سیلاب … بہت بے بس نگر یہ تھا!

صریر خالد
جموں و کشمیر کے لئے سیلاب کی شکل میں آئی قیامت کو گذرے اب کئی دن ہو گئے ہیں لیکن اس قیامت کو دیکھنے کے بعد زندہ بچے لوگوں کے لئے وقت ہے کہ جیسے گذرتا ہی نہیں ہے۔میں ذاتی طور برسوں بعد لگاتار کئی ہفتوں سے بزمِ سہارا سے غیر حاضر رہا ہوں ،یقین جانئے کہ اچانک ہی پتہ چلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کئی ہفتے گذر چکے ہیں۔در اصل قہر بن کر برسے پانیوں کے سامنے گھر بار اور مال ومتاع سب کچھ ہارنے والے کشمیریوں کی راتیں اتنی لمبی ہو گئی ہیں کہ اُنہیں دنوں کی گنتی اور نام جیسے یاد بھی نہیں ہیں۔آخر جب وہ دیواریں ہی باقی نہ رہی ہوں کہ جن پر لٹکتے کلینڈر دنوں کو مٹانے اور اُبھارنے کا کام کرتے تھے تو کھلے آسمان تلے رہنے والے بھلا کس طرح یاد رکھیں کہ دن کونسا ہے اور تاریخ کیا۔

ہاں ایک بات مگر شائد ہی کوئی کشمیری کبھی بھول سکے گا کہ اُس نے قیامت کے اُن مناظر کی جھلک دیکھی ہے کہ جن کے تذکرہ سے خدا بندوں کو ڈرا کر اُنہیں راہِ راست پر آنے کی ترغیب دیتا رہا ہے۔وہ منظر یقیناََ بھیانک بہت بھیانک تھا اور کبھی نہ بھولنے والا کہ جسے دیکھ کر اہلِ کشمیر سہمے ہوئے ہیں۔حالانکہ کشمیریوں کے لئے تباہی کے مناظر نئے ہیں اور نہ ہی اجتماعی اموات کی داستانیں بلکہ بد نصیبوں کی اِس قوم اور غیر فطری قہرسامانیوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے لیکن جو ستم اس ستمبر نے ڈھایا اُسکی کشمیر میں کیا شائد اسکے آس پڑوس کی تاریخ میں بھی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ کشمیر کی ،اب تک کی سب سے بڑی،تباہی کا تازہ باب یوں اچانک،بھیانک اور غیر متوقع طور رقم ہوا کہ جس پر دل یقین کرنے کو مانتا بھی نہیں ہے ۔ اُجڑی بستیاں،نابود ہوئے گھر، دربدر پھر رہے ہزاروں متاثرین کی خون کے آنسو رلا دینے والی کہانیاں مگر مجبور کرتی ہیں کہ نا قابلِ یقین مناظر کو حقیقت کے بطور قبول کر ہی لیا جائے۔چناچہ سیلاب کی وجہ سے وادی کشمیر کا نظامِ حیات یوں بُری طرح سے بگڑ چکا ہے کہ ابھی تک لوگوں کو اصل نقصان کے بارے میں پوری معلومات بھی دستیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ٹیلی فون،اخبارات اور کمیونکیشن کے دوسرے ذرائع کے تقریباََ نا بود ہوجانے، متعدد علاقوں کے ابھی تک زیرِ آب ہونے اور رابطہ سڑکوں کے نا قابلِ عبورومرور ہونے کہ وجہ سے لوگ ایک دوسرے تک پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی قیامتِ صغریٰ کے پیچھے چھوڑ چکے اثرات کا تفصیلی جائزہ لے پاتے ہیں۔ایسے میں کسی صحافی کے لئے ایک جامع رپورٹ لکھنا شائد ممکن بھی نہیں ہے۔ٹیلی فون،انٹرنٹ،فیکس یا اس طرح کی دیگر سہولیات کی عدم دستیابی میں پیشہ ورانہ رپورٹنگ تقریباََ نا ممکن ہے لیکن تمام تر مشکلات کے با وجود بھی اپنی آپ بیتی کو بزمِ سہارا میں پیش کرنے کی کوشش میں ہوں نہ معلوم کہ چند سطور تحریر کرنے کے بعد اسے ڈیسک کو روانہ کرنا ممکن بھی ہو جائے گا یا نہیں۔

