کامن ویلتھ کانفرنس اور کشمیر!

صریر خالد
اسوقت جبکہ ہندوپاک کے مابین تعلقات کو پٹری پر لانے کے لئے کئی سطحوں پر کوششیں جاری ہیں اور روس کے شہرِ اوفا میں ہوچکی مودی-نواز ملاقات کو سنگِ میل بتاتے ہوئے دونوں ممالک کے تجزیہ نگار اپنے اپنے انداز میں نتائج و اثرات مرتب کرنے میں مصروف ہیں مسئلہ کشمیر کے کانٹے نے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔پاکستان میں اگلے ماہ کے لئے طے ”کامن ویلتھ پارلیمنٹیرین کانفرنس “(سی پی سی)میں جموں و کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کو مدعو کئے جانے سے پاکستان کے انکار اور ہندوستان کی جانب سے اسے وقار کا مسئلہ بنائے جانے سے دونوں ممالک کے استوار ہورہے تعلقات ہی نہیں بلکہ انکا بہت کچھ داو پر لگ گیا ہے۔جہاں نئی دلی نے مذکورہ اہم کانفرنس کے بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے وہیں پاکستان نے کسی بھی صورت اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کو مسترد کرتے ہوئے گویا اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔اس ساری صورتحال میں کشمیر کے حوالے سے دونوں ممالک میں مزید مخاصمت اور دونوں کی پالیسیوں میں مزید جارحیت کا امکان پیدا ہوتا ہے جو ”امن“چاہنے والوں کے لئے ایک بُری خبر کی طرح ہو سکتا ہے۔

کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن(سی پی اے)میں شامل ممالک کی سی پی سی کی میزبانی کے لئے اب کے پاکستان کا انتخاب ہوا ہے جو 30ستمبر سے لیکر 08اکتوبر تک اس اہم کانفرنس میں شریک ہونے والے مندوبین اور مختلف ممالک کی اہم شخصیات کے اجلاس کا اہتمام اور میزبانی کرنے والا ہے۔جیسا کہ سی پی سی 2015کی ویب سائٹ پر درج ہے یہ سی پی سی کی 61ویں اور پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی کانفرنس ہوگی۔ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال منعقد ہوئی60ویں کانفرنس میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اس کانفرنس کی میزبانی کی پیکش کی تھی جسے جنرل اسمبلی نے قبول کرتے ہوئے پاکستان کو یہ موقعہ دیا ہے۔ویب سائٹ پر درج ہے کہ اس تقریب میں ہندوستان سمیت53ریاستوں کی اسمبلیوں کے اسپیکر،پرزائڈنگ افسران اور اُنکے نائب،ارکانِ قانون سازیہ اور دیگر اہم متعلقین پر مشتمل 500شخصیات شریک ہونے والی ہیں جو عالمی سیاست و خطہ ہذا کے مسائل پر ایک خاص زاویہ سے بحث و مباحثہ و تجزیہ کریں گے۔ویب سائٹ پر لکھا ہوا ہے”اس تقریب کے ذرئعہ نہ صرف پاکستان کی پارلیمنٹ کا قدو کاٹھ بڑھے گا اور ملک کو اپنا مثبت پہلو سامنے کرنے میں مدد ملے گی بلکہ اس سے تجارت وغیرہ کو بھی فروغ ملے گا“۔

