم
    • تصویروں کی زبانی
No Result
View All Result
Tafseelat - تفصیلات
No Result
View All Result
Home آج کے کالم

سید گیلانی کا بند دروازہ….!

صریر خالد by صریر خالد
March 26, 2017
in آج کے کالم
1 min read
0
سید گیلانی کا بند دروازہ….!
60
SHARES
172
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

صریر خالد

اب جبکہ بھارتی سیاستدانوں کا کُل جماعتی وفد خاک و خون میں لتھڑی ہوئی وادی کشمیر کے سیر سپاٹے سے بےمُراد لوٹ چکا ہے بھارتی میڈیا اور خود کشمیرمیں ”دانشور“ کہلائے جانے کے لئے مرے جارہے کچھ عناصر کشمیری قیادت میں ”انسانیت“کا فقدان بتاکر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے کشمیریوں نے مسئلہ کشمیر کے ”حل“کا سب سے بڑا موقع گنوادیا ہو۔اس حقیقت سے آنکھیں چُرا کر ،کہ بھارتی وفد نے در اصل کشمیری قیادت تک پہنچنے کی کوشش بھی نہیں کی،دلی میں شاہ سے زیادہ وفاداری دکھانے والے اور کشمیر میں کچھ مفاد پرست عناصر کسی نہ کسی طرح کشمیری عوام سے یہ منوانے کے جتن کر رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو ہی گیا ہوتا کہ اگر مزاحمتی قیادت نے بھارتی سیاستدانوں کی راہوں میں آنکھیں بچھائی ہوتیں۔حالانکہ محصور مزاحمتی قائدین کے پاس بھارتی سیاستدانوں سے ملنے کا موقعہ تھا اور نہ ہی گنجائش بلکہ اگر اُنہوں نے اُنہیں خوش آمدید کہنے کی ”انسانیت“دکھائی ہوتی تو عجب نہیں کہ وہی لوگ جو ابھی ناقد بنے ہوئے ہیں کسی اور بہانے سے قائدین کی تنقید جاری رکھے ہوئے ہوتے۔
9جولائی کو حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر بُرہان وانی کے دو ساتھیوں سمیت مارے جانے کے ساتھ ہی کشمیر میں اُٹھی احتجاجی اور مطالباتی لہر کے اب تیسرے ماہ میں داخل ہو چکی ہے اور نئی دلی کے ماتحت ریاستی سرکار کی جانب سے نافذ کردہ کرفیو اور بندشیں بھی اتنی ہی پُرانی ہوچکی ہیں۔اس دوران میں کشمیریوں پر کیا بیتی ہے اور ابھی بھی وہ کن مصائب کا شکار بنے ہوئے ہیں ،سب عیاں ہے۔چناچہ قریب اسی بے گناہ سرکاری فورسز کی گولیوں اور ”غیر مہلک“چھرے دار بندوق سے چھلنی کردئے گئے ہیں جبکہ کم از کم دس ہزار افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے نہ جانے کتنے بد نصیب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آنکھوں کی روشنی کھو چکے ہیں۔جیسا کہ روز ہی اخباروں میں اور بعض ٹیلی ویژن چینلوں پر رپورٹ ہوتا آرہا ہے کہ سرکاری فورسز نے گھروں میں گھس کر املاک کو تباہ کردینے کو غیر اعلانیہ مگر ایک پالیسی کی طرح اپنایا ہوا ہے اور ابھی تک اس طرح کی کارروائیوں میں سینکڑوں گھروں کو تباہ کردیا جاچکا ہے۔

