مسئلہ کشمیر اور پرچم کی سیاست!

صریر خالد

سبز ہو یا لال….وادی کشمیر میں ابھی جھنڈوں کی سیاست ہو رہی ہے اور یہ جھنڈے ٹیلی ویژن چینلوں کا ٹی آر پی بڑھانے سے لیکر مفتی سرکار کی ناکامیوں کو اپنی آغوش میں لیکر چھُپا دینے کا کام دیتے نظر آرہے ہیں۔ایک طرف پاکستانی جھنڈے ہیں کہ جن سے علیٰحدگی پسندوں کے جلوسوں میں شامل ہونے والے کشمیری نوجوانوں کے علاوہ اب،مختلف وجوہات کے لئے،سکھ نوجوان بھی پولس اور دیگر سرکاری فورسز کا منہ چِڑھانے لگے ہیں تو دوسری جانب ریاست کے ایک سرگرم ممبرِ اسمبلی نے ریاست کے اپنے پرچم کا دن مناکر اِسے ترنگے کے برابر مقام دلانے کی کوششوں کا عملی آغاز کر دیا ہے۔

موسم کی طرح رنگ بدلتے آرہے مسئلہ کشمیر کی کئی ”خاصیتوں “میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ نِت نئی صورتوں میں اُجاگر ہوتا ہے اور ان حالات میں کہ جب بظاہر کشمیر میں خاموشی چھا گئی ہوتی ہے مسئلہ کشمیر نئی صورتوں میں سامنے آکر چھا جاتا ہے۔چناچہ یہی سب سالِ رواں کے اوائل میں تب دیکھا گیا کہ جب بزرگ علیٰحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی سردیوں میں نئی دلی میں مقیم رہنے کے بعد وادی لوٹے اور یہاں اُنکے استقبال کے لئے منعقدہ جلسہ متنازعہ ہوکر ایک طرح سے کشمیر میں سیاست کے ایک نئے باب کا عنوان رقم کر گیا۔اس جلسے میں شامل ہزاروں لوگوں میں سے مٹھی بھر افراد نے پاکستانی پرچم کیا لہرائے کہ ایک عام سا جلسہ،جسے تب تک خود سید گیلانی کے کئی حامی فضول گردانتے تھے،ایسا خاص ہو گیا کہ جیسے علیٰحدگی پسند تحریک میں نئی حرارت آگئی ہو۔خود کو شاہ سے زیادہ وفادارثابت کرکے اپنا کاروبار بڑھانے کی بے ہنگم دوڑ دوڑنے والی ٹیلی ویژن چینلوں نے اس قدر شوروغوغا اٹھایا کہ کچھ دیر کے لئے دلی سے سرینگر تک کی سرکاریں گرتی محسوس ہونے لگیں۔حالانکہ کشمیر میں یہ پہلی بار نہ تھا کہ سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے ہوں۔ٹیلی ویژن چینلوں کے شوروغوغا اور اینکر پرسنوں کی نظروں میں ”بے باک“ثابت ہونے کے لئے پریشان ”لیڈروں“نے تب ہی کچھ راحت کی سانس لی کہ جب اس الزام میں سرکردہ حُریت لیڈر مسرت عالم بٹ،جنہیں چار سال کی قید کے بعد بس رہا کیا ہی گیا تھا،کو جیل ہوئی۔مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی،جو انتخابات سے قبل پبلک سیفٹی ایکٹ کو ایک کالا قانون بتاتے ہوئے اسکی تنسیخ کا مطالبہ کر رہی تھی،نے مسرت عالم کو اسی قانون کے تحت گرفتار کرکے جموں کی کوٹ بلوال جیل میں پھینک دیا….جھنڈوں کی سیاست تاہم بند نہ ہوئی۔