پروٹوکول کے مطابق بحیثیتِ میزبان ملک کے یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ رُکن ممالک کو باضابطہ دعوت دے کر کانفرنس میں بلائے اور اس تقریب کو بحسن خوبی منعقد کرکے کامیاب بنائے۔بصورتِ دیگر کسی تنازعے کے بغیر منعقد ہوتی آرہی یہ کانفرنس تاہم اب کے انعقاد سے قبل ہی ایک ایسے تنازعے کا باعث بن گئی ہے کہ جسکے ہندوپاک کے تعلقات پر ہی نہیں بلکہ جموں و کشمیر کے حالات پر بھی دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔چناچہ پاکستان نے کانفرنس میں شرکت کے لئے جموں وکشمیر اسمبلی کے اسپیکر کو مدعو نہ کرکے نہ صرف اس کانفرنس کو متنازعہ بنادیا ہے بلکہ اسکے اس اقدام سے ہندوپاک تعلقات کے حوالے سے کئی سطحوں پر عیاں اور بیاں کوششوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔پاکستان نے ہندوستان کی سبھی ریاستوں کی اسمبلیوں کے اسپیکروں کو مدعو تو کیا ہے تاہم جموں و کشمیر کی اسمبلی کو یہ کہتے ہوئے مدعو کرنے سے انکار کر دیا کہ چونکہ،بقولِ پاکستان کے،جموں و کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ خطہ ہے لہٰذا یہاں کی اسمبلی کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہے۔اس حوالے سے پاکستانی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے خصوصی مشیر سرتاج عزیز نے گذشتہ دنوں یہ کہا کہ اُنکا ملک جموں و کشمیر کی اسمبلی کو نہیں بلائے گا کیونکہ بصورتِ دیگر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ”اسکے موقف“پر آنچ آئے گی۔اس حوالے سے ایک انگریزی اخبارکے مطابق ایک ،نا معلوم،پاکستانی حاکم نے مزید کہا ہے”ہم جموں و کشمیر کے منتخب سیاسی لیڈروں اور سرکاری ملازمین کو ویزا نہیں دیتے ہیںکیونکہ ہمارے موقف کے مطابق ہم جموں وکشمیر کے انتخابات اور وہاں بننے والی سرکاروں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں،کیونکہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور ہم وہاں کے لئے استصوابِ رائے کا مطالبہ کرتے ہیں“۔

ظاہر ہے کہ نئی دلی نے ہی نہیں بلکہ جموں و کشمیر کی حکمران جماعت نے بھی پاکستان کے اس اقدام پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا یہاں تک کہ نئی دلی نے پاکستان کے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی نہ کرنے کی صورت میں پوری کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی ہے۔نئی دلی مین لوک سبھا کی اسپیکر سمترا مہاجن کی صدارت میں ریاستی اسپیکروں کی ایک میٹنگ میں اس معاملے پر بات ہوئی تو تقریباََ سبھی نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا یہاں تک کہ بعض نے سی پی اے سے پاکستان کی شکایت کرکے اسکے خلاف کارروائی کرانے کا مطالبہ کیا تو کسی نے کانفرنس کے مقام کو پاکستان سے لندن یا ڈھاکہ تبدیل کرانے کا مطالبہ کیا۔مہاجن نے سبھی شرکاءکی رائے کو سمیٹتے ہوئے واضح کیا کہ اگر پاکستان نے جموں و کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کوندر گُپتا کو مدعو نہیں کیا تو ہندوستان کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔بعدازاںسی پی اے کی چیرپرسن کے نام ایک خط میں سمترا مہاجن نے اُنہیں اسپیکروں کی میٹنگ میں سامنے آئے شدید ردِ عمل سے آگاہ کیا اور اُنسے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے لکھا”مجھے آپ پر اعتماد ہے کہ آپ اس مسئلے میں مداخلت کرینگی اور سی پی اے کی صدر پُرانی روایات کو برقرار رکھوائیں گی جن کے تحت سبھی رُکن ممالک کو مدعو کیاجاتا ہے“۔