گوکہ کُتے بلیوں کے رومانس کی بے پر کی ”خبروں “پر گھنٹوں صرف کرتے رہنے اور ساس بہو کی نوک جھوک کی کہانیوں پر پرائم ٹائم میں بحث و مباحثے کرانے والی بھارتی ٹیلی ویژن چینلوں نے کشمیر میں جاری کشت و خون کے تئیں آنکھیں بندکر لی ہیں لیکن اسکے باوجود بھی دلی دربار کشمیر کے حالات سے بے خبر نہیں ہے البتہ اسے اپنے ”اٹوٹ انگ“کے شدید درد کی ٹیس تک کااحساس ہونے میں ڈیڑھ ماہ کا وقت لگا۔حزب اختلاف کی جماعتوں کے بار بار اسرار کئے جانے،تاکہ انہیں سیاست کرنے کا موقعہ ملے اور وہ قومی مفاد کے لئے خود کو ایک دوسرے سے زیادہ متفکر ثابت کریں ، پر پارلیمنٹ میں بحث کی گئی تو کشمیریوں کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی بجائے ”ہم سب ایک ہیں“کے نعرے لگاکر گویا اس طوفان بدتمیزی کی حمایت کی گئی کہ جو وادی میں سرکاری فورسز نے مچارکھا ہے۔جہاں فرقہ پرست جماعتوں نے کشمیر کی عوامی تحریک کو پاکستان کی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کشمیر کی گلیوں میں اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لئے قربان ہونے والوں کی تذلیل کی وہیں بقیہ جماعتوں نے پوری بحث کو چھرے دار بندوق کے ارد گرد گھما کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے پورا معاملہ ان بندوقوں کا متبادل تلاش کرنے کا ہو۔یعنی اس حوالے سے یوں بحث کی گئی کہ جیسے کشمیری عوام محض اسلئے مر رہے ہوں کہ وہ پیلٹ گن کی جگہ کسی اور بندوق سے مرنے کے خواہش مند ہوں۔وہ لوگ ،کہ جن پر پیلٹ گنوں کی بوچھاڑ کی جارہی ہے ،سڑکوں پر کیوں ہیں اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی جس سے بھارت کی ،مسئلہ کشمیر کے حل اور جموں کشمیر میں قیام امن کے تئیں،”سنجیدگی“کی قلعی کھل جاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں ”بحث“ہونے کے کئی دن اور بڑی لعت و لعل کے بعد مودی سرکار کُل جماعتی وفد کو کشمیر روانہ کرنے پر آمادہ ہوئی اور ایسا لگا کہ شائد با الآخر بھارت کا دل پسیج گیا ہے۔یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے بھارت سے اب کشمیریوں کی حالتِ زار دیکھی نہیں جاتی ہے اور اسی لئے ملک کے ”دانشمندوں“اور قانون سازوں کو یہاں بھیج کر مسئلے کا حل تلاشنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے تاہم ڈیلی گیشن کے چلے جانے پر بجا طور کہا جاسکتا ہے کہ ”آئے بھی وہ ،گئے بھی وہ اور ختم فسانہ ہوگیا“۔

وزیرِ داخلہ کی قیادت والے وفد کی وادی آمد سے دو ایک دن قبل سے ہی بھارتی ٹیلی ویژن چینلوں نے کچھ اس طرح کی خبریں چلانا شروع کیں”وادی میں پیلٹ گن کی جگہ مرچوں والے پاوا شیل کئے جائیں گے استعمال،وزیر داخلہ کے وادی دورہ سے پہلے کیندر کا بڑا قدم“۔یعنی جیسے یہ کوئی تکلیف دہ ہتھیار نہیں بلکہ الہٰ دین کا وہ چراغ ہو کہ جسے رگڑتے ہی کشمیریوں کے دکھ درد دور ہوجاتے۔اس طرح کی خبریں اس انداز سے چلائی جارہی تھیں کہ جیسے پاوا شیل نام کا کوئی خاص تحفہ لیکر وزیر داخلہ کشمیریوں کی برسوں پُرانی مانگ پوری کرنے آرہے تھے۔حالانکہ بھارت سرکار کو اپنے ”اٹوٹ انگ“کے لوگوں کے لئے یہ سب بھی زیادہ لگا اور اس نے فوری طور وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پیلٹ گن یا چھرے دار بندوق کو بند نہیں کیا جارہا ہے بلکہ پاوا شیل اسکے ساتھ ہی استعمال کیا جائے گا۔

