کشمیر،نیپال اور حکومتِ ہند!

صریر خالد
اس وقت جب حکومتِ ہند نے زلزلہ سے متاثرہ پڑوسی ملک نیپال کے لئے ایک بلین ڈالر کی رقمِ کثیر کی امداد منظور کرکے حاتم کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کی ہے اسکے ”اٹوٹ انگ“کے سیلاب متاثرین قریب ایک سال بعد بھی باز آبادکاری کے لئے دربدر ہیں۔گذشتہ سال کے تباہ کُن سیلاب سے متاثر ہوئے لاکھوں لوگوں کے تئیں انتہائی بے مروتی کے مرکزی سرکار کے اظہار کو لیکر نہ صرف خوفناک پانیوں میں اپنا سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہتے دیکھ چکے ستم زدگان کو مایوسی ہوئی ہے بلکہ خود حکمران جماعت پی ڈی پی کو بھی کہ جو ایک طرف عوامی حمایت کھو رہی ہے اور دوسری جانب اندرونی اختلافات کا شکار ہو رہی ہے۔

مفتی سعید کی پی ڈی پی کو ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے مرکزی سرکار نے گذشتہ ہفتے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے امسال 1500کروڑ روپے کی واگذاری کا اعلان کیا ہے۔نئی دلی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ اور وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ2602کروڑ کی رقم گذشتہ سال ہی جاری کی گئی تھی۔ارون جیٹلی نے کہا کہ نیتی آیوگ(سابق منصوبہ بندی کمیشن)کے چیف ایکزیکٹیو افسر اور سکریٹری اخراجات جموں و کشمیر کا دورہ کریں گے اور ریاست کی تعمیروترقی کی ضروریات کا جائزہ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی ترقی کے لئے ایک بڑا منصوبہ بنایا جائے گا اور بجلی،تعلیم،سیاحت و صحت جیسے شعبہ جات میں ضروریات کا جائزہ لیکر اسکیمیں بنائی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار جموں و کشمیر کی ”پاپولر گورنمنٹ“کی ہر ممکن کرے گی تاکہ اسکے لئے تعمیروترقی کا ایجنڈا پورا کرنا ممکن ہو جائے۔

مرکزی سرکار کی جانب سے امداد کا یہ اعلان مفتی سعید کی پی ڈی پی کے لئے با العموم اور وادی کشمیر کے سیلاب متاثرین کے لئے با الخصوص مایوسی کی نوید ہے کہ ریاست کی سابق سرکار کی جانب سے طلب کردہ 44ہزار کروڑ کے مقابلے میں یہ معمولی امداد متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے کسی بھی طرح کافی نہیں ہو سکتی ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں آئے تباہ کن سیلاب سے ریاست میں ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہوگیا تھا اور ہزاروں لوگ ایسے ہیں کہ جن کا سب کچھ نابود ہوکے رہ گیا ہے۔سابق سرکار نے متاثرین کی باز آبادکاری کے لئے 44ہزار کروڑ روپے کا ایک منصوبہ مرکزی سرکار کو پیش کردیا تھا جبکہ اقتدار میں آنے سے قبل پی ڈی پی یہ تاثر دیتے پھر رہی تھی کہ وہ 44ہزار کروڑ سے بھی زیادہ امدادی رقم حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

انتخابات کے بعد سرکار بننے میں ہوئی دیر کے حوالے سے پی ڈی پی کی جانب سے سامنے لائی گئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ،بقولِ پارٹی کے،وہ سیلاب متاثرین کے لئے بھر پور امداد کا مطالبہ کر رہی ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد پی ڈی پی اس حوالے سے بہانے بناتی نظر آرہی ہے جس سے ریاست،با الخصوص وادی،میں مایوسی پھیل گئی ہے۔

گذشتہ 7ستمبرکو آئے صدی کے بدترین سیلاب نے کشمیر کو دیکھتے ہی دیکھتے تہہ و بالا کر دیا تھا۔تصور سے بھی زیادہ حد تک ہوئے نقصان سے بے حال ہوئے کشمیریوں نے اس بات کو ایک طرح سے دل پر لیا تھا کہ اُسوقت کی عمر عبداللہ سرکار نے گویا لوگوں کو گہرے پانی میں ڈھوب مرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا کہ مصیبت کے کئی دنوں تک سرکار کا کہیں اتہ پتہ بھی معلوم نہ تھا۔نیشنل کانفرنس کی بدترین شکست اور عمرعبداللہ کے اقتدار سے جانے کے لئے ذمہ دار کئی بڑی وجوہات میں ایک یہ بھی شمار کی جاتی ہے کہ سیلاب کے دوران وہ لوگوں کے ساتھ جُڑنے اور اُنہیں سہارا دینے میں بُری طرح ناکام ہو گئے تھے۔پھر موجودہ وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس کی تجاہل پسندی کا کچھ اس طرح سے ڈھول پیٹا کہ خوفناک اور ڈراونے پانیوں میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے کشمیریوں نے جیسے اس بات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے دل و دماغ میں بٹھا دیا۔

