پنڈت نگرکا قیام اور الفاظ کا کھیل !

گوکہ کشمیریوں کی جانب سے بے چینی کے اِظہار اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مر مٹنے کی قسمیں اُٹھانے کے بعد وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اپنے عزائم کو Sugar Coatکرنے کے لئے پھر سے انگریزی لغت کو کھنگالنا شروع کیا ہے لیکن کشمیر میں بے چینی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔جموں میں رہ رہے بنگالی پناہ گزینوں کی باز آبادکاری کے نام پر اُنہیں ریاست کے شہری بنائے جانے سے متعلق گردش کر رہی افواہوں کے بعد اب کشمیر کے اندر ہندووں کے لئے ”الگ کشمیر“ بسانے کی خبر یقیناََ شکوک پیدا کر رہی ہیں اور لوگ اِس وہم میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ کہیں کشمیر ایک اور فلسطین نہ بننے جا رہا ہو۔
1989ءمیں جموں و کشمیر کی علیٰحدگی پسند تحریک کے مسلح ہوجانے پر افراتفری کے عالم میں امن و قانون کی حالت تتر بتر ہوگئی تھی۔اِن حالات میں جہاں جنگجووں نے سینکڑوں مسلمانوں کو اِنکی سیاسی وابستگیوں ،سرکاری فورسز کے لئے مخبری کرنے اور اس طرح کی مختلف وجوہات کے لئے ہلاک کیا وہیں بعض پنڈت بھی امن و قانون بنائے رکھنے والے اِداروں کو ہلا کر رکھ دینے والے اِن حالات کا شکار ہو گئے۔چناچہ ابھی صورتحال کا پوری طرح اِدراک نہیں ہو پارہا تھا کہ پنڈتوں نے ایک منظم طریقے پر وادی بدر ہونے کا فیصلہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پنڈتوں کی بستیاں خالی ہو گئیں۔بعد ازاں یہ راز فاش ہوا کہ اِس اقلیتی فرقے کو فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے گورنر جگموہن نے،مبینہ طور، اِس منصوبے کے تحت ”کچھ دیر کے لئے“جموں چلے جانے کے لئے کہا تھا کہ علیٰحدگی پسند تحریک کو کچلنے کو دوران کہیں اِن(پنڈتوں)کو خراش نہ آ جائے ۔دلچسپ مگر افسوسناک ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے19جنوری1990 کو اچانک ہی وادی سے چلے جانے کے محض ایک دن بعد لالچوک کے بغل میں گاو کدل نام کی جگہ پر گورنر کی فورسز نے ایک عوامی جلوس پر بندوق کے دہانے یوں کھول دئے کہ قیامتِ صغریٰ برپا ہوگئی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اِس دن آن کی آن میں 21نہتے مظاہرین مارے گئے تھے حالانکہ حقوقِ انسانی کی علمبردار تنظیموں کے مطابق در اصل 51افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔پنڈتوں کے وادی بدر ہونے سے متعلق راز کے فاش ہونے پر یہ بھی معلوم ہوا کہ پنڈتوں کے ساتھ اِنہیں جلد ہی عزت و وقار کے ساتھ واپس لے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔تاہم جگموہن کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور علیٰحدگی پسند تحریک کو سخت ترین اِقدامات کئے جانے کے با وجود بھی نہیں دبایا جا سکا اور یوں پنڈتوں کا فوری طور اپنے گھروں کو واپس لوٹ آنا دشوار ہو گیا۔حالانکہ شورش زدہ وادی میں اب بھی ایسے زائد از آٹھ ہزار پنڈت امن کے ساتھ رہ رہے ہیں کہ جنہوں نے اپنے گھر نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ لوگ ابھی بھی یہاں کے مسلمانوں سے نہ صرف مطمعین ہیں بلکہ برملا طور اظہارِ تشکر بھی کرتے ہیں۔