جموں کشمیر کی حکمران پارٹی پی ڈی پی نے بھی پاکستان کے اس اقدام پر سخت اعتراض جتاتے ہوئے اسے ناقابلِ قبول قرار دیا۔پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق ترجمانِ اعلیٰ نعیم اختر نے اُنسے ردِ عمل پوچھے جانے پر بتایا”ہم اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ متفق نہیں ہیں،فی الواقع اسمبلی ہی جموں و کشمیر میں جائز طریقے سے چُنے جانے والے نمائندگان کا واحد ادارہ ہے جسے بات کرنے کا حق ہے“۔بظاہر علیٰحدگی پسندوں کی جانب،جنہیں پاکستان کشمیر کے حقیقی نمائندے گردانتا آرہا ہے،اشارہ کرتے ہوئے نعیم اختر نے کہا”دیگراں جو کشمیر پر بات کرتے ہیں فقط ایک خیال کے نمائندے ہیں اور ایک نکتہ نگاہ رکھتے ہیں لیکن ہم(ممبرانِ قانون سازیہ)جمہوری طریقے سے منتخب کردار رکھتے ہیں،ہم پاکستان کا یہ کہنا مسترد کرتے ہیں کہ ہم کوئی نہیں ہیں“۔

اس مسئلے کا سامنے آنا تھا کہ جموں کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں نے پاکستان کی پیٹھ تھپتھپانا شروع کی اور اسے اس طرح کی ”واضح اور جُڑاتمندانہ پالیسی“کے لئے شاباشی دی گئی۔بزرگ حپریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی سے لیکر خاتون لیڈر سیدہ آسیہ اندرابی تک اور دیگر چھوٹے بڑے لیڈروں سے لیکر وکلا تنظیم جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن تک کئی لیڈروں اور تنظیموں نے اس اقدام کے لئے پاکستان کی تعریفیں کیں۔چناچہ آسیہ اندرابی نے ایک بیان میں کہا ” پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اس لازمی اقدام سے ایک طرف کشمیریوں کو حوصلہ ملا ہے اور دوسری جانب بھارت اور پوری دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ جموں کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں کی نام نہاد اسمبلی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے“۔انہوں نے کہا ” پاکستان کی جانب سے جموں کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کے کٹھ پتلی اسپیکر کو نہ بلائے جانے پر شوروغوغا اٹھانے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ جموں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔یہاں رچائے جاتے رہے الیکشن ڈراماوں کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ان نام نہاد انتخابات کے نتیجے میں وجود پانے والے اداروں کی دنیا کی نظروں میں کوئی اہمیت ہے“۔

ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک بیان میں بار ایسوسی ایشن کی ایک میٹنگ کے حوالہ کے ساتھ کہا گیا ہے”ایسوسی ایشن کا یہ موقف ہے کہ جموں کشمیر اسمبلی کا وجود اقوام متحدہ کی 30مارچ1951اور 24جنوری1957کی قراردادوں کی خلاف ورزی میں روبہ عمل لایا گیا ہے لہٰذا بین الاقوامی قانون کے مطابق اس اسمبلی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے لہٰذا پاکستان کا اس اسمبلی کے اسپیکر کو مدعو کرنے سے انکار ایک درست اقدام ہے“۔

غالباََ علیٰحدگی پسندوں کی اسی واہ واہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان نے منگل کے روز اس ھوالے سے اپنے موقف کو مزید سخت کرتے ہوئے کہا کہ بھلے ہی ہندوستان بائیکاٹ کرے لیکن وہ(پاکستان)جموں و کشمیر اسمبلی کو مدعو نہیں کرے گا۔پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان اخبار نے لکھا”اگر ہندوستان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت نہیں کرنا چاہتا ہے،یہ اسکا اپنا فیصلہ ہوگا ہم اپنے موقف سے ہٹ نہیں سکتے ہیں“۔صادق سے منسوب ڈان نے مزید لکھا ”کچھ بھی ہوجائے،کشمیر پر ہمارا موقف صاف ہے اور ہم اس سے نہیں ہٹ سکتے“۔