کُل جماعتی وفد میں شامل بھارتی لیڈروں نے اپنے دورے کو سنجیدگی سے لیا ہوتا تو حالات شائد مختلف ہوتے اور اس دورے کے اس سے قبل کے اسی طرح کے دوروں سے مختلف ہونے کے اشارے ضرور مل گئے ہوتے۔چناچہ وفد میں شامل لوگ اس بات سے واقف تھے کہ وادی میں ستر کے قریب لوگ مارے جاچکے ہیں اور ہزاروں دیگر زخمی ہوگئے ہیں لہٰذا اپنے دورے کو خاص بنانے اور وادی کے عوام میں کسی حد تک اعتماد بحال کرنے کے لئے سرکار کو وادی آمد سے قبل ہی اعتماد سازی کے بطور کچھ اقدامات کرنے پر آمادہ کرسکتے تھے۔یہ ڈیلی گیشن ان حالات میں کشمیر کے دورے پر آرہا تھا کہ جب یہاں لوگ اب تک کے سب سے طویل کرفیو سے گذر رہے تھے اور احتجاجیوں کو جان سے مار دئے جانے کے علاوہ زندہ بچنے والوں کو اندھا کیا جارہا تھا۔ایسے میں کوئی یہاں کے لوگوں کی خبر گیری کرنے آنے والا تھا تو لازم تھا کہ وہ پہلے متاثرین و مصیبت زدگان کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا ثبوت دیتا جو وہ سرکار کو بعض اقدامات اعتماد سازی اور مزاحمتی قیادت کو بات چیت کی باجابطہ دعوت دینے پر آمادہ کرکے کرسکتا تھا….اس نے مگر ایسا نہیں کیا۔

اس بات میں شک نہیں ہے کہ بھارتی سیاستدانوں کے کل جماعتی ڈیلی گیشن کا دورہ¿ جموں کشمیر ناکام رہا لیکن سمجھنے کی بات ہے کہ یہ دورہ شروع ہونے سے قبل ہی تب ناکام ہوچکا تھا کہ جب بھارت سرکار نے مزاحمتی قیادت کو مدعو کرنے سے انکار کردیا۔چناچہ ڈیلی گیشن سرینگر آکر اُنہی لوگوں کے ساتھ ملاقی ہوکر چلا گیا کہ جو ویسے بھی بھارت سرکار کی سیٹی بجانے پر سر کے بل دلی جانے پر ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔محبوبہ مفتی ہوں،عمر عبداللہ یا پھر مین اسٹریم کا کوئی اور سیاسی لیڈر ان کے لئے دلی دور ہے اور نہ وہ دلی کے لئے دور ہیں بلکہ انہیں جب چاہے دلی طلب کیا جاسکتا ہے۔اگر ڈیلی گیشن کو انہی لوگوں کے ساتھ بات کرنی تھی تو پھر ڈیلی گیشن کا سرینگر آنا شائد ضروری بھی نہیں تھا۔ہاں اگر ڈیلی گیشن کے شرکاءواقعی کشمیریوں کی حالتِ زار دیکھ کر مر رہے ہوتے تو وہ مزاحمتی قیادت کے ساتھ نہ سہی سرینگر یا اس سے باہر جاکر لوگوں سے مل کر انکا حال جاننے کی کوشش کرتے ۔

