بے گناہ کون ہے قاتل کے سِوا؟

صریر خالد

وادی کشمیر میں2010کی عوامی تحریک کا موجب بنے کمسن طالبِ علم طفیل متو کی پانچویں برسی میں اب فقط ماہ بھر کا وقت باقی ہے اور منوں مٹی تلے سوئے ہوئے طفیل پھر خبروں میں ہیں….اب کے شائد آخری بار۔متو کے بے دردانہ قتل کی تحقیقات کرنے والی پولس کی کرائم برانچ نے پولس کی ہی ایک متنازعہ رپورٹ کے جیسی رپورٹ پیش کرکے قاتلوں کا کوئی سُراغ نہ ملنے کے بہانے اس مقدمے کی مثلکو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔طفیل….وہی جن کے قتلِ ناحق کے خلاف ہوئے احتجاج میں ایک کے بعد ایک تقریباََ سوا سو معصوم پولس اور دیگر سرکاری فورسز کی گولیوں کا شکار ہو گئے تھے۔

2010جون میں جب کشمیر میں حالات قدرے پُرسکون تھے اور سیاحتی موسم کے جوبن پر رہنے کی وجہ سے دُنیا اور ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ جھلسا دینے والی گرمی سے راحت پانے کے لئے وادی کی سیر کو آرہے تھے پولس نے طفیل کا قتل کر کے گویا بھوسے میں چنگاری ڈالدی تھی۔طفیل،جو کہ بد قسمت والدین کی اکلوتی اولادتھی،اُس دن ایک ٹیوشن سینٹر سے لوٹ رہے تھے کہ شہر کے راجوری کدل علاقہ میں پولس کی پھینکے ہوئے ایک ٹیئر گیس شل کا شکار ہو گئے تھے۔اُسوقت علاقے میں احتجاجی مظاہرہ ہو رہا تھا جس سے نپٹنے کے لئے پولس اور دیگر سرکاری فورسز طاقت کا بھر پور اظہار کر رہی تھیں۔طفیل کی موت اُنکے معصوم سر پر پولس کے ایک طاقتور گولے کے لگنے سے موقعہ پر ہی ہوئی تھی۔طفیل کی موت کے شاہدین کے مطابق مذکورہ بچے کو جہاں اشک آور گیس کے گولے کا شکار بنایا گیا وہاں کوئی پتھراو ہو رہا تھا اور نہ ہی کسی قسم کا احتجاجی مظاہرہ۔اپسوقت اس واقعہ کے حوالے سے جو کچھ معلوم ہوا اُس کے مطابق طفیل در اصل ٹیوشن لینے کے بعد گھر جا رہے تھے کہ ”امن و قانون کے رکھوالوں“نے انہیں نشانہ بنا کر انکے والدین کی دنیا میں اندھیرا کر دیا۔دلچسپ ہے کہ غنی میموریل سٹیڈیم کے نزدیک جس جگہ پر یہ واقعہ پیش آیا اسی جگہ پر اس واقعہ سے چار مہینے قبل طفیل کے جتنے ہی کمسن وامق فاروق کو تب پولس کی گولی لقمہ اجل بنا گئی تھی کہ جب وہ کرکٹ کا اپنا محبوب کھیل کھیلنے میں مصروف تھے۔ظاہر ہے کہ طفیل کے بے دردانہ قتل کے خلاف سرینگر میں اور پھر وادی کے دیگر علاقوں میں احتجاج ہوا جسے قابو کرنے کے لئے پولس نے پھر بے ہنگم طاقت کا استعمال کیا یہاں تک کہ ایک موت پر احتجاج کے دوران دوسری موت کے واقع ہوتے ہوتے قریب سوا سو افراد قتل ہو گئے جن میں اکثریت بچوں اور کمسنوں کی تھی۔

