پرواز سلطان ابنِ صفیؔ کا کرنل فریدی

اپنے وقت کے ایک سرکردہ اور ہر دلعزیز صحافی پرواز محمد سلطان کی آج اٹھارہویں برسی تھی جو تاہم شائد ہی کسی کو یاد رہی۔اُن صاحبان کو بھی نہیں کہ جنہوں نے پرواز سے خوب کام لیکر اپنی دنیا آباد کی،جنکا ایک ایک حکم بجا لانے کیلئے ’’خوجن دوپُم پھٹکھئے‘‘ کی طرح سوچنے والے پرواز گویا آسمانوں میں اُڑتے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی یاد نہیں تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پرواز صاحب کو گئے اٹھارہ سال گذر گئے ہیں اور آج اُنکی برسی ہے۔لیکن میری اُنکے ساتھ ’’دوستی‘‘ بھی نہیں تھی۔پہلے نوجوان صحافی سہیل ساحل اور پھر صحافی و کارٹون نویس شاہ طارق کو فیس بُک پر پرواز صاحب اور اُنکی برسی کو یاد کرتے پایا تو پرواز صاحب کو بھول جانے پر شرمندگی سی محسوس ہوئی۔پھر شاہ طارق کا یہ کہنا ’’پرواز محمد سلطان… آپکی 14ویں برسی پر سرینگر سے شائع ہونے والے لگ بھگ کسی بھی اخبار نے تجھے یاد نہیں کیا……….. کیونکہ آپ غریب صحافیوں میں شمار ہوتے تھے….چونکہ ان اخبار والوں کا رتبہ تو اونچا ہےنا … اس لئے بھرا نہ مانا……… پرواز تم مارے گئے ورنہ جیتے جی مرجاتے ‘‘ ایک زناٹے دار تھپڑ کی طرح لگا۔

وہ خود کو ابنِ صفیؔ کا عمران یا کرنل فریدی سمجھتے تھے یا کم از کم اُن جیسا بننا چاہتے تھے

جس طرح بچپن میں کسی شفیق استاد کا زناٹے دار تھپڑ ہمارے ہوش ٹھکانے لگاکر بھولے اسباق یاد یا انہیں یاد رکھنے کی ترغیب دلاتا تھا اسی طرح طارق کے چُبھتے ہوئے جملے نے جیسے سب کچھ یاد دلادیا۔پرواز صاحب کے ساتھ وہ پہلی ملاقات اور پھر وہ آخری بھی کہ جسکے چند ہی منٹوں کے بعد اُنہیں گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

پرواز صاحب بہت کم گو تھے اور کسی بھی دیہاتی کی طرح بہت حد تک باحیا بھی۔اُنکی زندگی نہایت ’’بے ترتیب‘‘ ضرور تھی لیکن اپنے کام کے حوالے سے وہ بہت پیشہ ور تھے۔اُنہوں نے صحافت کا پیشہ روزگار کمانے کے بنیادی مقصد سے نہیں بلکہ اپنے شوق کی تکمیل کیلئے اپنایا تھا۔وہ شوق جو اُن میں ابنِ صفیؔ کی ناولوں کی تقریباََ سبھی جلدیں پڑھنے سے پیدا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ خود کو ابنِ صفیؔ کا عمران یا کرنل فریدی سمجھتے تھے یا کم از کم اُن جیسا بننا چاہتے تھے۔

جیسا کہ اُنکے کئی ہم جماعتیوں سے پتہ چلا ہے پرواز ایک اچھے طالبِ علم رہے ہیں جو نہ صرف اپنے نصاب کے ساتھ چمٹے رہتے تھے بلکہ ایک نہایت غریب گھر میں جنم لینے کے باوجود نہ جانے اُنہوں نے کتابوں سے عشق لڑانے کا شوق کہاں سے اُٹھا کر اپنا لیا تھا۔کہتے ہیں کہ زمانۂ طالبِ علمی میں اُنہیں ہر وقت کتابوں،جرائد اور اخبارات وغیرہ کے ساتھ دیکھا جاسکتا تھا اور وہ بڑے سنجیدہ قاری تھے یہاں تک کہ گریجویشن کے بعد کسی سرکاری نوکری،جو اُنہیں بہ آسانی مل بھی سکتی تھی، کی تلاش کی بجائے اُنہوں نے ایک ایسا صحافی بننے کی ٹھان لی کہ جو ابنِ صفیؔ کے جاسوسوں کی طرح تحقیقات کریں اور اپنے انکشافات سے سب کو چونکا دیں۔