پاکستان کے اس سخت موقف کی وجہ کیا ہوسکتی ہے اور اسکا اصل مطلب کیا ہے؟۔اس سلسلے میں مئی کے مہینے میں روس کے شہر اوفا میں ہوئی مودی-نواز میٹنگ کا تذکرہ لازمی ہوجاتا ہے۔چناچہ اس ملاقات کو پوری دنیا نے انتہائی اہمیت دی اور پھر نواز شریف کی جانب سے کشمیر کا تذکرہ تک نہ کرنے کو ہندوستان کی پاکستان پر برتری کا مظہر مانا گیا۔ایک جانب کئی حلقوں نے یہاں تک کہا کہ نواز شریف مودی سے مرعوب ہیں تو دوسری جانب نواز شریف پر کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے کے لئے موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔جموں کشمیر میں علیٰحدگی پسندوں،جو پاکستان کے زیرِ بحث اقدام کے لئے اسکی بھلائیں لے رہے ہیں،نے یہاں تک پاکستان کے تئیں ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے نئی دلی کے پاکستانی سفارتخانے میں عید ملن کی پارٹی کا بائیکاٹ کیا۔حالانکہ اس طرح کی تقاریب میں شرکت کے لئے یہ لوگ مرے جاتے دیکھے گئے ہیں۔پاکستان کے لئے یہ بات بڑی تعجب والی تھی کہ جموں کشمیر میں اسکے سب سے بڑے وکیل سید علی شاہ گیلانی نے نہ صرف عید ملن کا بائیکاٹ کیا بلکہ برملا طور عہد نامہ اوفا کو لیکر پاکستان کے تئیں ناراضگی کا اظہار کیا۔پھر خود سید گیلانی کی جانب سے بلائے گئے ایک سیمینار میں پاکستانی نژاد ایک برطانوی دانشور سمیع اللہ ملک نے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ کس طرح پاکستانی فوج نواز شریف کے اوفا میں کشمیر پر چُپ رہنے سے ناراض ہوگئی ہے۔

یہاں یہ بات مشاہدے کے لائق ہوگی کہ اوفا ملاقات کے فوری بعد ہندوپاک سرحد پر نہ صرف گولہ باری شروع ہوگئی بلکہ دونوں ممالک کے آپسی تعلقات اتنے خراب ہو گئے کہ پاکستانی رینجرس نے عید کے موقعہ پر بی ایس ایف کی جانب سے پیش کردہ مٹھائی تک لینے سے انکار کردیا۔خیال ہے کہ یہ سب نواز شریف کی ”غلطی“کو مٹانے کے لئے کیا گیا ۔ایسا سوچنے والوں کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے سخت موقف رکھنے والوں کی ایک مضبوط لابی ہے اور پھر مسئلہ کشمیر پاکستانی سیاست میں اب بھی اس حیثیت کا حامل ہے کہ اسے نظرانداز کرکے کوئی بھی پارٹی نہیں چل سکتی ہے۔اس سوچ کے حامل لوگوں کا ماننا ہے کہ چونکہ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے کئی محاذوں پر مصروف رہتے ہوئے تباہ ہوگیا ہے وہ نہیں چاہتا ہے کہ کشمیر کو لیکر ایک اور طبقے کو ناراض کرکے کسی اور محاذ کے کھلنے کے امکانات پیدا ہوں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان اس سے قبل نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کی میزبانی کر چکا ہے لہٰذا اچانک ہی پاکستان کے تیور سخت ہونے کے پیچھے کچھ اور بھی ہے جو نا قابلِ فہم تو نہیں البتہ واضح بھی نہیں ہے۔اس حوالے سے یہ بات تذکرے کے لائق ہوگی کہ جموں و کشمیر میں ابھی ہندو شدت پسند پارٹی بی جے پی کی حکومت ہے اور اسمبلی کے اسپیکر بھی خود بھاجپا کے ہی ایک لیڈر کوندر گُپتا ہیں۔چناچہ گُپتا کو دیس بلانے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے نہ صرف جموں و کشمیر کی سرکار کو مان لیا ہے بلکہ اس نے اس حساس ریاست پر بھاجپا کی حکمرانی کو تسلیم کر لیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ اُن علیٰحدگی پسندوں کے لئے ایک طمانچے کی طرح تصور ہوسکتا ہے کہ جو بھاجپا کے ریاست میں حکومت بنانے سے خصوصیت کے ساتھ پریشان ہیں اور اس میں ریاست کے لئے کئی نقائص دیکھتے ہیں جن میں ریاست ک مُسلم اکثریتی کردار پر چوٹ کی مبینہ سازش بھی شامل ہے۔