نصف سال تک یخ بستہ ہواوں سے دوچار رہنے اور منجمد کر دینے والی برف سے ڈھکی رہنے والی وادی کشمیر میں برسات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہاں برسات ہونا کسی فکر مندی کی وجہ ہو سکتی ہے۔اس بار بھی بارشیں معمول کے مطابق ہی شروع ہوئیں اور آسمان چند دن تک لگاتار برستا رہا۔میری اہلیہ اورچار سال کی اکلوتی بچی چونکہ سخت بیمار تھیں اور میں اُنکی تیمار داری میں اکیلا،خراب موسم میں میرے لئے صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا،سوچا محترمہ کو میکے لیجایا جائے کہ وہاں اُنکی تیمارداری بھی ہوجائے اور ایک عرصہ سے میکے ہو آنے کا اُنکا مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا۔ایک تیر سے دوشکار کرنے میں برسات کے دوسرے دن کی شام کو کشمیر یونیورسٹی سے چند ایک کلومیٹر شمال کی جانب گلاب باغ نامی علاقہ میں واقع اپنی سُسرال کے لئے روانہ ہوا۔بارشوں میں کوئی وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں سرینگر شہر میں نکاسی آب کے ہمیشہ ہی بیمار رہنے والے نظام نے دم توڑ دیا وہیں اضلاع و دیہات کے چھوٹے بڑے دریاوں میں طغیانی کی خبریں بھی موصول ہونے لگیں۔مقامی تو مقامی پریس غیر کشمیری اخبارات و ریڈیو پر بھی اس طرح کی خبریں تاہم معمولی انداز میں نشر ہونا شروع ہوئیں مگر سرکاری سطح پر کوئی الارم بجایا گیا اور نہ ہی کوئی ایسی سرگرمی ہی دیکھنے میں آئی کہ جس سے سرکار کے سیلاب کے لئے تیار ہونے کا عندیہ ملتا ہو۔

6ستمبر کی صبح کو میں لالچوک آیا جہاں میں نے کئی بازاروں کو زیرِ آب تو دیکھا لیکن نکاسی آب یا اس طرح کی کوئی سرگرمی کرتا کوئی سرکاری اہلکار نظر نہیں آیا۔پیشے کے تقاضوں کے عین مطابق میں دن بھرشہرِ سرینگر کے بیچوں بیچ گذرنے والے دریائے جہلم کے کئی مقامات پر گیا جہاں پانی کی سطح ہر آن بلند ہو کر نئے نشانات کو چھو رہی تھی لیکن صورتحال جیسے غیر معمولی نہ تھی۔شام ہوتے ہوتے تاہم مختلف علاقوں میں سیلاب آنے کی خبریں موصول ہوئیں اور پھر رات دیر گئے کسی دوست نے مجھے بتایا کہ شہر کے پوش جواہر نگر،راجباغ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں ریڈ الرٹ ہو گیا ہے اور سیلاب آنے کا خطرہ ہے۔سرکاری سطح پر تاہم کوئی اعلان نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگ اس قدر خوابِ خرگوش میں مست رہے کہ اُنہیں تب تک اُنکے یہاں پانی جمع ہونے کا گمان تک نہ گذرا کہ جب تک سیلاب کے پانی نے اُنکے لئے ہر راہِ فرار کو مسدود نہ کردیا اور وہ موت کے منھ میں نہ پھنس گئے۔میرے دوست نے مجھے فوری گھر آکرگھریلو سامان محفوظ کرنے کی صلح دی جو میرے لئے ایک بہترین مشورے سے کم نہ تھی لیکن تب تک چونکہ مختلف علاقوں میں زبردست سیلاب آنے کی خبریں آچکی تھیں میں دیر رات باہر آنے کی جرات نہ کرسکا۔