سید علی شاہ گیلانی پولس کو چکمہ دیکر جنوبی کشمیر کے ترال قصبہ میں ایک جنگجو اور ایک جنگجو کمانڈر کے بھائی کے مارے جانے پر لواحقین کے ساتھ اظہارِ تعزیت کو گئے تو وہاں بھی نوجوانوں نے پاکستانی پرچم لہرا کر اُنکا استقبال کیا۔اپنی تقریر میں سید علی شاہ گیلانی نے بعدازاں کہا کہ جموں و کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے رہیں گے اور اس پر روک نہیں لگائی جا سکتی ہے۔حالانکہ پہلے جلسے میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے کے موقعہ پر سید گیلانی نے دفاعی لکیر پکڑی تھی اور کہا تھا کہ جلسے میں کوئی پاکستانی پرچم نہیں لہرایا گیا ہے یا یہ کہ اسکے لئے حُریت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن ماہ بھر تک ٹیلی ویژن چینلوں کی جانب سے بہت زیادہ شوروغوغا کئے جانے نے حالات کچھ یوں بنادئے ہیں کہ سید گیلانی دفاعی لکیر چھوڑ کر نہ صرف پرچمِ پاکستان لہرائے جانے کو درست بتانے کی ہمت جُٹانے لگے بلکہ اسکے لئے کئی طرح کی دلیلیں بھی دی جانے لگیں۔اکیلے وہ ہی نہیں بلکہ شبیر احمد شاہ،سیدہ آسیہ اندرابی اور اس طرح کے دیگر علیٰحدگی پسند قائدین کا کہنا ہے کہ چونکہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے یہاں پر پاکستانی پرچم لہرانا کوئی جُرم یا گناہ نہیں ہے۔ان قائدین نے اخبارات کے لئے جاری کردہ ایک سے زیادہ بیانات میں کہا ہے کہ چونکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کشمیریوں کو ہندوپاک میں انتخاب کرنے کا حق دیتی ہیں لہٰذا یہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

سید گیلانی کے ترال جلسے میں پرچمِ پاکستان لہرائے جانے پر ٹیلی ویژن چینلوں اور دلی کے سیاستدانوں نے ایک بار پھر آسمان یوں سر پر اُٹھالیا کہ جو نظریں سید گیلانی کے جلسے میں سبز ہلالی پرچم لہراتے دیکھنے سے رہ گئی تھیں یا جو کان اس ”بغاوت“کی بھنک لینے سے رہ گئے اُنہوں نے بھی کوب خبر حاصل کی اور معاملے کو اور بھی زیادہ تشہیر ملی۔وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید نے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے قصورواروں کے خلاف کارروائی کئے جانے کو طے بتایا اور پھر سید گیلانی کو سرینگر کے حیدرپورہ علاقہ میں اپنی رہائش گاہ پر پہنچتے ہوئے نظربند کر دیا گیا۔اس واقعہ کے چند ہی دنوں بعد شبیر احمد شاہ جنوبی کشمیر میںاپنے آبائی قصبہ اننت ناگ پہنچے تو اُنہوں نے قصبے کو سبز سبز پایا۔اُنکے لئے جمع ہوئے سینکروں لوگوں میں شامل درجنوں نوجوانوں نے ہاتھوں میں پرچمِ پاکستان اُٹھا رکھا تھا جسے وہ لہرائے جارہے تھے۔جذباتی تقریر کرتے ہوئے شبیر شاہ نے کہا کہ یہ جھندا کشمیر میں آگے بھی لہراتا رہے گا کہ بقول اُنکے پاکستان کی محبت کشمیریوں کے رگ و پے میں رچی بسی ہے۔

وادی میں جگہ جگہ پر پرچمِ پاکستان لہرائے جانے کو لیکر مرکزی وزارتِ داخلہ سے لیکر وزارتِ عظمیٰ کے دفتر تک زبردست بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے ایک سے زیادہ مرتبہ اس بارے میں بیانات دیتے ہوئے ”ہندوستان کی سرزمین پر“پاکستانی پرچم لہرائے جانے کو ناقابلِ برداشت بتایا جبکہ وزارتِ عظمیٰ کے دفتر میں جونئیر وزیر ڈاکٹر جیتیندرا سنگھ نے بھی کئی بار اس مسئلے پر بات کی اور اسے ناقابلِ قبول قرار دیا۔دلچسپ ہے کہ اتنی اونچی سطح پر اس بارے میں بولے جانے سے ”باغیوں“کو جیسے اور بھی زیادہ شہ ملتی ہے۔جیسا کہ کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے ایک اُستاد کہتے ہیں”میرے خیال میں سید علی شاہ گیلانی کے استقبالیہ جلسے میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے پر بہت زیادہ شور کیا گیا اور یہ چیز بیک فائر کر گئی ہے“۔وہ کہتے ہیں”ہو سکتا ہے کہ تب کچھ جذباتی نوجوان یونہی سبز جھنڈیاں لیکر جلسے میں شریک ہوئے ہوں لیکن اب اسے باضابطہ سوچ کے بطور فروغ ملتے محسوس کیا جا سکتا ہے اور اس سے علیٰحدگی پسند تنظیموں کی سرگرمیوں اور مسئلہ کشمیر کو اور بھی زیادہ تشہیر ملنے لگی ہے“۔