معاملہ چاہے جو بھی ہو اتنا طے ہے کہ ہندوپاک کی مختلف سرکاریں باہمی تعلقات کو استوار کرنے کے لئے کتنی ہی پینگیں بڑھائیں،یہاں تک کہ مسئلہ کشمیر کو حاشیئے پر رکھنے کی کوششیں کریں لیکن ایسا حقیقت میں ممکن نہیں ہو پارہا ہے۔نواز شریف کی نیت پر شک کئے بغیر سوچا جائے تو اُنہوں نے واقعتاََ مودی سرکار کے قریب ہونے کے لئے مسئلہ کشمیر کو کسی حد تک حاشیئے کی طرف دھکیل دیا تھا ،اس حوالے سے اوفا میں ملاقات کے لئے مودی کا موڈ بنائے رکھنے کی غرض سے نئی دلی میں افطار پارٹی کی منسوخی کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں بصورتِ دیگر روایت کے مطابق حُریت لیڈروں کو مدعو کیا جاچکا تھا،لیکن حالات نے اُنہیں روایات کی طرف لوٹنے پر مجبور کردیا۔

پاکستان کے پالیسی سازوں نے ،اوفا کو چھوڑ کر،جب جہاں موقعہ ملا کشمیر کا مسئلہ ضرور اُبھارا ہے اور آج سی پی سی کے موقعہ پر اس ”روایت“کو برقرار رکھا گیا ہے۔دوسری جانب ہندوستان نے اس معاملے کو اس حد تک اہمیت دی ہے کہ اسکے لئے بائیکاٹ کرنا اب تقریباََ لازمی ہوگیا ہے یا پھر سفارتی سطح پر کوئی ایسی چال چلی جائے کہ سی پی اے کانفرنس کا مقام بدلنے پر آمادہ ہوجائے۔بائیکاٹ ہوا تو یہ یقیناََ ہندوستان کے حق میں نہیں ہوگا اور کانفرنس کا مقام تبدیل ہوا تو یہ پاکستان کے لئے سفارتی محاذ پر ایک زبردست شکست ہوسکتی ہے۔نئی دلی نے اس معاملے کو زیادہ اہمیت نہ دی ہوتی تو اسکے لئے معاملہ اتنا Riskyنہیں ہوتا جتنا کہ اب ہوگیا ہے۔لیکن اب جبکہ دونوں جانب معاملہ ناک کا ہوگیا ہے تو ظاہر ہے اسکے کسی بھی جانب مُڑنے سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات اثر انداز ہونگے بلکہ جموں کشمیر کے حالات بھی کہ جہاں ابھی نہ صرف سرحدوں پر بے چینی ہے بلکہ اندرون ریاست بھی جنگجوئیت کا محاذ ہر گذرنے والے دن کے ساتھ نئی حرارت پاتا جارہا ہے۔

زیرِ تبصرہ کانفرنس کا انعقاد کہاں اور کن حالات میں ہوگا ،اس حوالے سے حتمی طور ابھی کہنا مشکل ہوگیا ہے لیکن دونوں ممالک کے بیچ ناچاکی بڑھنے لگی ہے اور ماہِ رواں کے آخری عشرے میں ہردوممالک کے مشیر برائے قومی سلامتی کی طے ملاقات پر غیر یقینیت کے بادل منڈلانے لگے ہیں….کیا یہ ملاقات ہوگی اور کیا ہندوستان مذکورہ بالا کانفرنس میں شریک ہوگا،اگر ہوگا تو کیسے اور اگر نہیں ہوگا تو اسکے عملی اثرات کیا ہونگے،ماہ بھر میں ان سوالات کے جواب دستیاب ہوسکتے ہیں!!!(بشکریہ عالمی سہارا)
(یہ مضمون پہلے اگست ٢٠١٥ کو شائع ہوا تھا)

Exit mobile version