صبح تڑکے میں چوری چُھپے گھر کی جانب روانہ ہوگیا مگر میری اہلیہ چُپکے سے میری گاڑی میں آبیٹھیں اور مجھے اکیلے نہ چھوڑنے کی ضد کرنے لگیں ۔بچی کو وہیں چھوڑ کر انتہائی خوف و نا اُمیدی کے عالم میں ہم روانہ ہوئے ،علی جان روڑ سے ہوتے ہوئے میری گاڑی سیول لائنز کی جانب رواں تھی،سب جیسے روز کی طرح ہی تھا،یہاں تک کہ میں کسی رکاوٹ کے بغیر کشمیر کے سب سے بڑے اسپتال ”شری مہاراجہ ہری سنگھ اسپتال“(ایس ایم ایچ ایس) کے پاس پہنچا۔اسپتال سے تھوڑا ہی آگے جاکر ہم دونوں کی تب چیخیں نکل گئیں کہ جب ہم نے عام دنوں میں ایک مشہور سڑک کے بطور پہچانی جانی والی کرن نگر کی سڑک پر سے ایک تیز بہاو والا دریا بہتا دیکھا،تاہم رُکے بغیر میں نے ایک دوسرا راستہ اپنایا اور گاڑی دوڑاتے ہوئے بائی پاس پر آگیا۔بٹہ مالو سے نکل کر جونہی میں ٹینگ پورہ کے پُل کے پار ہوا تو جیسے اچانک ہی میں ایک ایسی دنیا میں پہنچ گیا کہ جہاں سے اس سے قبل میرا کبھی گذر بھی نہ ہوا ہو۔حالانکہ عام دنوں میں یہی بائی پاس میرا راستہ ہے اور ٹریفک جام سے بچنے کے لئے میں یہیں سے اپنی پسند کے نمبر سنتا ہوا گاڑی دوڑاتا رہتا ہوں۔بائی پاس کی سڑک جیسے دریائے جہلم میں بدل گئی ہو کہ جہاں پانی کی سطح خوفناک انداز میں بلند ہو رہی ہو۔یہاں افراتفری کا عالم تھا،میں نے اپنی گاڑی یہیں چھوڑی اور بیوی کو لیکر پیدل بھاگنے لگا۔یہاں ایک صحافی دوست سے ملاقات ہوئی جنہوں نے یہ مژدہ سنایا کہ جواہر نگر میں اُنکی رہائش ڈھوب چکی ہے اور وہ زیبِ تن کئے ہوئے کپڑوں کا جوڑا اور محض ایک لیپ ٹاپ لیکر بھاگ پائے ہیں۔اُنہوں نے خوفزدہ انداز میں کہا”میں تو مشکل سے ہی نکل سکا،محض ایک لیپ ٹاپ بچا پایا ہوں لیکن شکر ہے کہ جان بچی“۔حالانکہ مذکورہ دوست کی وساطت سے یہ معلوم ہوا کہ جواہر نگر کا علاقہ ڈھوب چکا ہے لیکن مجھے اندازہ تک نہیں ہو پایا کہ ہزاروں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ میرا پورا قبیلہ اِس قدر خطرے میں پڑ گیا ہے کہ اس کا زندہ بچنا محال ہو گیا ہے۔

شہر کا بیشتر حصہ انتہائی خطرناک انداز سے غصیلے پانیوں کے تلے نابود ہو رہا تھا ،چناچہ دوپہر ہوتے ہوتے موبائل فون کا نظام پوری طرح بیٹھ گیا جس سے پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوا کہ سیلاب میں پھنسے لوگ کسی کو مدد کے لئے پکارنے کے قابل بھی نہیں رہے تھے اور نہ ہی قدرتی قہر سے بچے لوگ ہی مصیبت میں پھنسے اپنے دوست و احباب کے بارے میں ہی کچھ جان پا رہے تھے۔وہ حالات کیا تھے اور افراتفری کا عالم کیا تھا اسکی ترجمانی کے لئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں لیکن صورتحال کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ بائی پاس پر پہنچکر ہم نہ ہی گھر جانے کے قابل رہے تھے اور نہ ہی اپنی بچی کے پاس لوٹنے کے لائق۔دراصل ہم جہاں جہاں سے ہوکر بائی پاس تک پہنچے تھے ہمارے گذرتے ہی وہ علاقے زیر آب آکر ہمارے لئے واپسی کے سبھی راستوں کو فنا کر گئے تھے۔

