غلافِ کعبہ سے وابستہ تین خوش قسمت خواتین

(محمد الحربی) بیت اللہ کے غلاف کی تیاری کو نہ صرف ظہور اسلام کے بعد بلکہ دور جاہلیت میں‌ بہت بڑے اعزاز کا کام سمجھا جاتا تھا۔ زمانہ جاھلیت میں‌ بھی غلاف کعبہ کی تیاری میں مقابلے کی کیفیت پائی جاتی۔

بھرپور مشقت کے باوجود ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق غلاف کعبہ کی تیاری میں اپنا حصہ ڈالتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قریش خانہ کعبہ کے لیے وہی غلاف قبول کرتے تھے جسے وہ اس عظیم المرتبت مقام کے لیے مناسب خیال کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کے غلاف کے لیے اچھا خاصا کپڑا درکار ہوتا، جس کی لمبائی اونچائی 15 میٹر اور اضلاع کی لمبائی 12 میٹر ہوتی۔

بہت سے لوگ غلافہ کعبہ تیار کرتے، جس کا تیار کردہ غلاف زیادہ خوبصورت، مضبوط اور مکمل ہوتا اس کا غلاف خرید لیا جاتا۔ قریش میں ہر ایک غلاف کعبہ کی خریداری کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا تھا۔ زیادہ تر کئی کئی افراد مل کر اسے تیار کرتے۔

قبل از اسلام یمن کے ایک تاجر ابو ربیعہ بن المغیرہ المخزومی نے قریش کے سامنے پیش کش کی کہ وہ اکیلا ہی غلاف کعبہ تیار کرے گا۔ قریش نے اس کی پیش کش قبول کرلی۔ وہ کئی سال تک غلاف بنا کر قریش کو فروخت کرتا۔ اس کی انصاف پسندی کی وجہ سے اسے جاننے والے عادل شخص قرار دیتے۔ ظہور اسلام سے تھوڑا عرصہ قبل وہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

غلاف کعبہ تیار کرنے والی خواتین
تاریخ کی کتب میں غلاف کعبہ کی تیاری کا تذکرہ بہت ہے اور یہ بھی غلاف کعبہ زیادہ تر مرد حضرات کا کام تھا تاہم تاریخ میں کچھ خواتین کے نام بھی ملتے ہیں جو غلاف کعبہ تیار کرتیں۔ ان میں تین خواتین زیادہ مشہور ہوئیں۔ ان میں النوار بنت مالک پہلی مشہور خاتون ہیں جنہوں‌ نےغلاف کعبہ تیار کیا۔ وہ صحافی رسول زید بن ثابت کی ماں ہیں۔

ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ زید کی پیدائش سے قبل میں جب امید سے تھی تو میں میرے ذہن میں غلاف کعبہ کی تیاری کا خیال پیدا ہوا۔ میں نے عربوں سے سن رکھا تھا کہ غلاف کعبہ کی تیاری بہت بڑے اعزاز اور شرف کا کام ہے۔

قبیلہ قریش کے عمربن الحکم کا کہنا ہے کہ میری ماں نے آنحضور کی ھجرت مدینہ سے قبل خانہ ایک اونٹنی کی نذر مانی۔ یہ قربانی بیت اللہ کے اندر دی گئی تھی تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا۔

اسلام سے قبل غلاف کعبہ تیارکرنے والی خواتین میں ایک نام نتیلہ بنت جناب ام عباس بن عبدالمطلب کا بھی ملتا ہے۔ انہوں نے ریشم سے غلاف کعبہ کی متعدد اقسام تیار کیں۔

تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ عباس بن عبدالمطب چھوٹی عمر میں گم ہوگئے تو اس کی ماں نے یہ نذرمانی کہ اگر اس کا بیٹا مل گیا تو وہ غلاف کعبہ تیار کرے گی۔ پھر وہ مل گئے تو غلاف کعبہ بنانے کی نذر پوری کی گئی۔

نتیلہ آخری خاتون تھیں جنہوں نے قریبا 1500 سال قبل غلاف کعبہ تیار کیا۔ اس کے بعد یہ شرف اہل قریش کے پاس ہی رہا اور کسی اور خاتون کا غلاف کعبہ کی تیاری میں‌ کوئی کردار نہیں ملتا۔(بشکریہ العربیہ)

Exit mobile version