سیاسی محاذ پر کرشماتی کرتب کرنے کو تیار ہونے کی دعویدار پی ڈی پی نے نہ صرف یہ بات زبانی بتائی کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں سیلاب کی بُری یادوں کو تعمیروترقی کی نئی رونقوں سے بدل دیا جائے گا بلکہ پارٹی نے اس وعدے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرکے من للچانے والی یہ ”ٹافی“خوب بیچی اور اسے خریدار بھی ملے۔پی ڈی پی کا کہنا تھا کہ سیلاب زدگان کی بھرپور مالی امداد کرنے کے علاوہ وادی کشمیر میں عوامی اہمیت کے ڈھانچے کو بھی سر نو تعمیر کرکے تعمیرو ترقی کی وہ لہریں اُٹھائی جائیں گی کہ جن کی چکا چوند میں گویا کشمیری عوام اپنے وہ سبھی زخم بھول جائیں گے کہ جو اُنہیں اس ریاست کی سیاسی غیر یقینیت کی جانب سے ورثے میں ملے ہیں اور جنہیں سیلاب نام کی مصیبت نے اور بھی گہرا کر دیا ہے۔

حالانکہ کشمیر اور کشمیریوں سے معمولی واقفیت رکھنے والا سیاست کا کوئی عام طالبِ علم بھی اس بات سے منکر نہیں ہو سکتا ہے کہ اس” خطہ خاص“کے باسی مین اسٹریم کے سیاستدانوں سے جُڑے ہیں اور نہ ہی اُن پر بہت زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔تاہم بعض وجوہات کو لیکر مفتی سعید کے حوالے سے ریاست ،با الخصوص وادی میں، ایک طبقے نے ،شائد پہلی بار، کسی حد تک اُمیدیں وابستہ کرنا شروع کی تھیں اور اُن سے چھوٹے موٹے کرشموں کی توقع بھی کی جانے لگی تھی۔اوسط درجے سے نیچے کے طبقہ نے سیلاب زدگان کی بازآبادکاری کے حوالے سے مفتی سعید کے ساتھ اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں تو اوسط اور اس سے اوپر کے طبقہ میں ایک بڑا حلقہ جموں و کشمیر کی سیاسی غیر یقینیت میں کسی حد تک تبدیلی کے خواب دیکھنے لگا تھا۔لیکن جس طرح سے مودی سرکار نے مفتی کے تئیں اپنی مٹھی بند کر دی ہے وہ سبھی لوگ مایوس ہیں کہ جو نہ چاہتے ہوئے بھی مودی-مفتی یارانے سے اپنے لئے ،وقتی ہی سہی،فائدے تلاش رہے تھے۔

