من ہی من میں کتابِ زندگی کی ورق گردانی کے دوران سنیچر کی صبح کو مجھے اچانک ہی ’’سلام بابُن گرٔٹہ‘‘ یاد آیا … عجیب احساس ہوا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کا قبضہ ہوگیا۔ ہوتا بھی کیسے نہیں،اُس چکّی گھر سے بچپن کی حسین یادیں جو وابستہ ہیں!
حالانکہ جدید تیکنالوجی نے ہمارے بچپن کی کتنی ہی چیزوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹاکر انکی یاد تک بھلادی ہے لیکن بعض اوقات یہی تیکنالوجی یادوں کو حیاتِ جاوداں بخشنے کا ذرئعہ بنتی ہے …اب موبائل فون کو ہی لیجئے کہ جسے میں نے گاؤں کے چکّی گھر کی یاد آتے ہی ہاتھ میں لیکر اپنے ایک حساس کزن ،منظور بأئلال، کا نمبر ملایا۔
میرے پھوپھی زاد منظور ہیں تو ایک بیوپاری لیکن کم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود تہذیب،تمدن،حالاتِ حاضرہ اور گردوپیش کے حوالے سے بڑے حساس ہیں، سیاسی معاملات میں بھی بڑی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس حوالے سے میں انکے فہم سے بڑی حد تک مرعوب ہوں۔
ایسا لگا کہ جیسے انہیں پہلے سے میرے فون کا انتظار تھا،فوراََ اپنے ٹریڈ مارک پُرجوش انداز میں انہوں نے سلام کیا اور حال چال پوچھنے لگے لیکن اس بار مجھے انکی خیریت جاننے سے کئی زیادہ اُس چکّی گھر، اور اسکے مالک ،کے بارے میں جاننا تھا کہ جس سے وابستہ بچپن کی کئی حسین یادیں قریب تیس سال بعد اچانک ہی ذہن کی اوپری تہہ پر آکر تازہ ہوگئی تھیں۔
شاپنگ مالز اور سُپر بازاروں سے خوشنما تھیلیوں میں پیک آٹا دیکھنے والے آج کے بچوں کو کیا معلوم کہ اپنی آنکھوں سے آٹا یا ستو پِستے دیکھ کر ہم بچوں کو کتنا اچھا لگتا تھا۔اُس زمانے میں اپنے بڑوں کے ساتھ جاکر شالی کوٹنے کی مشین کو چلتے دیکھنا،سرسوں کے باریک دانوں کے مشین سے گذر کر تیل بننے کے ’’جادو‘‘ کا لطف لینا اور اس طرح کی ’’معمولی اور دیسی تیکنالوجی‘‘ کا نظارہ بھی بڑا ہی دلچسپ ہوا کرتا تھا۔ مکّی،چاول یا گندم پیسنے والا گراٹ چونکہ پانی کی مدد سے چلتا تھا لہٰذا یہ اور بھی دلچسپ تھا ۔
آج کے بچے اگرچہ ہوائی جہازوں کو اُڑتے اور اس میں سفر کرتے ہوئے بھی حیران نہیں ہوتے ہیں تاہم ہم بچے جب ’’نؤر‘‘ کہلانے والی لکڑی سے بنی چنل سے تیز بہاؤ کے ساتھ گرنے والا پانی گراٹ کے خمدار پہیئے کو گھماتے دیکھتے تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے سچ میں کوئی جادو ہوتے دیکھا ہو۔