نقل مکانی کر کے گئے کشمیری پنڈت فی الوقت جموں ،دِلی اور ہندوستان کے دیگر شہروں میں اِنہیں سرکار کی جانب سے فراہم کئے گئے گھروں میں آباد ہیں اور ماہانہ فی نفر ہزار وںروپے کا مشاہرہ پا تے ہیں۔ راجیو چُنی نام کے ایک سماجی کارکن کی جانب سے 2012میں حقِ اطلاعات کے قانون کے تحت حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق 31مارچ2012 تک پنڈتوں کو حکومتِ ہند نے 22665کروڑ روپے کی خطیر امداد دی تھی جبکہ اسکے بعد 2لاکھ کشمیری پنڈتوں کے حق میں مزید 12000کروڑ روپے کی امداد فراہم کی گئی ہے۔چُنی کہتے ہیں کہ اِسکے علاوہ1990سے لیکر ابھی تک پنڈتوں کے لئے14اقتصادی پیکیج منظور کئے گئے ہیں۔
حالانکہ مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر کو با العموم اور وادی کو با الخصوص مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے بیچ کے برادرانہ تعلقات کے لئے پہچانا جاتا رہا ہے لیکن ریاست میں علیٰحدگی پسند تحریک شروع ہونے کے بعد سے کشمیر کی اس پہچان کو مٹانا بعض حلقوں کے لئے گویا مقدس جہاد ہو گیا ہو۔ایک طرف دو ایک سوہندووں،جنہیں مقامی طور پنڈتوں کی اصطلاح سے جانا جاتا رہا ہے، کی ہلاکت کو کچھ اس انداز سے پیش کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے کہ جیسے کشمیری مسلمانوں نے پنڈتوں کا قتل عام کر کے ہٹلر کو بھی شرمندہ کر دیا ہو۔ دوسری جانب ان پنڈتوں کی وادی واپسی سے متعلق بھی یوں ہوا کھڑا کی جا رہی ہے کہ جیسے مقامی آبادی بے نیام تلواروں کے ساتھ پنڈتوں کی منتظر ہو۔
پنڈتوں کو وادی بدر ہوئے پچیس سال پورا ہوئے ہیں تاہم یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی ہے کہ اِن لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر جموں اور دوسرے علاقوں میں ٹھہرنے کے لئے کسی نے آمادہ کیا تھا یا پھر مجبورتاہم کشمیر کی اکثریت اِس بات پر یقین کئے ہوئے ہے کہ پنڈتوں کو سابق گورنر جگموہن نے ایک سازش کے تحت وادی بدرہونے پر آمادہ کیا تھا تاہم اِس معاملے کو لیکر برسوں سے سیاست کرتے آرہے حلقوں کی جانب سے مذکورہ یقین کو رد کر دئے جانے پر بڑی توانائی خرچ ہو رہی ہے۔یہ بحث اب 25سال سے جاری ہے اور حال ہی میں اِس میں تب اُچھال آیا تھا کہ جب سینئر کانگریس لیڈر دِگوجے سنگھ نے پنڈتوں کی جلا وطنی کے 25سال پورا ہونے پر اِس پورے معاملے کو جگموہن کی کارستانی بتا کر گویا اُن لوگوں کی دُم پر لات رکھ دی تھی کہ جو دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں کہ مُسلمانوں نے دھمکیاں دے دے کر پنڈتوں کو کھدیڑ دیا تھا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں دِگوجے سنگھ نے کہاتھا ”کشمیری پنڈتوں کو جگموہن نے غیر ضروری طور وادی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔کشمیر میں تو ہندو اور مُسلم صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں“۔اِتنا ہی نہیں بلکہ سینئر کانگریس لیڈر نے مزید کہا تھاکہ وہ اِس بات پر مغموم ہیں کہ مختلف سرکاروں نے پنڈتوں کو آباد نہیں کیا ہے۔بی جے پی کی حامی جماعتوں کی جانب سے تبدیلی مذہب کے لئے چلائی جارہی ”گھر واپسی“مہم کی چُٹکی لیتے اور اِس معاملے کو پنڈتوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے دِگوجے سنگھ نے مزید کہا ہے”اگر کوئی گھر واپسی کا مستحق ہے تو وہ کشمیری پنڈت ہیں“۔چناچہ مسٹر سنگھ کے اِس بیان پر نہ صرف نام نہادپنڈت قائدین چراغ سیخ پا ہو گئے اور کئی دنوں تک ہندوستان بھر میں اس معاملے کو لیکر ہنگامہ جاری رہا۔