جو لوگ کشمیری قیادت کو انسانیت کا درس پڑھانے لگے ہیں وہ اس بات پر تبصرہ کرنے سے کیوں کتراتے ہیں کہ جب بھارت سرکار نے قائدین کو دعوت ہی نہیں دی تو وہ کس سے اور کیسے ملاقات کرتے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہوسکتا ہے کہ سیتا رام یچوری اینڈ کمپنی بھارت سرکار کی رضامندی کے بغیر سید گیلانی وی دیگراں کے ساتھ ”ذاتی ملاقات“کرنے کی جسارت نہیں کرتی لیکن اس ”ذاتی ملاقات“سے ان قائدین کو کیا حاصل ہوسکتا تھا کہ جب بھارت سرکار کھلے عام اس ملاقات کو منظوری دینے تک پربھی آمادہ نہیں تھی۔اگر یچوری صاحب یا کسی اور لیڈر کو کشمیری قائدین سے ملنا ہی تھا تو انہیں کم از کم ان لوگوں کو پہلے حراست و نظربندی سے رہا کرانا چاہیئے تھا،سرکار چاہتی تو ان لوگوں کو بعدازاں پھر سے نظربند کرسکتی تھی اور یہ اسکے لئے ایک معمولی اور معمول کی بات ہے۔ایسے میں یقیناََ ایک ماحول بن سکتا تھااور مہمان لیڈر میزبانوں کو کسی حد تک یہ ماننے پر آمادہ کرسکتے تھے کہ اگر وہ اُنسے کوئی بات چیت کرینگے تو اسکی بھارت سرکار کے سامنے کوئی وقعت ضرور ہوگی۔

ان لوگوں ،کہ جنہیں گھروں یا جیلوں میں بند کرکے اس حد تک بے بس کردیا گیا ہو کہ وہ اپنے لوگوں کی نعشوں پر ماتم بھی نہ کرسکتے ہوں اور متاثرین کی ڈھارس بھی نہیں بندھا سکتے ہوں ،سے کیونکرتوقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پلکیں بچھائے منتظر رہیں گے ۔پھر یچوری صاحب کوئی پہلی بار سید گیلانی کے دروازے پر نہیں آئے تھے بلکہ وہ اس سے پہلے سید گیلانی کی انسانیت کا مشاہدہ کرچکے ہیں لیکن جیسا کہ خود سیتا رام یچوری نے اقرار بھی کیا ہے کہ انہوں نے 2010میں کشمیری قیادت کے ساتھ مفصل ملاقات کے بعد معاملے کا کوئی فالو اپ نہیں کیا اور اسے یونہی چھوڑ دیا جس سے یقیناََ اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔

دلچسپ ہے کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سید گیلانی کے بن بلائے مہمانوں پر دروازہ بند کردئے جانے میں سید گیلانی کے یہاں انسانیت کا فقدان تو پاتے ہیں لیکن قریب نوے سال کے اس دیندار بزرگ کو برسوں سے نمازِ جمعہ تک کے لئے جانے کی اجازت نہ دینے میں انہیں کچھ غیر اخلاقی یا غیر انسانی نظر نہیں آتا ہے۔پانچ سال کی بچی پر بدنام زمانہ پیلٹ گن کی بوچھاڑ کرکے اُسکی دُنیا میں ہمیشہ کے لئے اندھیرا کرنے ،کھریو شار میں بستر کے اندر سوئے ہوئے ایک اسکالر کی پیٹ پیٹ کر جان لئے جانے اور بستیوں میں گھس کر مکانوں کی توڑ پھوڑ کرنے اور اسباب خانہ کو تہہ و بالا کرنے میں انہیں کوئی بد اخلاقی نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی اس سے ”کشمیریت،جمہوریت اور اِنسانیت“پر ہی کوئی آنچ آتی ہے۔

پولس تھانوں اور سب جیلوں میں بند بے بسوں پر بات چیت سے انکار کرکے ”بد اخلاقی“کا ثبوت دینے کا الزام لگانے والوں کو زیرِ بحث ڈیلی گیشن کے بارے میں معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ اُن لوگوں تک کو بات چیت کے لئے مدعو کرتاہے کہ جنہیں شائد ہی اپنی بیگمات کے سوا کوئی جانتا بھی ہو لیکن سید گیلانی،عمر فاروق یا یٰسین ملک ،جن کے کشمیر کی اکثریت پر غالب اثر رکھنے سے شائد ہی کوئی صحیح العقل انکار کرسکتا ہے،وغیرہ کو نہ صرف یہ کہ دعوت نہیں دی جاتی ہے بلکہ وضاحتاََ انہیں نہ بلائے جانے کے اعلانات کئے جاتے ہیں ۔پھر جب یہ لوگ” گپ شپ “کرنے اور ایک ”مقصد“کے لئے کرائے جارہے فوٹو سیشن میں شامل ہونے سے بجا طوراِنکار کرتے ہیں تو انہیں اِنسانیت و اخلاق سے عاری قرار دیا جاتا ہے….جوکہ ایک بڑا ظلم ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شمار ہیں کہ جو اس طرح کے تاثر پر یقین کرتے ہیں یا اسے عام کرنے میں مددگار بنتے ہیں۔