بڑی مشکل سے ہم اپنی بقا کی ہر اُمید چھوڑ کر پانیوں میں اُترے اور غیر متوقع طور پار ہو کر قدرے محفوظ ہو گئے تاہم ایک طرف ہماری بچی ہم سے دور تھی تو دوسری جانب سارا قبیلہ ،جو ایک شادی کے سلسلے میں ایک ہی جگہ جمع تھا،اس حالت میں تھا کہ بچ نکلنے کی اُمیدیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔حالانکہ میں بظاہر خود محفوظ ہو گیا تھا تاہم گھر کی خبر تھی نہ گھر والوں کی،افراتفری کے عالم میں انڈیا ٹوڈے گروپ کے ساتھ وابستہ ایک صحافی دوست ملے جو پاگلوں کی طرح اپنے عیال کو ڈھونڈ رہے تھے۔مجھے دیکھ کر مذکورہ کو ایک اُمیدسی ملی ،ہم گلے ملے اور دھاڑیں مار کر رونے لگے،یہ بے بسی کا عالم تھا۔ہم جیسے ہزاروں پریشانِ حال لوگوں میں سے ایک نے ہمیں دلاسا دیا اور کہا کہ شکر کرو خود بچ نکلے ہو لیکن اُنکی اس بات پر مجھے یہ شعر یاد آگیا

میں بچ بھی گیا تو تنہائی مار ڈالے گی
میرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے

فون یا کمیونکیشن کے دیگر ذرائع کے دستیاب نہ رہنے کی وجہ سے کسی کو اپنے حال کے سوا کسی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور کوئی اس حالت میں نہیں تھا کہ اپنے حالات سے اپنوں کو آگاہ کر سکے۔تاہم اتنا معلوم ہوپارہا تھا کہ تقریباََ نصف سے کہیں زیادہ کشمیر خطرناک سیلاب کی زد میں ہے۔جنوبی کشمیر کے پلوامہ،کولگام،شوپیاں اور اننت ناگ جیسے اضلاع میں کئی دیہات کے بارے میں یہ دل آزار خبریں تھیں کہ وہاں سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اور ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکلانے کی کوئی سبیل نہیں ہو پا رہی ہے۔صورتحال کے سرسری تجزیہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے جموں و کشمیر کی سرکار سیلاب کے پہلے ریلے ہی کا شکار ہو گئی ہو اور پانی کے ساتھ بہہ کر کہیں منوں مٹی کے تلے دب گئی ہو۔لوگوں کے بچاو میں کچھ کرنا تو دور حالات کے بارے میں اطلاعات کی نشریات تک اپنے وقت کے ”ہائی ٹیک اور نوجوان وزیرِ اعلیٰ“عمر عبداللہ کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔سیلاب کی شدت تھم جانے کے بعد عمر عبداللہ نے البتہ اسقدر ”بہادری“ضرور دکھائی کہ اُنہوں نے اُنکی سرکار کے کئی دن تک نابود رہنے کا اعتراف کیا ہے۔

سرینگر میں سیلاب آنے کے پہلے اور دوسرے دن میرے لئے جواہر نگر،جہاں میرے علاوہ میرے سب لوگ موت و حیات کے بیچ جھول رہے تھے،جانا ممکن نہیں ہوپایا۔اپنے خاندان کے لئےماہی بے آب کی طرح تڑپتا ہوا میں ایک ایسے جزیرے میں بند تھا کہ جہاں سے نکلنا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔بائی پاس کے قریب جس علاقے میں میں اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھا وہاں جمع لوگوں میں یہ خبر پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھی کہ بچاو کارروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کہیں کوئی فوجی یونٹ کام پر ہے بھی تو وہ غیر ریاستی مزدوروں ،سیاحوں اور اس طرح کے ”اہم لوگوں“کے بچاو کو ترجیح بنائے ہوئے ہے۔9تاریخ کو میں بچتے بچاتے اور کہیں کہیں تیرتے ہوئے جواہر نگر کی سرحد تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

