سرینگر// جموں کشمیر کی گورنر انتظامیہ نے عرصہ سے چلتی رہیں افواہوں کے بعد آج با الآخر لداخ کو باضابطہ ایک صوبے کا درجہ دیا جو ابھی تک کشمیر صوبے کا ایک حصہ تھا۔لداخ کے صوبہ بن جانے کے بعد ریاست کے کل تین صوبے ہونگے جبکہ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ انکی پارٹی نیشنل کانفرنس اقتدار میں آئی تو جموں صوبہ کے پیر پنچال اور وادی چناب کے خطوں کے لئے دو الگ صوبے بنائے جائیں گے۔مسلم اکثریت والے ان دونوں صوبوں کے لوگ برسوں سے الگ انتظامی صوبوں کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں تاہم لداخ کے برعکس انکے مطالبات کو سرکار نے قابل غور نہیں سمجھا ہے۔
گورنر انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ لیہ اور کرگلاضلاع پر مشتمل لداخ کو الگ انتظامیہ/مالیاتی صوبہ قرار دیا گیا ہے جسکا ہیڈکوارٹر لیہ میں ہوگا۔اسی حکمنامہ میں نئے صوبے کیلئے ڈویژنل کمشنر اور انسپکٹر جنرل آف پولس(آئی جی پی )کی اسامیاں نکالی گئی ہیں جبکہ محکمہ منصوبہ بندی کے پرنسپل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دیکر اسکے ذمہ نئے صوبہ کیلئے درکار افسروں اور اہلکاروں کی اسامیوں کے علاوہ نئے دفاتر کیلئے موذوں جگہوں کا انتخاب رکھا گیا ہے۔سرکاری حکمنامہ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ لداخ خطہ کے لوگوں کی ترقی اور بہتر انتظامیہ کی خواہشات کو پورا کرنے میں مدد گار ہوگا کیونکہ یہاں کی کئی تنظیموں کی جانب سے ایسا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔واضح رہے کہ جموں کشمیر کے ابھی تک ،جموں اور کشمیر،کے دو صوبے تھے جبکہ لداخ کشمیر صوبے کا ایک حصہ تھا جسکا ہیڈکوارٹڑ سرینگر میں ہے۔
ہِل کونسل بنائے جانے کے وقت مبصرین نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ لداخ کو جموں کشمیر سے علیٰحدہ کرکے مرکز کے ساتھ جوڑدینے کے ایک وسیع منصوبے کا پہلا پڑاو ہوسکتا ہے اور اس طرح کے خدشات رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ لداخ کو صوبے کا درجہ دینا اسی ”خفیہ منصوبے“کا دوسرا پڑاو ہو سکتا ہے۔
لداخ کا خطہ اپنی جغرافیہ کے اعتبار سے ایک منفرد علاقہ ہے کہ اسکا بیشتر حصہ سطح سمندر سے 9,800فٹ بلندی پر واقع ہے۔اس خطہ میں سرکار نے پہلے ہی لداخ”ہِل ڈیولوپمنٹ کونسل“کے نام سے ایک اعلیٰ اختیار والا ادارہ قائم ہوا ہے جسکے لئے باضابطہ چیرمین اور کونسلروں کے انتخابات ہوتے ہیں۔اس ادارے کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے لداخ پہلے ہی گویا جموں کشمیر سرکار کی بجائے اسی کونسل کے براہ راست اختیار میں آگیا تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اسکی کئی ہم خیال پارٹیاں عرصہ سے لداخ کو جموں کشمیر سے الگ کرکے اسے” یونین ٹیریٹی“بنوانے کیلئے پرتول رہی ہیں۔ہِل کونسل بنائے جانے کے وقت مبصرین نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ لداخ کو جموں کشمیر سے علیٰحدہ کرکے مرکز کے ساتھ جوڑدینے کے ایک وسیع منصوبے کا پہلا پڑاو ہوسکتا ہے اور اس طرح کے خدشات رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ لداخ کو صوبے کا درجہ دینا اسی ”خفیہ منصوبے“کا دوسرا پڑاو ہو سکتا ہے۔
حالانکہ لداخ کی مخصوص جغرافیہ اور اسکے سال کے تقریباََ نصف مہینوں کیلئے برفباری کی وجہ سے باقی ریاست کے ساتھ کٹے رہنے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا تھا تاہم ہِل ڈیولوپمنٹ کونسل کے قیام کے بعد یہاں کیلئے الگ صوبے کا قیام کسی فوری توجہ کا متقاضی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ جموں صوبہ کے مسلم اکثریتی علاقہ جات،پیر پنچال اور چناب ویلی،کے لوگوں کا مطالبہ اس سے کہیں زیادہ توجہ چاہتا تھا۔واضح رہے کہ یہ دونوں علاقے بھی اپنی جغرافیہ اور دیگر کئی وجوہات کیلئے آج بھی مقابلتاََ پچھڑے ہوئے ہیں اور پہاڑوں پر یا پہاڑوں سے گھیرے ہونے کی وجہ سے یہاں بہتر انتظامیہ اور ترقی کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ان حالات میں ان دونوں علاقوں کے لوگوں کی جانب سے الگ انتظامی صوبوں کے قیام کا مطالبہ بے جا نہیں تھا تاہم سرکار کی نظرکرم ان پر نہیں جاسکی۔
جموں صوبہ کے مسلم اکثریتی علاقہ جات،پیر پنچال اور چناب ویلی،کے لوگوں کا مطالبہ اس سے کہیں زیادہ توجہ چاہتا تھا۔واضح رہے کہ یہ دونوں علاقے بھی اپنی جغرافیہ اور دیگر کئی وجوہات کیلئے آج بھی مقابلتاََ پچھڑے ہوئے ہیں اور پہاڑوں پر یا پہاڑوں سے گھیرے ہونے کی وجہ سے یہاں بہتر انتظامیہ اور ترقی کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ان حالات میں ان دونوں علاقوں کے لوگوں کی جانب سے الگ انتظامی صوبوں کے قیام کا مطالبہ بے جا نہیں تھا تاہم سرکار کی نظرکرم ان پر نہیں جاسکی۔
لداخ کو الگ صوبے کا درجہ دئے جانے کی افواہیں عرصہ سے گشت میں تھیں یہاں تک کہ سابق حکمران جماعت پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے گورنر انتظامیہ نے اس طرح کے فیصلوں کو منتخبہ سرکار پر ڈالنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر گورنر انتظامیہ کو اتنی ہی عجلت ہے تو پھر چناب ویلی اور پیر پنچال کیلئے بھی الگ صوبوں کے قیام کا اعلان کیا جانا چاہیئے تاہم گورنر ستپال ملک نے اس مشورے کو در خور اعتنا نہیں سمجھا ہے۔تاہم لداخ کے حوالے سے سرکار کے فیصؒے کے سامنے آٹے ہی سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے ٹویٹر پر آکر ”وعدہ کرتے ہوئے“کہا کہ انکی پارٹی کو اقتدار ملا تو وہ پیر پنچال اور چناب ویلی کیلئے بھی الگ صوبوں کا قیام عمل میں لائیں گے۔یاد رہے کہ بھاجپا کے گذشتہ سال محبوبہ مفتی کی سرکار سے حمایت واپس لئے جانے کے بعد ریاست میں پہلے چھ ماہ کیلئے گورنر راج اور اسکے بعد صدر راج نافذ ہوا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔گورنر نے ریاستی اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے اور اگلے دو ایک مہینوں میں نئے انتخابات متوقع بتائے جا رہے ہیں۔