جنوبی کشمیر میں ایک درگاہ کی وجہ سے مشہور قصبہ نُما گاؤں کھرم کے یہ نوجوان سرینگر آکر تب کے مشہور روزنامہ الصفا میں پہنچ گئے جہاں اُنہیں اخبار کے بانی ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کی رہنمائی ملی۔وکیل کو جلد ہی پتہ چلا کہ دراصل جتنی ضرورت پرواز کو الصفا کی نہیں ہے اُس سے کئی زیادہ خود الصفا کو ’’پرواز کی ضرورت‘‘ ہے۔ پرواز کی خوش قسمتی یا بد نصیبی کہیئے کہ اُنکا اُسوقت کے ایک مشہور ہفتہ روزہ کے ساتھ تعارف ہوا جسکے لئے پرواز نے ایک لمبے عرصہ تک متواتر لکھا اور ’’نام کمایا‘‘۔یہاں سے وہ کانگریس کے ’’قومی آواز‘‘ کیلئے تجویز ہوئے جس نے اُنہیں کشمیر کیلئے ’’بیورو چیف‘‘ بنایا۔یہ الگ بات ہے کہ کئی ’’متنازعہ ناموں‘‘ کے ساتھ نتھی ہونے کے باوجود پرواز صاحب کو کہیں سے باضابطہ تنخواہ نہیں ملی۔میں نے اُنکے ایسے کئی خطوط دیکھے ہیں کہ جن میں وہ قومی آواز کے ذمہ داروں کو اپنی خدمات کی یاد دہانی کراتے ہوئے اُنسے باضابطہ نوکری اور موعودہ تنخواہ کی واگذاری کی درخواستیں کرتے رہے۔قومی آواز کے اپنی موت آپ مرجانے تلک تاہم پرواز صاحب کو یہاں سے اُنکا حق نہیں ملا۔


’’پرواز محمد سلطان… آپکی 14ویں برسی پر سرینگر سے شائع ہونے والے لگ بھگ کسی بھی اخبار نے تجھے یاد نہیں کیا……….. کیونکہ آپ غریب صحافیوں میں شمار ہوتے تھے….چونکہ ان اخبار والوں کا رتبہ تو اونچا ہےنا … اس لئے بھرا نہ مانا……… پرواز تم مارے گئے ورنہ جیتے جی مرجاتے ‘‘

کئی مقامی اخبارات میں کام کرتے کرتے پرواز صاحب ریڈیو کشمیر پہنچے جہاں وہ تبصرے لکھنے کے علاوہ معروف پروگرام شہربین کیلئے رپورٹنگ کرتے رہے۔اُنکی رپورٹیں موضوع کے انتخاب سے لیکر آواز کے معیار،الفاظ کے استعمال،جملوں کی ترتیب اور ہر چیز کے اعتبار سے نہایت پیشہ ورانہ ہوتی تھیں۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب انٹرنیٹ کا تصور بھی نہیں تھا،فیس بُک اور وٹس ایپ زکربرگ کے خواب میں بھی نہیں آیا تھا۔پھر جموں کشمیر میں ’’آزادی کی تحریک‘‘جوبن پر تھی اور لوگ اخبار پڑھے اور ریڈیو سُنے بغیر زندگی ادھوری سمجھتے تھے ۔۔۔پرواز ایک زبان زد عام نام بن کے اُبھرے۔

پرواز صاحب کی زبانی میں نے خود سُنا ہے کہ جب پہلی دفعہ ہفتہ روزہ چٹان میں اُنکی رپورٹ اُنکے نام کے ساتھ چھپی تو وہ ہر اُس رشتہ دار اور تعلق دار کے یہاں گئے کہ جو اُنکے ذہن میں آیا تھا۔اُنکے الفاظ میں ’’میں اتنا خوش تھا کہ ہر رشتہ دار کے گھر گیا اور اُنہیں اخبار دکھا کے آگیا‘‘۔تاہم اب وہ اس حد تک پُراعتماد ہوچکے تھے کہ اُنہوں نے ’’نیوز اینڈ فیچر ایلائنس‘‘ یا نافا نام سے ایک خبر رساں ایجنسی کی بنیاد رکھی جسے مشہور ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا لیکن اس ادارے کی شہرت بھی اُنکی مالی حالت کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت نہ ہوسکی۔پرواز صاحب کو زندگی نے فرصت دی ہوتی تو شائد وہ اس ادارے کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی اُردو سروس بنوانے کے اپنے منصوبے میں کامیاب بھی ہوگئے ہوتے جیسا کہ اُنہوں نے کئی بار تذکرہ کیا تھا۔