یہ ایک بد ترین منظر تھا ،تقسیمِ ہند کے وقت کے جو حالات کتابوں میں درج ہیں،ایسا لگ رہا تھا کہ اُنہی حالات کی ایک فلم سرینگر میں نمائش کے لئے رکھی گئی تھی۔افراتفری،دھکم پیل،خوف و ڈر،نا اُمیدی اور بے بسی کا ایسا عالم کہ جس کا تصور کرتے ہی ڈر لگے۔جس جگہ سے جواہر نگر کے لئے کشتیاں جاتی تھیں وہاں تک پہنچتے پہنچتے میں کئی لوگوں سے ملا جو اپنے بچوں سے جدا ہو گئے تھے جبکہ کئی بچے اپنے والدین کے لئے بلک بلک کر رو رہے تھے۔ایک ماں کو میں نے پاگلوں کی طرح ہر گذرنے والے سے یہ سوال کرتے دیکھا کہ اُنہیں اُنکی حاملہ بیٹی سے ملایا جائے ۔میری جان پہچان کے کئی اعلیٰ افسروں کو میں نے ننگے پیر بھاگتے دیکھا جو اپنے بچوں یا دوست احباب سے جُدا ہو گئے تھے۔گوگجی باغ نام کے پاش علاقہ کے دلفریب بنگلوں کی تیسری منزل تک پانی دیکھنے پر ایسا لگ رہا تھا کہ کسی ہالی وُڈ فلم کے مناظر ہیں یا یہ کوئی ڈراونا خواب ہے۔اس طرح کے مناظر دیکھ کر آگے بڑھنا مشکل ہو رہا تھا لیکن اپنے خاندان تک پہنچنے کی تڑپ مجھے خود غرض بنا رہی تھی اور میں راستے میں ملنے والی قہرسامانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔

مجھے نہیں معلوم کہ اِن خبروں میں کتنی صداقت ہے کہ فوج کا Rescue Operationکسی جانب Biasedتھا یا نہیں لیکن یہ بات دن کی روشنی کی طرح سچ ہے کہ فوج کی کشتیوں میں غیر کشمیریوں کی اکثریت دیکھی جارہی تھی۔اپنے رشتہ داروں کو بچانے کے لئے پریشان کشمیریوں کا مطالبہ تھا کہ پختہ ہوٹلوں میں موجود سیاحوں سے پہلے اُن کشمیریوں کو کنارے لگایا جائے کہ جنکے مکان قدرے خستہ ہونے کی وجہ سے گر سکتے ہیں۔تین گھنٹوں تک زارو قطار رونے،جھگڑتے رہنے اور پاگل پن کی حدیں چھوتے رہنے کے بعد میں ایک فوجی کشتی میں سوار ہونے میں کامیاب رہا ،میرے لئے جواہر نگر کے اُن راستوں کا تعین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جن پر چلتے ہوئے میں جوان ہوا ہوں۔کشتی بان فوجی مجھے گالیاں دے رہے تھے کہ میں اُنہیں گھر کا صحیح راستہ نہیں بتا پا رہا تھا۔میرے لئے گھر کے راستے کا تعین مشکل کیوں نہیں ہوتا کہ جن گلیوں پر سے میں ہولے ہولے گذرتا رہا ہوں اُن کا کہیں کوئی نشان بھی نہیں تھا بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک کشتی میں سوار کسی ایسے سمندر کی سیر پر ہوں کہ جو اچانک ہی وجود میں آگیا ہو۔ کشتی بان فوجی میرے گھر کی بجائے اب دوسرے راستے جانے کا فیصلہ لے رہے تھے اور میں رورو کر اُن کے پیر پکڑ رہا تھا کہ وہ میرے خاندان والوں کو کنارے لگانے میں میری مدد کریں۔راستے میں کئی مکانوں کو نابود ہوتے دیکھ کر میرا دل بیٹھا جا رہا تھا اور میں اپنوں کو زندہ دیکھنے کی اُمیدیں چھوڑنے لگا تھا۔کئی لوگ ہم سے اُنہیں بچانے کی منتیں کر رہے تھے اور جب بھوکے پیاسے کئی لوگوں کو میں نے پانی میں ڈھوبے مکانوں کی چھت پر چڑھے دیکھا تو اُنہیں بے یارومددگار چھوڑ کر آگے جانا بد ترین خود غرضی لگ رہی تھی لیکن میں جیسے اپنے مزاج کے برعکس واقعی بہت خود غرض ہو گیا تھا۔ پھر جب میں نے دور سے تیرہ دن کے دولہے اپنے خالہ زاد کو تیسری منزل کی کھڑکی پر کھڑا دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر پایا۔

