سرینگر// جنگجو تنظیم لشکر طیبہ نے رواں برس کے دوران ”بھارت کی اکھنڈتا کو ختم کرنے“کی دھمکی دیتے ہوئے اپنے حملے تیز کرنے کا اشارہ دیا ہے۔لشکر نے وادی کشمیر میں آئے دنوں کئی کئی جنگجووں کے مارے جانے پر سرکاری فورسز کو جشن نہ منانے کیلئے کہتے ہوئے انہیں ”آنے والے وقت کیلئے آنسو بچائے رکھنے“کی صلاح دی ہے۔
یہ بیان ایسے میں آیا ہے کہ جب افغانستان میں امریکی افواج کا انخلاءہورہا ہے اور لشکر کی برادر تنظیم طالبان کے جنگجو ”فارغ“ہونے والے ہیں جنکے بارے میں سکیورٹی کے کئی ماہرین پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کرچکے ہیں کہ انکا اگلا مورچہ کشمیر ہوسکتا ہے۔
جنوبی کشمیر کے کولگام میں ایک اور اسکالر سمیت حزب المجاہدین کے پانچ جنگجووں کے مارے جانے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد لشکر طیبہ نے سرینگر میں خبررساں ایجنسیوں کو ایک بیان بھیجا ہے جس میں تنظیم نے مارے گئے ان جنگجووں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے حملوں میں تیزی لانے کا اشارہ دیا ہے۔خبررساں ایجنسیوں کے مطابق لشکر کے چیف کمانڈر محمود شاہ نے کہا ہے”شہدا ءنے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ایک تاریخ رقم کردی ہے اور آنے والے مورخ لکھیں گے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مجاہدین نے اپنے عوام کے ساتھ ملکرپروان چڑھایا“ ۔انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر نوجوانوں نے ”بھارتی دہشتگردی“ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے اور کم وسائل کے باوجود اپنے سے کئی گناہ بڑے” دشمن “کا ڈٹ کرمقابلہ کیا ۔
”شہدا ءنے اپنی جانوں کی قربانی دے کر ایک تاریخ رقم کردی ہے اور آنے والے مورخ لکھیں گے کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مجاہدین نے اپنے عوام کے ساتھ ملکرپروان چڑھایا“ ۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے”بھارت آج ہمارے جوانوں کی شہادتوں پر زیادہ خوش نہ ہو آنے والے وقت کے لیے آنسو سنبھال کررکھے کیونکہ ان(مارے جارہے جنگجووں) کا بدلہ لینے کے لیے ہم موجود ہیں ۔بھارت کی اکھنڈتا کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ۔سال 2019کشمیر کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوگا “۔حالانکہ محمود شاہ نے تنظیم کے کسی منصوبے کا کوئی ذخر تو نہیں کیا ہے تاہم انکے یہ کہنے،کہ رواں سال ”فیصلہ کن“ثابت ہونے والا ہے، یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ لشکر اگلے دنوں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانے کی سوچ رہی ہے۔یہ بیان ایسے میں آیا ہے کہ جب افغانستان میں امریکی افواج کا انخلاءہورہا ہے اور لشکر کی برادر تنظیم طالبان کے جنگجو ”فارغ“ہونے والے ہیں جنکے بارے میں سکیورٹی کے کئی ماہرین پہلے ہی یہ خدشات ظاہر کرچکے ہیں کہ انکا اگلا مورچہ کشمیر ہوسکتا ہے۔