امر واقع یہ ہے کہ نئی دلی نے جن حالات میں اور جس انداز میں مزاحمتی قیادت کو ”مصروف“کرنا چاہا تھا اسے دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا محال نہیں ہے کہ مزاحمتی قیادت کے پاس پیٹھ پھیرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔پھر فیس بُک ،ٹویٹر اور بعض نیوز ویب سائٹوں پر ”دانشوری“اور ”اسلامی اقدار“سے واقفیت رکھنے کے دم بھرنے والوں کو یہ قرانی حکم بھی کسی سے پتہ کرنا چاہیئے کہ اگر اپنے رشتہ داروں کے ہاں جانے کا ارادہ بھی ہوتو اُنہیں باضابطہ اطلاع دیں اور اُنکی اجازت کے بغیر گھر میں داخل ہونے کی کوشش بھی نہ کریں۔پھر جب معاملہ بہت بڑے تنازعے کا ہو وہ بھی تب کہ جب ایک فریق نے دوسرے فریق کے بچوں کی نعشیں گرائی ہوں تو ایسے میں بات چیت کے لئے ماحول بنانا اور سوگوار فریق کو تیار رہنے کے لئے پیشگی اطلاع دینا شائد زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔

بھارت سرکار کشمیر مسئلے کے حوالے سے در اصل ایک مخمصے کی شکار ہے کہ ایک طرف وہ چاہتے ہوئے بھی یہاں کی عوامی تحریک کو نظر انداز نہیں کر پاتے ہیں تو دوسری جانب ملک کی دو اہم ریاستوں میں ہونے جارہے انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھاجپا کشمیر کے حوالے سے سخت سے سخت پالیسی پر کاربند رہنا چاہتی ہے۔اگر بھاجپا اس مخمصے کا شکار نہیں ہوتی تو پھر ایک طرف حریت سے ملنے سے انکار نہیں کیا جاتا اور دوسری جانب سیتا رام یچوری،اسدالدین اویسی یا دیگراں کو مزاحمتی قیادت کے پاس نہیں بھیجا گیا ہوتا۔بھاجپا کا مخمصہ اس بات سے بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ایک طرف راجناتھ سنگھ مزاحمتی قیادت کے بھارتی لیڈروں پر دروازے بند کردئے جانے پر انسانیت اور کشمیریت کا رونا روتے ہیں تو دوسری جانب مزاحمتی قیادت کو غیر متعلق ”ثابت“کرنے کے جتن کئے جاتے ہیں۔سوال ہے کہ اگر مزاحمتی قیادت واقعی مسئلہ کشمیر یا یہاں جاری عوامی تحریک کے حوالے سے غیر متعلق ہے تو پھر سیتا رام یچوری وغیرہ کو اس قیادت کے دروازے پر کیوں بھیجا گیا اور اگر یہ قیادت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اہم ہے تو پھر پوچھا جاسکتا ہے کہ بھارت سرکار نے اسے مصروف کرنے کو انا کا مسئلہ کیوں بنایا ہوا ہے۔