سطحِ زمین سے قریب 25فٹ اونچے پانیوں پر سے لوگوں کو مکان کی تیسری منزل سے کشتی میں سوار کرنا عجیب بھی لگ رہا تھا اور خوفناک بھی،دو منٹ میں لوگوں کو کشتی میں سوار کرکے ہم یہاں سے چلے گئے،کشتی میں سوار لوگوں میں موت کے منھ سے نکل کر سفرِ حیات پر نکلنے کی خوشی بھی تھی اور ہنستی کھیلتی بستیوں کے ویران ہونے سے پھیلی دہشت بھی۔اپنی ہمسائیگی میں رہنے والی ایک بوڑھی اماں،جو ایک کالج سے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے بطور ریٹائر ہونے کے بعد اپنے نوکر کے ساتھ رہتی ہیں،کو کشتی میں سوار کرنے کی فوجی کمانڈر سے درخواست کی لیکن وہ یہ کہکر آگے بڑھےShe has lived her life let her dielets take her servant with as he is a young man and deserves to liveمیں نے یہ سوچ کر اُنکے نوکر کو نہ لینے کی منت کی کہ اماں کو اکیلے مرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔راستے میں فوجی کمانڈرنے ایک غیر مسلم بزرگ خاتون،جو ہمارے پڑوس کی اماں کی عمر سے کہیں زیادہ بوڑھی تھیں،کو مکان کی چوتھی منزل سے اُتار کر کشتی میں سوار کیا۔میری اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ میں مذکورہ سے یہ پوچھتا کہ اگر بوڑھوں کو مرنے کے لئے چھوڑنا ہی ہے تو پھر ہماری پڑوسن کا نمبر پہلے کیسے آسکتا ہے جبکہ وہ اُن اماں سے کہیں چھوٹی تھیں کہ جنکی فقط یہ خاصیت تھی کہ وہ دوسرے فرقے کی تھیں۔

تاریخ کے اس بدترین سیلاب سے کتنا نقصان ہوا،کتنے لوگ مرے،کتنی جائیدادیں گئیں اور یہ سب باتیں ابھی واضح نہیں ہیں کہ رابطہ سڑکیں نا قابلِ عبور اور کمیونکیشن کے ذرائع مفقود ہیں۔سرینگر کی بیشتر بستیاں اب بھی زیرِ آب ہیں اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوکر مختلف سڑکوں،میدانوں اور مساجدمیں مقیم ہیں۔نقصانات اور اس سے جُڑی چیزوں کا تعین اور اس پر بحث ایک الگ موضوع ہے۔سیلاب کیوں آیا،کیا یہ مکمل طور ایک قدرتی آفت تھی یا پھر اس میں انسانی مداخلت ہے ،یہ بھی ایک الگ موضوع ہے اور اس پر بات کرنا محفوظ مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے لیکن ان سبھی موضوعات پر بات کرنے کے لئے ابھی وقت درکار ہوگا لیکن ابھی تک جو بات واضح ہے وہ یہ کہ کشمیر تباہ ہو چکا ہے….اس قدر کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔البتہ جو چیز کشمیر کو پھر سے سر اُبھارنے کی ہمت دے سکتی ہے وہ کشمیریوں کا وہ اتحاد کہ جسکا مظاہرہ کرکے اُنہوں نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔

قدرتی آفات پر قابو پانا کسی بھی طاقت یا تیکنالوجی کے لئے ممکن نہیں ہو سکتا ہے لیکن ان آفات کو Manageکرنے میں سرکار کے بُری طرح ناکام ہونے کے باوجود لوگوں نے جس ہمت و بہادری کا اظہار کیا اُسکی کہیں کوئی مثال نہیں ملے گی۔جس وقت سرکار نے کشمیریوں کو بے بسی کی موت مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا مقامی نوجوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھکر مصیبت زدگان کو بچا لایا اور پھر لنگر لگاکر متاثرین کے قیام و طعام کا انتظام کیا۔ایک طرف کشمیر کی موجودہ موجودہ خستہ حالت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کشمیری کی کہانی ختم ہو گئی ہے اور دوسری جانب مقامی لوگوں کے جذبہ ایثار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کشمیر باقی رہے گا اور پھرسے اُبھرے گا….!!!(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)
نوٹ:صریر خالد کی یہ آپ بیتی گذشتہ سال کے سیلاب کے چند ہفتے بعد (25ستمبر2014) کو ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے اور یہ نئی دلی سے شائع ہونے والے بین الاقوامی سطح کے جریدے عالمی سہارا میں شائع ہوئی تھی۔ صدی کے اس خوفناک سیلاب کی پہلی برسی کے موقع پر اسے قارئین کی دلچسپی کے لئے دہرایا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔(ادارہ تفصیلات ڈاٹ کام)
(یہ مضمون پہلے ستمبر ٢٠١٤ کو شائع ہوا تھا)

Exit mobile version