وادی کشمیر کے علاوہ گذشتہ دنوں جموں میں بعض سکھ نوجوانوں کی جانب سے تب پاکستانی پرچم لہرانے کی اطلاعات آئیں کہ جب یہاں” خالصتان تحریک“کے بانی سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کی برسی سے دو ایک روز اس قدر ہنگامہ ہو گیا کہ جس سے مرکزی سرکار کو یقیناََ پریشان ہوجانا چاہیئے۔بھنڈراں والا کو نشانہ بناکر سکھوں کے سب سے متبرک مقام گولڈن ٹمپل امرتسر میں اسی کی دہائی میں کئے گئے ”آپریشن بلیو اسٹار“کی برسی سے چند روز قبل جموں کے مختلف علاقوں میں بھنڈراںوالا کے اشتہاری پوسٹر چسپاں کئے گئے تھے۔پولس نے یہ پوسٹر اُکھاڑنا شروع کئے جس پر سکھوں کو طیش آیا اور بھنڈراں والا کے پوسٹر کو اُکھاڑنے کی ”ہمت“کرنے والے ایک پولس افسر کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا گیا۔اگلے دن سکھوں نے اس معاملے کو لیکر احتجاج کیا اور بھنڈراں والا کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے خالصتان زندہ باد کے نعرے لگائے اور اگر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر شائع ہوئی تصاویر پر اعتبار کیا جائے تو سکھوں نے پاکستانی پرچم بھی لہرائے۔اس احتجاج کے دوران پولس کی فائرنگ سے ایک سکھ احتجاجی مارا گیا جسکے لئے سرکار نے ایک اعلیٰ پولس افسر کا تبادلہ کرنے کے علاوہ اُنکے ذاتی محافظ پر قتل کا مقدمہ درج کیا اور سکھوں کی منت سماجت کرکے اُنہیں ”شانت“کردیا۔بھنڈراں والا کے مارے جانے کے زائد از تیس سال بعد سکھ خالصتان زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے اور بھنڈراں والا جیسے ”دہشت گرد“کو زندہ باد کہہ رہے تھے لیکن مسرت عالم کو قید کروانے اور وادی میں فورسز کے ہاتھوں قتل ہا کا ماحول بنانے والی ٹیلی ویژن چینلوں نے اس طرح کے نعرے سُنے یا پھر ان میں بغاوت کی بو محسوس نہ کرتے ہوئے انہیں ”نظرانداز“کردیا اور یوں سکھوں کے ساتھ یکطرفہ معاہدہ کرکے اُنہیں خاموش دیکھ کر اُنکا احسان مان لیا گیا۔اس ہنگامے کے ردِ عمل میں شاہ سے زیادہ وفادار ٹیلی ویژن چینلوں نے کوئی ہنگامہ کیوں نہیں کیا یہ وہی بتاسکتی ہیں البتہ کشمیر میں جاری جھنڈوں کی سیاست فقط سبز ہلالی پرچم تک ہی محدود نہیں ہے۔

ریاست کے ایک سرگرم سیاستدان اور ممبرِ اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے 7جون کو تب سُرخیاں بٹوریں کہ جب اُنہوں نے جموں و کشمیر کے ”اپنے پرچم“کا دن منایا ،ریاستی ترانا پڑھا اور ریاست کو ایک منفرِد شناخت دینے والی ان نشانیوں کو تعظیم دئے جانے کے لئے 7جون کو عام تعطیل کا اعلان کئے جانے کا مطالبہ کیا۔

جموں و کشمیر کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس ریاست کا اپنا الگ پرچم بھی ہے اور ترانا بھی اور ان دونوں چیزوں کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی نے 7جون1952کو منظوری دی تھی۔ترنگے کے برعکس جموں و کشمیر کا پرچم یکرنگی ہے ۔لال پرچم کے بیچ میں سفید رنگ کا ہل والا نشان بنا ہے جبکہ جھنڈے کے داہنے حصے پر یکسان لمبائی و چوڑائی والی تین سفید عمودی لکیریں ہیں جو ریاست کے تین خطوں،جموں کشمیر و لداخ،کی نمائندگی کرتی ہیں۔ گو ریاست کے سکریٹریٹ کے علاوہ وزراءکی گاڑیوں پر ترنگے کے علاوہ ریاستی پرچم موجود رہتا ہے تاہم ریاستی آئین کا دن منائے جانے کا ریاست میں کوئی رواج نہیں ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی ریاستی پرچم کے ساتھ بہت زیادہ شناسائی ہے۔