پرواز محمد سلطان کے پاس وہ سب کچھ تھا کہ جو ایک اچھے اور پیشہ ورانہ صحافی کے پاس ہونا چاہیئے۔اچھی تعلیم،بہترین تجربہ ،کام میں لگن ،سچ کو کھوجنے کی تڑپ وغیرہ لیکن میرے خیال میں اُن میں انسان شناسی کی صلاحیت کسی حد تک کم تھی۔وہ خود کو کھلونا بننے سے روک بھی نہیں پاتے تھے شائد اس لئے کہ وہ بنیادی طور شرمیلے،کم گو (اپنی غربت کی وجہ سے) کسی حد تک احساسِ کمتری کے شکاراور اس سب کے علاوہ ایک مہربان دل رکھنے والے شخص تھے۔ حالانکہ اُنکا استعمال کرکے ’’پرواز‘‘ کرچکے کئی لوگ خود بھی دور دیہات سے آئے تھے تاہم اُنہوں نے شہر میں اپنے ’’ایسٹیٹ‘‘ قائم کئےالبتہ پرواز سلطان جس غربت میں شہر آئے تھے کئی سال بعد اُنکی لاش اس سے کئی زیادہ غریب لوٹ گئی۔

وہ غریب تھے اور انہوں نے پیچھے ایسا کوئی بڑا ادارہ نہ چھوڑا تھا کہ جس کی شہرت یا بڑھائی پر سوار ہوکر اُنکے ’’دوست‘‘ فائدے بٹورنا جاری رکھ سکتے تھے

پرواز سلطان کو جو چند لوگ آج یاد کرتے ہیں وہ شائد اُنہیں اچھی طرح سے جانتے بھی نہیں ہونگے۔یہ شائد اُنکا خلوص ہے کہ جو ایک اچھے پیشہ ور کو یاد کرتے ہیں لیکن جو لوگ اُنہیں اُنکے ’’دوست اور مہربان‘‘ ہونے کا یقین دلاتے دلاتے اُنکا استعمال کرچکے اُنہوں نے اس غریب کو یکسر فراموش کردیا۔پرواز کی برسی پر اخبارات میں تذکرہ نہ ہوتے دیکھ کر رنجیدہ ہونے والوں کو جان لینا چاہیئے کہ وقت کے ساتھ بھول جانا تو کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پرواز کو تو بندوق سے گولی نکلنے کے ساتھ ہی بھلایا جاچکا تھا۔

تاریخ میں یہ بات درج ہے کہ جب ایک دھماکے میں ایک بھارتی غیر مسلم صحافی کی ہلاکت ہوئی تو کشمیری صحافیوں نے اُنکی میت پر پھول رکھے اور انہیں بڑے اعزاز کے ساتھ روانہ کیا لیکن پرواز کی نعش پولس کنٹرول روم میں پوری رات پڑی رہی اور باہر کوئی ہجوم نہیں تھا۔اس بات پر کلام بے معنیٰ ہے کہ پرواز کو کیوں،کس کے کہنے پر اور کس نے قتل کیا لیکن اتنا طے ہے کہ اُنہیں کسی ذاتی دشمنی نے نہیں مروایا۔ ہو نہ ہو اُنکا کوئی کام اُنکا ’’جُرم‘‘ ٹھہرایا گیا ہو لیکن اُنہوں نے شائد پیسے کیلئے کسی کو نہ اپنے ضمیر کو بیچا تھا ۔یہ شائد اخلاق کے منافی ہوگا نہیں تو اُنکی معاشی حالت پر بات کی جائے تو آج بھی لوگوں کو حیرانگی بھی ہوگی اور شائد کئی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوجائیں۔

 اُنہیں فراموش کئے جانے کی واحد وجہ بھی یہ ہے کہ وہ غریب تھے اور انہوں نے پیچھے ایسا کوئی بڑا ادارہ نہ چھوڑا تھا کہ جس کی شہرت یا بڑھائی پر سوار ہوکر اُنکے ’’دوست‘‘ فائدے بٹورنا جاری رکھ سکتے تھے۔

Exit mobile version