اُسوقت کی عمر عبداللہ کی سرکار نے دیگر سبھی واقعات کی طرح طفیل کے مارے جانے کی تحقیقات کرائے جانے کا اعلان کیا جو ہنوز مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے ابھی تک جاری رہی اور اب کسی نتیجے پر پہنچے بنا پولس کی کرائم برانچ نے معاملے کو داخلِ دفتر کر دئے جانے کا اعلان کیا ہے۔گذشتہ بدھ کو یہاں کی ایک عدالت میں ”حتمی رپورٹ“پیش کرتے ہوئے کرائم برانچ نے معاملے میں ملوث قاتلوں کا کوئی سُراغ نہ پانے کی وجہ سے اسے بند کر دئے جانے کا فیصلہ سُنایا۔کرائم برانچ کو یہ معاملہ تحقیقات کے لئے تب دیا گیا تھا کہ جب پولس کے ایک” خصوصی تحقیقاتی دستہ“نے اسی طرح کی رپورٹ دیدی تھی جس میں نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالتَ عالیہ نے معاملے کو کرائم برانچ کے سپرد کر دیا تھا اور اپنی طرفسے نگرانی شروع کر دی تھی۔پولیس کی ”خصوصی تحقیقاتی ٹیم“ نے اس معاملے میں کچھ بھی ثابت نہ ہو پانے کے تاثرات سے مارچ 2013میں اپنا کام ”مکمل“ بتایا تھا۔تاہم متو کے لواحقین کی اپیل پر عدالتِ عالیہ نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے ذرئعہ اس معاملے کی نگرانی شروع کرتے ہوئے کرائم برانچ کو پیشہ ورانہ تحقیقات کے لئے کہا تھا۔قریب 15ماہ پر محیط” تحقیقات“کے بعد کرائم برانچ نے عدالت کو جو رپورٹ سونپ دی ہے اُس میں نہ صرف یہ کہ کچھ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ سابق رپورٹ کے علاوہ کچھ نیا بھی نہیں ہے۔کرائم برانچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کے دوران گواہاں ،شواہد اورپولیس و دیگر ایجنسیوں جو کہ اُس وقت لاءاینڈ آرڈر کودیکھنے کیلئے جائے واردات پر تعینات تھے ،کے بیانات اور رپورٹوں کو اگر مد نظر رکھا جائے تو اس میں واضح تضاد نظر آتا ہے لہٰذا اس کسی کی دقیق تحقیقات کے بعد کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچا گیا اور اس کیس کو بلا سراغ پاکر بند کیا جاتا ہے۔زیرِ تبصرہ معاملے کی تحقیقاتی ٹیم کے افسر آفتاب احمد نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ اُنہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ جس سے اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہو کہ کمسن طالب علم کی موت کی اصل وجہ کیا بنی اور وہ کن حالات میں شکار بنے۔یعنی کرائم برانچ کی رپورٹ تقریباََ اُسی رپورٹ کی نقل ہے کہ جو اس سے قبل خود پولس نے حکام کو سونپ دی تھی تاہم تازہ رپورٹ میں عدالتِ عالیہ کی جانب سے پولس کی رپورٹ میں موجود نقائص سے متعلق اُٹھائے گئے سوالوں کے جواب میں کچھ بھی نہیں ہے۔دلچسپ ہے کہ عدالت نے پولس کے ذرئعہ کرائی گئی تحقیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ”ایسا لگتا ہے کہ پولس کے مخصوص اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے“۔اسی تبصرے کے ساتھ عدالت نے معاملہ عدالت کو سونپ دیا تھا۔ کرائم برانچ نے معاملے میں کوئی پیشرفت نہ کرنے اور اب اس مثل کو بند کر دئے جانے سے متعلق فیصلے کو”جواز“بخشنے کے لئے کہا ہے کہ سرکاری گواہ،چشم دید اور ماہرانہ صلاح ایک دوسرے سے نہیں ملتی ہے اور ان تینوں کو ایک ساتھ ملانے سے ایک ایسی صورتحال بنتی ہے کہ جس میں اس مقدمے کا کوئی نچوڑ نکالنا یا کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں رہتا ہے۔کرائم برانچ کا تبصرہ ہے”حقیقت یہ ہے کہ ایک معصوم زندگی ضائع ہوئی ہے البتہ اس راز پر سے پردہ نہیں اُٹھا ہے کہ یہ واقعہ کن حالات میں پیش آیا ہے،چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نا قابلِ پہچان پولس والوں کے ہاتھوں پیش آیا ہے جبکہ دوسری جانب واردات کے وقت موقعہ پر موجود رہنے والے پولس اہلکار اور سرکاری گواہ بھی اس بات سے غافل ہیں کہ اصل میں یہ موت کن حالات میں واقع ہوئی تھی“۔

کرائم برانچ نے طفیل متو اور اُنہی کی طرح مارے گئے سینکڑوں لوگوں کو ایک طفل تسلی دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مذکورہ معاملے کی مثل کو بند کر دیا جا رہا ہے تاہم راز دارانہ طور معاملے کا سُراغ لگانے کے متبادل کو موجود رکھا جاتا ہے تاکہ کبھی کوئی سُراغ ملا تو اس معاملے کی مثل کو پھر سے کھولا جا سکے۔کرائم برانچ کی یہ بات بے کار کی ہے….!آخر جس معاملے کی بہت شوروغل کے ساتھ تحقیقات کرائے جانے کا اعلان کیا گیا ہو اور کئی بار تحقیقات کرائے جانے کے دعویٰ کرنے کے با وجود بھی کوئی نتیجہ نہ نکالا جا سکا ہو اُس میں محض ایک متبادل کو موجود رکھنے سے کونسے انصاف کی توقع کی جا سکتی ہے۔اگر کرائم برانچ متاثرین کو واقعتاََ انصاف دلانے میں سنجیدہ ہوتی تو پھر کوئی شک نہیں کہ انصاف ہوتے دیکھا جا چکا ہوتا یا پھر مثل کو بند کر دینے کا فیصلہ ہی نہیں لے لیا گیا ہوتا۔