لالچوک سرینگر میں واقع پرتاپ پارک میں منعقدہ تقریب میں قریب پندرہ سو لوگوں کی موجودگی میں انجینئر رشید نے جموں و کشمیر کا پرچم لہرایا،ریاست کے ترانے کا ٹیپ چلایا اور پھر ایک لمبی تقریر کے دوران کہا کہ جموں و کشمیر ایک ریاست نہیں بلکہ ایک الگ مُلک ہے کہ جسکا اپنا الگ پرچم بھی ہے اور ترانا بھی۔انجینئر رشید نے بتایا کہ 7 جون 1952 کو کس طرح ریاست کی آئین ساز اسمبلی نے ریاست کے لئے اس پرچم کو منظور کیا تھا اور ترانا پڑھا تھا۔ا±نہوں نے کہا ”یہ پرچم ہماری پہچان تھا لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے“۔اُنہوں نے مزید کہا” جموں و کشمیر ایک ریاست نہیں بلکہ ایک الگ ملک ہے تاہم اسکی الگ حیثیت کو رفتہ رفتہ اس قدر زک پہنچایا گیا ہے کہ اسکی شناخت تک مسخ ہوکے رہ گئی ہے۔ا±نہوں نےمطالبہ کیا کہ ریاستی پرچم کو واجب عزت دینے کے لئے سرکار کو ہر سال 7 جون کو عام تعطیل کا اعلان کرنا چاہیئے“۔

وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید پر اقتدار کے لئے بھاجپا کے سامنے سرنڈر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ا±نہوں نے کہا”آپ نے ایک حکم جاری کیا تھا کہ اس پرچم کو تعظیم دی جائے گی لیکن ابھی اس حکم کی سیاہی خشک بھی نہیں ہو پائی تھی کہ اسے واپس لیا گیا“۔یاد رہے کہ مفتی سعید کی سرکار بننے کے چند ہی دن بعد ریاستی پرچم کو ترنگے کے ہم پلہ تعظیم دئے جانے سے متعلق ریاستی محکمہ انتظامِ عامہ یا جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ایک مفصل اور تنبیہی سرکیولر جاری ہوا تھا جسے تاہم حیران کن انداز میں اگلے ہی دن نہ صرف واپس لیا گیا بلکہ اس بات کی تحقیقات کئے جانے کا بھی اعلان کیا گیا کہ یہ حکم نامہ کیسے اور کس کے کہنے پر جاری کیا گیا ہے۔اندازہ ہے کہ نئی دلی میں حزب ِ اختلاف کانگریس اور کود ریاستی سرکار کی شریک بھاجپا کے اعتراض کے بعد اس سرکیولر کو واپس لے لیا گیا تھا۔

انجینئر رشید نے کہا کہ بھاجپا کے وزراءکو جموں و کشمیر کا جھنڈا ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے تاہم ا±نہوں نے الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا”ہم آپ کو چند دن کی مہلت دیتے ہیں اور اگر آپ کے وزراءنے اپنی گاڑیوں پر ریاستی پرچم نہیں لہرایا تو ہم انہیں پکڑ کر تب تک نہ چھوڑیں گے کہ جب تک وہ اپنی گاڑیوں پر ترنگے کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کا پرچم نہیں لہراتے“۔ممبرِ اسمبلی لنگیٹ نے نئی دلی کو مخاطب کرتے ہوئے حالیہ ایام میں وادی میںپاکستانی پرچم لہرائے جانے کے واقعات کی جانب اشارے کے ساتھ کہا”دلی والو اگر اس پرچم کو عزت نہیں دو گے تو یہاں سبز(ہلالی)پرچم لہرائے جاتے رہیں گے “۔

انجینئر رشید کے حیران کن اقدام کو مقامی میڈیا میں خوب تشہیر ملی اور پھر معاملے نے تب ایک نیا موڈ لے لیا کہ جب علیٰحدگی پسند دخترانِ ملت کی صدر سیدہ آسیہ اندرابی اور عمر قید کاٹ رہے اُنکے شوہر داکٹر محمد قاسم نے انجینئر رشید کے سُرخ پرچم لہرانے کو ایک ”سازش“کا نتیجہ قرار دیا جس کا مقصد،بقولِ اُنکے،پاکستانی پرچم کے لہرائے جانے سے ملنے والے پیغام کو نظر انداز کرنا ہے۔