’’سلام بابُن گرٔٹہ‘‘ جنوبی کشمیر کے ایک ’’انقلابی گاؤں‘‘ میں ہماری موروثی زمینوں کے قریب بھید کے پیڑوں کے گھنے جنگل میں واقع تھا اور سینکڑوں کنال رقبۂ اراضی کیلئے مشہور لینڈ مارک۔حالانکہ اس گاؤں میں دو چکّی گھر تھے،دونوں نہایت ہی خوبصورت مقامات پر بنے ہوئے اور یکساں طور مشہور و مصروف لیکن ’’عوبہ بٹُن گریٹہ‘‘ چونکہ گاؤں کی بیرونی سرحد پر واقعہ تھا لہٰذا اس میں ہم بچوں کی زیادہ دلچسپی نہیں ہوا کرتی تھی،پھر محمد عبداللہ بٹ عرف عوبہ بٹ یا ہم بچوں کیلئے عوبہ کاک، عبدالسلام خان عرف لالہ سلام یا ہم بچوں کیلئے سلام بابہ کے مقابلے میں بچوں کے ساتھ اتنے مہربان و مانوس بھی نہیں تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عوبہ کاک کا چکّی گھر ’’نونہ بال‘‘ نامی پہاڑی کے دامن میں واقع تھا جسے جنوں کے مسکن کے بطور جانا جاتا تھا اور اسلئے بچے یہاں سے دور رہنے میں ہی عافیت جانتے تھے۔
ظاہر ہے کہ چکّی گھر کا کام ستو یا آٹا وغیرہ پیسنا ہے لیکن سلام بابہ کے گراٹ کی پہچان ایک عام چکّی گھر سے زیادہ ایک کمیونٹی سنٹر کی تھی۔یہ چکّی بڑی مصروف رہتی تھی یہاں تک کہ بعض اوقات مکّی یا چاول وغیرہ پسوانے کیلئے آنے والوں کو قطار میں رہنا پڑتا تھا لیکن یہ دیگر کئی وجوہات کیلئے بھی کئی لوگوں کا آخری پتہ تھی۔ ایک بچے کے بطور میں نے اس گراٹ کے سامنے قیلولہ کرنے کیلئے آنے والے بزرگوں کے پیر دبانے کا ’’بیگار‘‘ انجام دیا ہے،یہاں کئی کسانوں کو سستاتے یا نماز ادا کرتے دیکھا ہے اور کئی نوجوانوں کو تاش کھیلتے دیکھنے کا لطف لیا ہے۔اس زمانے میں ڈرگس کی لعنت کا کوئی تصور تو نہیں تھا لیکن گاؤں کے جو دو ایک افراد چرس کے عادی تھے وہ بھی رہ رہ کے اسی چکّی گھر کے چکر کاٹتے دیکھے جاسکتے تھے۔
سلام بابہ کے گراٹ کے ساتھ وابستہ میری سب سے حسین یاد قریب تیس سال پُرانی ہے۔اُس دن میرے پھوپھی کے کھیتوں میں دھان کی پنیری لگائی جارہی تھی۔تب خوشیوں کی بہت عام، سستی اور تھوڑی وجوہات ہوا کرتی تھیں اور ’’تھٔج کاد‘‘ کے نام سے کھیتوں میں پنیری لگانے کا دن بھی ،باالخصوص بچوں کیلئے، کسی تہوار سے کم خوشی کا دن نہیں ہوا کرتا تھا۔حالانکہ یہ دن گھر کے بڑوں کیلئےکئی وجوہات کیلئے ،جن کا تفصیلی تذکرہ پھر کبھی، نہایت پُر تناؤ ہوا کرتا تھا۔جیسا کہ پہلے ہی تذکرہ کرچکا ہوں،سلام بابہ کا گراٹ ہمارے موروثی کھیتوں کے قریب ،بلکہ انہی کھیتوں کے شاملات پر،واقع تھا۔