جموں و کشمیر میں علیٰحدگی پسند تحریک کے مسلح ہونے کے بعد سے طفیل متو کا قتل اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔چناچہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سرسری مطالعہ کرنے پر بھی اس طرح کے واقعات اس بد نصیب خطے کا معمول لگنے لگتے ہیں اور پھر ان جیسے واقعات کی تحقیقات کرائے جانے کے اعلانات بھی ۔جہاں طفیل کی موت کے بعد ہی محض چند ماہ کے دوران سوا سو لڑکے مارے گئے اور سرکار نے تحقیقات کرائے جانے کے اعلانات کئے وہیں ابھی حال ہی جنوبی کشمیر کے ترال اور سرینگر کی مضافاتی بستی نارہ بل میں بھی دو مزید نوجوان فورسز کی گولیوں کا شکار ہو کر قبروں میں سوگئے ہیں اور سرکار نے روایت کو جاری رکھتے ہوئے تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے۔چناچہ ان نام نہاد تحقیقاتوں کے منطقی انجام تک اور قصورواروں کے کٹہرے تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ لوگوں کا تحقیقاتی اعلانوں اور کمیشنوں پر سے پوری طرح اعتماد اُٹھ چکا ہے۔جیسا کہ طفیل کے ایک رشتہ دار کہتے ہیں”آخر ان تحقیقاتوں پر کوئی کیوں اور کیسے اعتماد کرے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب لوگوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے ایک ذرئعہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے“۔وہ کہتے ہیں”طفیل کو تو دن دہاڑے اور کھلے عام قتل کر دیا گیا تھا اور اسکے کئی شاہد بھی موجود ہیں لیکن نام نہاد تحقیقاتی نطام ایسا ہے کہ سب کچھ کے واضح ہونے کے باوجود بھی کچھ ثابت ہی نہیں ہونے دیا جاتا ہے“۔وہ کہتے ہیں”طفیل کے والد نے تو پہلے ہی کہا ہے کہ وہ ہر طرح کی مایوسی کے باوجود بھی آخری دم تک انصاف کی لڑائی لڑتے رہیں گے لیکن سچ اور ثبوتوں سے انکار ہوتے دیکھ کر زخم تازہ ہوتے ہیں اور دل ٹوٹ جاتا ہے“۔اُنکا کہنا ہے”اس معاملے میں پولس نے روزِ اول سے ہی اپنے آدمیوں کو ڈھال فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ طفیل کے قتل کا معاملہ اتنا واضح ہے کہ اس میں ماہ بھر کے اندر قصورواروں کو سزا مل گئی ہونی چاہیئے تھی“۔

طفیل متو کے معاملے کی تحقیقات کرائم برانچ کو سونپتے وت ریاستی عدالتِ عالیہ نے کہا تھا”جب کوئی جُرم واقع ہو جائے یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسکی صفائی اور تیزی سے تحقیقات کرتے ہوئے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لے آئے۔یہ بات ایک سے زیادہ مرتبہ کہی جا چکی ہے کہ جب تک ستم زدگان کو بروقت انصاف نہ دیا جائے سماج میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا ہے“تاہم کرائم برانچ بھی اس نصیحت کو عمل میں لاکر انصاف کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے سماج میں قیامِ امن کی اُمید باندھنے میں ناکام رہی ہے۔

کرائم برانچ کی اس ”حتمی رپورٹ“کے پیشِ نظر چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے طفیل کے لواحقین کو 3جون کو طلب کیا ہے تاکہ مذکورہ رپورٹ کے حوالے سے اُنہیں سُنا جائے ،ہو سکتا ہے کہ وہ انصاف پانے سے مایوس ہوکر ہاتھ کھڑا کردیں یا پھر کسی طرح مزید ہمت جُٹا کر انصاف کی لڑائی کو ایک منزل اور لیجاتے ہوئے سال بھر بعد مزید اونچائی سے گر کر اپنی اُمیدوں کو ٹوٹتا بکھرتا دیکھیں یا پھر وہ کسی طرح معرکہ سر بھی کر جائیں لیکن کشمیر میں یہ تاثر ہر وقت ایک یقین میں بدل جاتا ہے کہ تحقیقات کے اعلانات عوامی غصے کو تھنڈا کرنے کا ایک آزمودہ حربہ ہے۔کشمیر میں کئی معاملات کی سالہا سے ”تحقیقاتیں “جاری ہیں جبکہ گذشتہ ماہ سہیل صوفی اور خالد مظفر نامی دو تازہ معاملے اس تحقیقاتی قلب میں شامل ہو گئے ہیں….دونوں ہی معاملات میں تحقیقاتی ایجنسیاں دیکھنے کے موڈ میں ہوں تو قاتلوں کو صاف دیکھ سکتی ہیں اور اگر روایتیں برقرار رہیں تو پھر یقیناََ کھلی آنکھ سے نظر آنے والا ہر سُراغ ”تکنیکی طور“بے اعتبار ٹھہرے گا اور تحقیقاتی مثلیں ”بلا سُراغ “Comments کے ساتھ بند ہو جائینگی۔کسی نے شائد کشمیر جیسے حالات کے لئے ہی کہا ہے .
تیغِ منصف ہوجہاں دارورسن ہوں شاہد
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سِوا

(یہ مضمون پہلے مئی ٢٠١٥ میں شائع ہوا تھا)

Exit mobile version