ابھی تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بھارت سرکار کشمیریوں کو تھکا نے کی پالیسی پر کاربند ہے،یہاں آئے روز ہورہے قتل عام کو نظرانداز کرکے نوکریوں،پیکیجز،ترقی وغیرہ کی باتیں کرکے ایک طرح سے کشمیریوں کی سیاسی خواہشات کا مذاق اپڑایا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ جموں کشمیر میں بے روزگاری نہیں ہے،سڑک،پانی اور بجلی کے مسائل نہیں ہے اور یہاں کے لوگ ترقی کے حوالے سے بقیہ دنیا سے پچھڑے ہوئے نہیں ہیں لیکن یہ مسائل تو دلی،یوپی اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی ہیں لیکن وہاںآج تک ایک بار بھی لوگ کشمیریوں کی طرح مہینوں ہڑتال پر کبھی نہیں بیٹھے اور نہ ہی اُنہوں نے کبھی بندوق یا پتھر اُٹھایا۔

بھارت کے ٹیلی ویژن چینل یا وزیر اعظم کے ”مہم جُومشیر“جموں کشمیر کی مزاحمتی قیادت کے تئیں سختی بھرتنے،جموں کشمیر میں مزید فوج بٹھانے اور نا جانے کیا کیا کرنے کی دھمکی دینے سے پہلے سے پامال ہوچکے کشمیر میں خوف کی مزید لہریں اُٹھا تو سکتے ہیں لیکن ان حربوں سے یقیناََ یہاں کی زمینی صورتحال پر ایسی معمولی تبدیلی کی بھی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ جسے دیکھ کر بھارت کچھ سکون حاصل کرسکے۔بُرہان وانی کے کشمیر ملی ٹینسی کے ”پوسٹر بوائے“بن جانے اور پھر اُنکے مارے جانے کے بعد کے حالات نے یہ بات تقریباََ واضح کردی ہے کہ کشمیری عوام میں خوف اور ڈر تقریباََ ختم ہورہا ہے اور وہ اب بڑی حد تک بے پرواہ ہوکر بغاوت پر آمادہ دکھائی دے رہے ہیں جو کہ بھارت کے ”مہم جو مشیروں“کے لئے یقیناََ پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔چناچہ جن لوگوں پر تہمتیں لگا کر بھارتی ادارے اُنہیں بے وقعت ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں وہ در اصل کشمیریوں کے لئے بے وقعت نہیں ہیں۔ بلکہ تمام تر نقصانات اُٹھانے کے باوجود بھی کشمیری عوام اب سرِ نو اُنہی کے کہنے پر دو ماہ سے اپنے شب و روز کی سرگرمیوں کا ”غیر روایتی“بلکہ ”غیر فطری“پروگرام بناتے ہیں اور اس پر من و عن عمل کرتے ہیں جبکہ سرکار تمام تر طاقت رکھنے کے باوجود بھی ان ”بے وقعت عناصر“کے فرمان کو نافذ ہونے سے روک نہیں پاتی ہے۔

حالانکہ ایک لمبے مون بھرت کو توڑتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کچھ دن قبل ،یہ اعتراف کرکے کہ مسئلہ کشمیر کے بیچ 1947میں ہی بوئے گئے تھے،یہ اُمید ضرور جگائی تھی کہ شائد وہ اس مسئلے پر حقیقت پسندانہ سوچ اپنانے پر آمادہ ہیں لیکن انکی حکومت،پارٹی اور اداروں نے کشمیریوں کی جاری جدوجہد کو جس بچگانہ انداز میں لینے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے فی الواقع کسی بات چیت سے کسی چمتکار کی اُمید کرنا عبس ہے حالانکہ دنیا کے کسی بھی مسئلے کا حل فقط بات چیت سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔بات چیت تنازعے کے مختلف فریقوں کے ،چاہے آپ کی آنکھوں کو وہ اچھے لگتے ہوں یا نہیں یا آپ اُنہیں اپنے برابر سمجھتے ہوں یا نہیں،درمیان ہو تو تنازعے کے حل پر منتج ہوسکتی ہے اپنے آپ کو پہلوان سمجھنے والے ہم کلامی کرتے رہیں تو اُس سے اُنکا مذاق ہی اُڑتا ہے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔

 

(یہ مضمون پہلے ستمبر ۲۰۱۶ میں شاءع ہوا تھا)

Share24Tweet15Share6Send
صریر خالد

صریر خالد

Related Posts

lithium in jammu and kashmir
آج کے کالم

کشمیر میں لیتھیئم کی دریافت

by صریر خالد
February 17, 2023
191
پرواز سلطان ابنِ صفیؔ کا کرنل فریدی
آج کے کالم

پرواز سلطان ابنِ صفیؔ کا کرنل فریدی

by صریر خالد
February 1, 2021
854
آج کے کالم

اور میرا پیشاب نکل گیا۔۔۔!

by حمیداللہ شاہ
January 20, 2021
277
آج کے کالم

’’گُلمیوٹھ‘‘ جس نے ایک خاندان کو بدل دیا!

by حمیداللہ شاہ
January 3, 2021
349
آج کے کالم

’’سلام بابُن گرٔٹہ‘‘ اور میری آنکھوں کے کھنڈرات!

by صریر خالد
January 28, 2021
448
  • Trending
  • Comments
  • Latest
کمیشن نہیں تنخواہ چاہیئے:فئیر پرائس شاپس کا مطالبہ

کمیشن نہیں تنخواہ چاہیئے:فئیر پرائس شاپس کا مطالبہ

February 3, 2021
کیا آپ کو قربانی کے مسائل معلوم ہیں؟

کیا آپ کو قربانی کے مسائل معلوم ہیں؟

August 19, 2018
سلمان کو پاکستان کا سونے کی بندوق کا تحفہ

سلمان کو پاکستان کا سونے کی بندوق کا تحفہ

February 18, 2019
پرواز سلطان ابنِ صفیؔ کا کرنل فریدی

پرواز سلطان ابنِ صفیؔ کا کرنل فریدی

February 1, 2021

کولگام میں 6کشمیری جاں بحق،2فوجی بھی ہلاک

1
بھاجپا سے ملکر پردے کے پیچھے بڑارول نبھایا:لون

بھاجپا سے ملکر پردے کے پیچھے بڑارول نبھایا:لون

1
مودی صاحب خُدا کا انتخاب ہیں،بھارت ماتا ہم سب کی ماں:مظفر بیگ

مودی صاحب خُدا کا انتخاب ہیں،بھارت ماتا ہم سب کی ماں:مظفر بیگ

1
دفعہ370کو دفع کرنے کا وقت آ  گیا ہے:بی جے پی

دفعہ 35-Aقصور کس کا ،ذمہ داری کس کی؟

1

جموں کشمیر میں انتخابات کا اشارہ

March 3, 2023
برطانیہ جانے سے قبل راہُل گاندھی نے بالآخر۔۔۔

برطانیہ جانے سے قبل راہُل گاندھی نے بالآخر۔۔۔

March 2, 2023
قبل از وقت گرمی سے ’پریشانی کے شگوفے‘

قبل از وقت گرمی سے ’پریشانی کے شگوفے‘

March 2, 2023
کشمیرمیں حالات پہلی بار تو نہیں بگڑے ہیں:شاہ

دلی کی ٹیم جموں میں نہایت مصروف

March 2, 2023
Tafseelat - تفصیلات

11th Year of Publication
Copyright © 2023 Tafseelat
Designed, Developed & Maintained by Acmosoft

Navigate Site

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ کیجیے
  • ٹیم تفصیلات

Follow Us

No Result
View All Result
  • جموں کشمیر
  • بھارت
  • دیگر اہم خبریں
  • کھیل/سائنس
  • کاروبار/ سیاحت
  • مزید
    • انٹرویو
    • تازہ ترین
    • لطیفے/گھریلو ٹوٹکے
    • میٹھی مرچیں
    • آج کے کالم
    • تصویروں کی زبانی

11th Year of Publication
Copyright © 2023 Tafseelat
Designed, Developed & Maintained by Acmosoft

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
Go to mobile version