ہم بچے لوک گیت گاتی عورتوں کو پنیری تھماتے اور کیچڑ میں اچھلتے کودتے اور لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے بڑے خوش ہورہے تھے کہ اسی دوران موسم اچانک خراب ہوگیا،بادلوں کی تھرا دینے اور ڈرا دینے والی گڑ گڑاہٹ کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے انتہائی شدید بارش شروع ہوئی اور چھوٹے بڑے ہم سب افراتفری کے عالم میں کچی اینٹوں سے بنے اور سوکھی گھاس سے ڈھکے چکّی گھر کی طرف دوڑے اور اس چھت کے نیچے ’’محفوظ‘‘ ہوکر تیز بارش کا نظارہ کرنے کا منظر کیا دلرُبا اور من موہی تھا،اُسے الفاظ میں بیان تو نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ اسکی یاد آج تیس سال بعد بھی کرونا وائرس کے بحران کی تلخی بھلانے اور تناؤ سے نجات دلانے کیلئے کافی ہے۔
میں نے اپنے کزن کے ساتھ تذکرہ چھیڑا تو مجھے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ وہ میرے غیر روایتی اور غیر متوقع موضوعِ بحث پر حیران نہیں ہوئے۔ہمارے بچپن کے قطب مینار اس چکّی گھر کا تذکرہ چھِڑا تو بائلال کی یادیں اتنی ہی تازہ معلوم ہوئیں کہ جس تازگی کے ساتھ یہ یادیں میری یاداشت پر دستک دے چکی تھیں۔تھٔج کاد کے دن کا وہ واقعہ انہیں بھی اتنی ہی درستگی کے ساتھ یاد تھا کہ جتنی درستگی کے ساتھ یہ واقعہ میرے ذہن کے نہاں خانے میں ابھی تک قیام کئے ہوئے ہے۔
بد قسمتی سے مجھے اس جانب نکلے ہوئے کوئی تیس سال ہوئے ہیں لیکن باتیں کرتے کرتے ہم دونوں بھائی تصوراتی طور سلام بابہ کے گراٹ سے ہوتے ہوئے گاؤں کی پگڈنڈیوں ،کھیت کھلیانوں،باغات و پہاڑیوں کی سیر کو نکلے جہاں سروں پر لکڑیاں لادی عورتیں اور لڑکیاں ملیں،پیٹھ پر گوبر لادے مرد کھیتوں کو ذرخیز بنانے کیلئے جاتے ہوئے نظر آئے اور سلام بابہ کے گراٹ کے سامنے قیلولہ کرتے ہوئے بزرگوں کا خیال آیا۔ میں اپنے کزن سے باریکی سے گاؤں کے حالات پوچھتا رہا اور وہاں کی تہذیب میں کسی حد تک غیروں کا رنگ چڑھنے کا سُننے کی بد مزگی کے باوجود اندر ہی اندر تازگی محسوس کر رہا تھا ۔ یہ سب کتنا مسحور کُن تھا ،میں گویا اُچھل رہا تھا لیکن جب میں نے یہ پوچھا ’’سلام بابہ تو اب بہت زیادہ ضعیف ہوئے ہونگے … اور وہ گراٹ، اسے کون چلاتا ہے،کیا لوگ اب بھی وہاں سے آٹا اور ستو پِسواتے ہیں اور کیا وہاں اب بھی وہ میلے لگے رہتے ہیں؟‘‘ تو میرے کزن کے جواب نے گویا اس گراٹ کے خمدار پہیئے پر پڑ کر دودھ جیسی شکل میں نیچے سے بہنے والا سارا پانی مجھ پر انڈھیل دیا۔ اُنہوں نے کہا ’’ارے …اُسے (سلام بابہ) مرے ہوئے تو زمانہ بیت گیا،میرے خیال میں سن 1998میں مر گئے تھے اور وہ گراٹ اب محض ایک کھنڈر ہے‘‘۔ پھر جب گھنٹہ بھر بعد انہوں نے میرے بچپن کے اس قطب مینار کے کھنڈر کی تصویر بھیجی تو میں نے بہت رونا چاہا لیکن اس گراٹ کے نیچے سے بہنے والے پانیوں کی طرح ہی جیسے میرے آنسو کب کے خشک ہوچکے ہیں،یہ آنکھیں کب کی کھنڈر ہوچکی ہیں…!