چناچہ کئی دنوں تک جاری رہنے والا یہ تنازعہ،کہ پنڈتوں کو آخر کیوں اور کس لئے وادی چھوڑ کر جاناپڑا تھا ،کچھ تھم سا گیا ہے لیکن پنڈتوں کی وطن واپسی کے حوالے سے ایک نیا بلکہ خطرناک تنازعہ پیدا ہونے لگا ہے۔چناچہ وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے کہا ہے کہ اُنکی سرکار وادی کشمیر میں جلد ہی پنڈتوں کے لئے الگ شہر بسانے کو زمین حاصل اور دستیاب کرائے گی۔یکم مارچ کو وزارتِ اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 7اپریل کو نئی دلی میں وزیرِ داخلہ کے ساتھ اپنی پہلی ہی ملاقات میں مفتی محمد سعید یہ وعدہ کر آئے ہیں کہ پنڈتوں کے لئے الگ شہر بسائیں گے جیسا کہ آر ایس ایس اور بھاجپا سے شہہ لیتی رہی بعض پنڈت تنظیموں کا مطالبہ رہا ہے۔پریس انفارمیشن بیورو آف انڈیا (پی آئی بی)کی جانب سے مفتی ،وزیرِ اعظم مودی،وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ اور دیگر شخصیات کے بیچ ہوئی ملاقاتوں کے احوال سے متعلق جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ بات صاف الفاظ میں پیش کی گئی ہے۔بیان کے مطابق وزیرِ داخلہ نے مفتی کو پنڈتوں کے لئے الگ شہر بسانے کی ہدایت کی اور مفتی نے موقعہ پر ہی یقین دلایا کہ وہ اس حوالے سے جلد ہی زمین حاصل کرکے دستیاب کرائیں گے۔
اِس خبر نے سامنے آتے ہی وادی¿ کشمیر میں تہلکہ مچا دیا اور لوگوں میں بے چینی کی لہر سی دوڑ گئی۔ایک طرف جہاں علیٰحدگی پسند خیمہ نے بیک زباں اس منصوبے کو ایک سازش بتاتے ہوئے اسے کسی بھی صورت کامیاب نہ ہونے کے عزائم ظاہر کئے وہیں دوسری جانب سابق حکمراں جماعت نیشنل کانفرنس تک نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ایسا نہیں ہے کہ وادی کے مسلمان یا یہاں کی علیٰحدگی پسند تنظیمیں پنڈتوں کی وطن واپسی کے خلاف ہوں لیکن یہ ضرور ہے کہ مقامی آبادی اِس خدشے میں ملوث ہے کہ کہیں پنڈتوں کی واپسی کی آڑ میں کسی اور ہی منصوبے کو روبہ عمل نہ لایا جا رہا ہو۔جیسا کہ علیٰحدگی پسند لیڈر یٰسین ملک نے مفتی -راج ناتھ ملاقات کے اگلے دن سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سرکاری منصوبے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا”ہم نفرت کے یہ شہر بسانے کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دینگے اور اِسکی ہر سطح پر مزاحمت کرینگے“۔اُنہوں نے کہا کہ پنڈتوں کے لئے الگ شہروں کے قیام کا منصوبہ آرایس ایس اور دیگر فرقہ پرست جماعتوں کا دیرینہ خواب ہے جسکا مقصد مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنا ہے“۔تاہم اُنہوں نے کہا کہ وادی سے جاچکے پنڈتوں کو واپس اپنے گھروں میں آباد ہونے کا پورا حق ہے اور اس حوالے سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ہے۔یٰسین ملک نے کہا کہ اس حوالے سے بزرگ لیڈرسید علی شاہ گیلانی سمیت سبھی علیٰحدگی پسندوں نے وقت وقت پر پنڈتوں سے اپیلیں بھی کی ہیں۔
علیٰحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ اِس طرح کے مطالبات در اصل کشمیر کو فرقہ پرستی کا رنگ دیکر ایک” نئے فلسطین“کی بنیاد ڈالنا ہے۔یٰسین ملک نے مفتی کی اس یقین دہانی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”مفتی سعید اقتدار کے لئے آر ایس ایس کے ساتھ رشتہ باندھ چکے ہیں لہٰذا راجناتھ سنگھ کو دی گئی اُنکی یقین دہانی ایک بڑے گیم پلان کا حصہ ہے جسکا مقصد کشمیر میں فرقہ پرستی کی آگ لگانا ہے“۔اُنہوں نے کہا کہ کشمیر کو مختلف مذاہب اور برادریوں کے لوگوں کے بھائی چارہ کے لئے ایک خاص پہچان حاصل ہے لیکن پنڈتوں کے الگ شہر نفرت کی دیواروں کی طرح کھڑا ہونگے اور اِس سے ریاست میں آگ لگ جائے گی۔اُنہوں نے کہا کہ وادی میں ابھی بھی قریب دس ہزار پنڈت آباد ہیں جو کاروبار کرتے ہیں تو مسلمان اُنکے گراہک ہیں۔اُنہوں نے سرکار سے سوال کرتے ہوئے کہا”لالچوک میں دکان کرنے والے ان پنڈتوں کو بھی نام نہاد جامع شہروں میں منتقل کروگے کیا“۔علیٰحدگی پسند قیادت اِس سے قبل بھی مذکورہ منصوبے کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے حالانکہ خود اُنہوں نے کئی بار پنڈتوں سے لوٹ آنے کی اپیلیں کی ہیں۔سید گیلانی نے پنڈتوں کشمیر کا جزو لاینفک قرار دیتے ہوئے گذشتہ سال بھی اُنسے لوٹ آنے کی التجا کی تھی تاہم اُنکا کہنا ہے کہ الگ شہر بسانے کے کسی بھی منصوبے کی کسی بھی حد تک مخالفت و مزاحمت کی جائے گی۔یٰسین ملک اور سید گیلانی ہی نہیں بلکہ ہر ہر علیٰحدگی پسند تنظیم نے جاری کردہ اپنے بیانات میں خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ پنڈتوں کو وادی لوٹ کر اپنے آبائی گھروں یا علاقوں میں پہلے کی طرح رہنے کا حق ہے لیکن کسی الگ ”ہوم لینڈ“وگیرہ کی اجازت دیگر کشمیر میں الگ کشمیر بسانے کے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مُسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر پر پہلے سے ہی فرقہ پرستوں کی میلی نظریں رہی ہیں اور اب جبکہ مفتی محمد سعید نے پہلی بار بھاجپا کے لئے ریاست میں حکومت بنانا ممکن کیا ہے،فرقہ پرستوں کے دبے عزائم جوان ہوکر سر اُٹھانے لگے ہیں۔

اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے، اُنکانام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا”ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ جموں و کشمیر کی موجودہ سرکارآر ایس ایس کے ناگپور ہیڈکوارٹر سے چلے گی اور ایسا اب واضح ہونے لگا ہے“۔تاہم پارٹی کے جنرل سکریٹری علی ساگر نے وضاحتاََ مذکورہ منصوبے کو انتہائی خطرناک قرار دیاہے جبکہ پارٹی کے کارگذار صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹویٹکرکے اِس منصوبے کو نا قابل عمل بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے انتظام کی کوئی حمایت نہیں کرے گا۔اُنہوں نے کہا ہے کہ ایسے نام نہاد شہر وادی میں کبھی محفوظ بھی نہیں ہو سکتے ہیں۔اپنے ایک ٹویٹ میں عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ کوئی سلیم العقل کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی مخالفت نہیں کرتا تاہم کوئی پنڈتوں کیلئے الگ کالونیاں بسانے کا حامی بھی نہیں ہے۔