23دسمبر 2014کو ریاستی اسمبلی کے لئے انتخابات کا نتیجہ آنے کے دو ماہ تک ریاست میں سرکار کی تشکیل ممکن نہیں ہو پائی تھی اور اس دوران مفتی محمد سعید نے مکرر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ محض اقتدار نہیں چاہتے ہیں بلکہ اتنے وسیع اختیارات بھی کہ وہ سیاست سے لیکر تعمیر و ترقی تک ہر محاذ پر جموں و کشمیر کو سیراب کر سکے۔اس دوران ریاستی اخبارات میں ”پلانٹ“کروائی جاتی کہانیوں میں جن دو باتوں پر زیادہ زور دیا جاتا رہا وہ ریاست کی سیاسی صورتحال کو بدل دئے جانے کے اختیار اور سیلاب زدگان کی فوری بحالی کی صورت میں ایک نئے کشمیر کی تعمیر سے متعلق تھیں۔پی ڈی پی کی جانب سے تاثر دیا جاتا رہا کہ مفتی سعید اقتدار پر قبضہ کرنے میں کسی قسم کی عجلت نہ دکھاتے ہوئے در اصل کچھ چیزوں کو لیکر مودی سرکار کی ضمانت چاہتے ہیں جن میں سیلاب زدگان کی بازآبادکاری سر فہرست ہے۔مفتی کے کُرسی پر براجمان ہونے سے چند ایک روز قبل بلکہ یہاں تک لگنے لگا تھا کہ شائد حلف برداری کی تقریب پر ہی وہ سیلاب زدگان کی امداد کا اعلان کریںلیکن سیلاب کو بہے قریب ایک سال اور مفتی کے مودی کی گود میں بیٹھنے کے ”معجزہ“کے چار ماہ بعد بھی ایسا کچھ نہیں ہوا اُلٹا مرکز نے یوں سکے اُچھالنا شروع کئے ہیں کہ انکی کھنک عام لوگوں کے ساتھ ساتھ خود مفتی کی پی ڈی پی کی بھی نیند اُڑانے لگے ہیں۔ چناچہ مرکز کی حالیہ” امداد“کے اعلان پر کشمیر میں کسی قسم کی خوشی کی بجائے ماتم کی سی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگوں نے تقریباََ مان لیا ہے کہ کسی قسم کی امداد کا انتظار کرتے ہوئے وہ در اصل اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔تاجروں کی ایک تنظیم ”کشمیر اکنامک الائینس“کے صدر یٰسین خان نے مرکزی سرکار پر ایک انسانی مسئلے پر سیاست کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی سعید کو اقتدار یا لوگوں میں سے ایک کو چُن لینے کا فیصلہ کرنا چاہیئے۔ا±نہوں نے کہا کہ ریاست کے وسائل کو استعمال کرنے کے باوجود ریاستی عوام کو کچھ بھی نہیں مل رہا ہے۔ا±نہوں نے مزید کہا ہے کہ 44ہزار کروڑ کی ضرورت کے مقابل میں مرکز نے معمولی سی رقم کا اعلان کرکے متاثرین کو مایوس کردیا ہے۔کشمیر چیمبر آف کامرس کے صدر شیخ عاشق نے ریاستی وزیرِ خزانہ حسیب درابو،جو مرکزی امداد پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں،اور مرکزی وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی پر ریاستی عوام کو چوٹ پہنچانے کا الزام لگایا اور کہا کہ تاجر برادری میں مایوسی کی لہر ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی تاجر برادری اس صورتحال کے ردِ عمل میں اپنائی جانے والی حکمتِ عملی پر غور کر رہی ہے اور مستقبل کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ جموں سے سرینگر دربار مو کے موقعہ پر بھی تاجر برادری نے کشمیر بند کے ذرئعہ سرکار کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ مرکز کی اس ”امداد“کو لیکر جہاںوادی میں سیلاب زدگان اور سیول سوسائٹی ناراض ہے وہیں بھاجپا کے ساتھ شراکت میں سرکار چلانے والی پی ڈی پی خود بھی اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئی ہے۔پارٹی کے اندر بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور بغاوت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں جن کاپارٹی کے سینئر لیڈر اور ممبرِ پارلیمنٹ طارق حمید قرہ نے ایک اخباری بیان میں برملا طور اظہار کیا ہے۔قرہ نے پارٹی کو بھاجپا کے ساتھ اتحاد توڑکر سرکار سے الگ ہونے تک کا مشورہ بھی دیا جس سے پارٹی کی اندرونی صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔اپنے ایک بیان میں طارق قرہ نے مرکزی حکومت کے” امداد اور باز آبادکاری پیکیج “کو بھونڈا مذاق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ہند نے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ پی ڈی پی لیڈر نے کہا ہے” اس طرح حکومت ہند نے کشمیریوں کے تئیں اپنا متعصابنہ رویہ ایک مرتبہ پھر دکھانے کی کوشش کی ہے“۔بیان میں کہا گیا ہے” ریاستی سرکار کی طرف سے جو 44000کروڑ ریلیف پیکیج کا جو مطالبہ کیا گیا تھا اورحکومت ہند نے دس ماہ کی تاخیر کے بعد صرف2400کروڑ کا اعلان کیا ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرکز جموں و کشمیر کے تئیں امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے“۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہند نیپال زلزلہ متاثرین یا اتراکھنڈ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے پیش پیش رہی تو جموں و کشمیر کے ساتھ یہ دوہرا معیار کیوں؟ بھاجپا کے ساتھ اتحاد توڑنے کا پارٹی کو مشورہ دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا”یہ اتحاد کشمیریوں اور پارٹی کو بہت نقصان پہنچانے جارہا ہے“۔ انہوں نے کہا ہے”(بھاجپا اور پی ڈی پی کے مابین مقررہ)کم از کم مشترکہ پروگرام صرف کاغذوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے اور پہلے ہی دن سے پی ڈی پی – بی جے پی کے درمیان حکومت چلانے کے سلسلے میں کوئی مفاہمت نہیں دکھائی دے رہی ہے“۔وسطی کشمیر کی پارلیمانی سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے سرپرست فاروق عبداللہ کو پچھاڑ کر پارلیمنٹ میں پہنچے طارق قرہ نے مزید کہا ہے” این ایچ پی سی سے بجلی پروجیکٹوں کی واپسی ہو ،وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو یا صوبوں میں اداروں کی تقسیم۔ مخلوط سرکار میں تضاد پایا جارہا ہے“۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ طارق قرہ اکیلے نہیں ہیں کہ جو اپنی پارٹی سے ناراض ہیں۔ان ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر کئی لیڈر بھاجپا کے ساتھ اتحاد کو نقصان دہ سمجھتے ہوئے اس کو لیکر بے چین ہیں اور عجب نہیں ہے کہ طارق قرہ کی ہی طرح اور لوگ بھی برملا طور اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ ان ذرائع کی اطلاعات کو بھاجپا لیڈر، اور جموں و کشمیر میں سرکار بنانے میں اہم رول ادا کر چکے ،رام مادھو کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے کہ جس میں اُنہوں نے پی ڈی پی-بھاجپا اتحاد کے چھ سال کی معیاد پوری کرنے کی اُمید جتائی ہے۔جموں و کشمیر کے اپنے حالیہ دورے کے دوران اُنہوں نے کہا کہ مرکزی سرکار ریاست کی ہر ممکن مدد کرنے کی وعدہ بند ہے تاہم اُنہیں سرکار بننے کے چار ہی ماہ بعد یہ اُمیدیں کیوں دلانا پڑ رہی ہیں کہ سرکار چلتی رہے گی،یہ بات مخلوط سرکار کے اندرون کا پتہ دیتی ہے۔پھر پی ڈی پی میں کئی لوگوں نے یہ بات ذہن میں بٹھا لی ہے کہ مرکز ریاست کی مدد کو آئے بھی تو پہلے اسے بھکاریوں کے جیسا احساس دلائے گی۔جیسا کہ پارٹی کے ذرائع نے عالمی سہارا کو بتایا”پارٹی میں واقعی مایوسی ہے،مرکزی سرکار نے ایک محترم انداز سے ہمارے ساتھ ڈیل نہیں کیا ہے“۔