جموں و کشمیر کا پرچم لہرائے جانے کے اگلے دن جاری کردہ اپنے بیان میں آسیہ اندرابی نے کہا ” اصل میں بھارتی خفیہ ادارے اور کٹھ پتلی سرکار جموں وکشمیر میں آئے دن پاکستانی پرچم لہرانے کے واقعات سے بوکھلا گئی ہے اسلئے لادین قومیت کی نشانی سرخ رنگ کا البانی (ہل) والا پرچم لہراکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جموں وکشمیر کا اپنا پرچم ہے اسلئے یہاں نا ہی پاکستان پرچم لہرانے کی کوئی گنجائش ہے اور ناہی ترانہ¿ پاکستان کی“۔بیان میں مزید کہا گیا ہے ” ہمسُرخ پرچم لہرانے والوں کو خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جموں وکشمیر پر بھارت نے طاقت اور اسی البانی (ہل) پرچم کے موجد شیخ عبداللہ کی غداری کے بل پر غاصبانہ قبضہ جماکر تحریکِ پاکستان کے پیٹھ پیچھے چ±ھرا گھونپ کر مسلمانانِ جموں کشمیر کے مفادات اور روشن مستقبل پر کاری ضرب لگادی لیکن حساس اور باشعور مسلمانوں نے اس جعلی الحاق کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا ہے“۔ بیان میںلوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا گیا ہے ” ہمارا پرچم سبز ہلالی (پاکستانی پرچم) پرچم ہے اور اس سرخ البانی والے جھنڈے کا ڈرامہ رچاکر پہلے ہی تقسیم شدہ سماج کو مزید تقسیم کرنے کے مضموم منصوبوں کو خاک میں ملائیں“۔

سیدہ اندرابی کے شوہر اور مسلم دینی محاذ کے محبوس صدر ڈاکٹر محمد قاسم نے ایک بیان میں کہا ہے ”سُرخ ہل والا پرچم (جموں و کشمیر پر)بھارتی قبضہ کو آئینی و قانونی جواز بخشتا ہے“۔محمد قاسم نے کہا ہے ” لوگ انجینئر رشید کی اس طرح کی چالوں سے دھوکہ نہ کھائیں“۔واضح رہے کہ مین اسٹریم کے بقیہ سیاستدانوں کے برعکس انجینئر رشید کی سیاست علیٰحدگی پسندوں کی سوچ سے بہت مختلف نہیں ہے ۔وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت ریاستی عوام کو رائے شماری کا حق دئے جانے کے مطالبے کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری فورسز کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں۔

کیا انجینئر رشید واقعی سرزمینِ کشمیر پرسُرخ پرچم لہرا کر اسکے سائے میں سبز ہلالی پرچم کے عکس کو دھندلا کرنے پر مامور کئے گئے ہیں،اس بارے میں تجزیہ نگار وں کے بیچ اختلاف کی گنجائش ہے البتہ خاص بات یہ ہے کہ اُنہوں نے اس روایت کی شروعات گذشتہ سال سے کی تھی جب وادی میں ،مرکزی سرکار کے لئے ناقابلِ برداشت حد تک،پاکستانی پرچم کا لہرایا جانا عام نہیں تھا۔جیسا کہ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا”ہم نے یہ دن منانے کی شروعات گذشتہ سال کی تھی،تب سینکڑوں لوگ شریک تھے اور آج ہزاروں ہیں،اگلے سال ہو سکتا ہے کہ لاکھوں لوگ ریاست کی پہچان بتانے والے اس جھنڈے کی تعظیم کے لئے جمع ہوں“۔

جو بھی ہو،اتنا طے ہے کہ آجکل کے کشمیر میںجھنڈوں کی سیاست ہر چیز پر حاوی معلوم ہوتی ہے،جیسا کہ پارلیمنٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف غلام نبی آزاد نے بھی گذشتہ دنوں کہا کہ اُنکے تین سال کے دورِ اقتدار میں ایک بار بھی پاکستانی پرچم نہیں لہرایا گیا،حالانکہ وہ بھول گئے ہیں کہ اُنکے دور میں امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین فراہم کئے جانے سے پیدا شدہ تنازعے کے دوران پوری ریاست ہی سرکار کے ہاتھوں سے جاتے دکھائی دی تھی اور یہ کہ سبز جھنڈے کا وادی میں لہرانا اتنا ہی پُرانا ہے کہ جتنا خود کشمیر کا تنازعہ جیسا کہ بھاجپا لیڈر اور نائب وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ بھی اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں۔

ابھی جھندوں کی سیاست کب تک چلے گی اور اسکے بعد مسئلہ کشمیر نام کا جن کونسی نئی صورت لئے سامنے آکر چھایا رہے گا،دیکھنا دلچسپ ہوگا….!(بشکریہ عالمی سہارا)

 
(یہ مضمون پہلے جون ٢٠١٥ کو شائع ہوا تھا)

Exit mobile version