خود وادی میں رہ رہے پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس برادری کے لئے کوئی الگ شہر بسانے یا اس طرح کی کارستانیوں سے ہو سکتا ہے کہ نامعلوم ہاتھ مظبوط ہو جائیں لیکن خود پنڈتوں کے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائیں گے۔جنوبی کشمیر کے اننت ناگ قصبہ میں دکان کرنے والے بنٹی کا کہنا ہے”جب سبھی پنڈت بلکہ بعض سکھ اور مسلمان بھی وادی سے بھاگ رہے تھے ہم ڈٹے رہے اور آج اتنے سال گذرنے کے بعد بھی ہمیں اپنے اس فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے“۔وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہر دکھ سکھ میں اُنکا یوں ساتھ دیا ہے کہ اُنہیں کبھی کچھ الگ م احساس نہ ہوا۔ایک کامیاب تاجر کے بیٹے بنٹی کا مزید کہنا ہے”2009میں میرے پِتا جی گذر گئے تو مسلمانوں نے اپنے بچوں کی طرح اُنکی آخری رسومات انجام دیں،ہم تو یہیں جئے ہیں اور یہیں مرینگے لیکن الگ شہر بسانے کے جیسے فرسودہ منصوبوں سے کشمیری پنڈت سماج سے مزید کٹ کر رہ جائیں گے اور وہ کسی بھی صورتحال سے زیادہ تکلیف دہ زندگی ہوگی“۔بنٹی ہی نہیں بلکہ پنڈتوں کی ایک تنظیم”کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی“کے صدر سنجے تِکو کہتے ہیں”الگ شہر یا مخلوط شہر ،آپ کوئی بھی اصطلاح کہیں،پنڈتوں کو خطرے میں ڈالنے کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔مجھے نہیں لگتا ہے کہ پنڈت آبادی ایسی باتوں کے لئے واپس آسکتی ہے“۔وہ کہتے ہیں کہ اگر سرکار واقعی پنڈتوں کی واپسی کے لئے مخلص ہے تو پھر ا،سے سبھی کو ساتھ لیکر ایک ایسا منصوبہ بنانا چاہیئے کہ جو قابلِ عمل ہو۔وہ کہتے ہیں”حالانکہ علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے بھی پنڈتوں کو واپس بلایا جاتا رہا ہے لیکن کیا یہ طریقہ ہے پنڈتوں کی واپسی کا،ایسے میں تو نفرتیں اور دشمنیاں بڑھیں گی“۔سنجے تِکو کہتے ہیں کہ کشمیر میں رہتے ہوئے وہ اپنے سبھی تہوار مناتے آرہے ہیں اور آزادی کے ساتھ رہتے ہیں اِس سے زیادہ کونسا مخلوط نظام ہو سکتا ہے کہ جسکا سرکار انتظام کرنے چلی ہے۔
دلچسپ ہے کہ سرکار سے للچانے والی مراعات لیتے آرہے پنڈتوں کی اکثریت کے بارے میخیال ہے کہ وہ در اصل واپس لوٹنا بھی نہیں چاہتے ہیں۔جیسا کہ خود ایک کشمیری پنڈت فلم اداکار راہل پنڈت نے چند ماہ قبل وادی کے دورے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں وضاحتاََ کہا بھی تھا کہ پنڈت لوگ ہندوستان کے مختلف شہروں میں آباد ہوگئے ہیں اور واپس آنا بھی نہیں چاہتے ہیں لہٰذا اب اس بات سے آگے بڑھا جانا چاہیئے۔تاہم اس سب کے باوجود بھی کیوں متنازعہ منصوبے سامنے آتے ہیں،سمجھنا محال ہے مگر شکوک و شبہات کا سر اُبھارنا فطری معلوم ہوتا ہے۔
سید علی شاہ گیلانی،یٰسین ملک اور دیگر علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے ا،س منصوبے کی مخالفت میں احتجاج کا باضابطہ کلینڈر سامنے آنے اور خود کئی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید انگریزی لغت کا سہارا لیتے ہوئے Composite townshipاور نہ جانے کیا کیا اصطلاحوں کے ذرئعہ کشمیر کے اندر الگ کشمیر بنانے کے اپنے منصوبے کو قابلِ قبول بنانے کی جستجو کرنے لگے ہیں لیکن حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ اس منصوبے پر عمل کا جو نتیجہ ہوگا اُسے سادہ الفاظ میں تباہی کا نیا دور کہا جائے گا اور دُنیا کی کسی بھی لغت میں اس نتیجے کے لئے ایسے ہی الفاظ بر آمد ہونگے۔

 

یہ مضمون پہلے ٣٣ مئی ٢٠١٥ کو شائع ہوا تھا

Exit mobile version