دلچسپ بات ہے کہ جب حکومتِ ہند کے ”اٹوٹ انگ“کے لوگ سال بھر سے باز آبادکاری کے لئے ترس رہے ہیں ،زلزلہ زدہ نیپال کو بن مانگے ایک بلین ڈالر کی رقمِ کثیر کی امداد دی گئی ہے۔غیروں پر کرم اپنوں پر ستم والے اس معاملے پر سیلاب زدہ وادی کے لوگ کیا کہتے ہیں برطانیہ کی ”بڈفورڈشائریونیورسٹی “کے فارغ ایک نوجوان وکیل ماجد بانڈے کے” فیس بُک اسٹیٹس“سے کچھ کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے وہ لکھتے ہیں”ہندوستان نیپال کو 63بلین روپے کی امداد دینے کو تیار ہے….ہندوستان بہت سخی معلوم ہوتا ہے،تاہم کشمیر کو،جسے ہندوستان اپنا جُزو لاینفک کہتا ہے،سیلاب زدگان کے لئے اسکا دو تہائی ملا وہ بھی آٹھ ماہ کے بعد ….ہندوستان بہت کٹھورمعلوم ہوتا ہے“۔وہ آگے لکھتے ہیں”اس سخاوت اور سنگدلی کے درمیان ایک دوہرا معیار ہے،ایک وجہ ہے کہ ہم ہندوستان کا حصہ کیوں نہیں بننا چاہتے ہیں….آزادی واحد حل ہے“۔

(یہ مضمون پہلے جون ٢٠١٥ کو شائع ہوا تھا)

Exit mobile version