پلاسٹک بُلٹ….قیام امن کیلئے متبادل ہتھیاروں کی نہیں مسئلہ کے حل کی ضرورت ہے

سرینگر// جموں کشمیر میں ”بھیڑ کو قابو کرنے کیلئے“استعمال کئے جارہے متنازعہ پیلٹ گن کے متبادل کے بطور وزارت دفاع کی جانب سے پلاسٹک کی گولیوں کی تیاری کو جہاں ”خیرسگالی“کا اقدام بتانے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں کشمیر میں اسے افسوسناک قراردیا جارہا ہے۔کشمیریوں کا کہنا ہے کہ تشدد کی بنیاد،مسئلہ کشمیر،پر توجہ کرنے کی بجائے نئے ہتھیار بنانا اور انہیں کشمیر میں آزمانا انتہائی افسوسناک ہے اور مرکزی سرکار کی ضد اور ہٹ دھرمی کی تازہ مثال۔لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ”خیرسگالی“کی بجائے مسئلہ کشمیر کے حل کی ٹھوس کوششیں کرکے تشدد کی جڑ اکھاڑنے کی کوشش کی جانی چاہیئے تھی لیکن اسکے برعکس طاقت کی پالیسی پر کاربند رہنا سرکار کے غرورکی جانب اشارہ کرتا ہے۔

لیبارٹری کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ پلاسٹک گولی پیلٹ سے پانچ سو درجہ کم مہلک ہے اور یہ گولی اپنے شکار کی جلد میں فقط بیس ملی میٹر تک گھس سکتی ہے جس سے فقط چند قطرہ خون نکلنے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

وزارت دفاع کے تحت ہائی پروفائل ”ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولوپمنٹ آرگنائزیشن“(ڈی آر ڈی او)نے پیلٹ گن کے متبادل کے بطور پلاسٹک کی گولی تیار کی ہے جو ”غیر مہلک“بتائی جاتی ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جہاں یہ نیا ہتھیار بھیڑ کو قابو کرنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوسکتا ہے وہیں اسکی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس سے کسی کی جان نہیں جائے گی بلکہ نشانہ بننے والا ”معمولی زخمی“ہوجائے گا۔لیبارٹری کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ پلاسٹک گولی پیلٹ سے پانچ سو درجہ کم مہلک ہے اور یہ گولی اپنے شکار کی جلد میں فقط بیس ملی میٹر تک گھس سکتی ہے جس سے فقط چند قطرہ خون نکلنے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ گولی چلانے کیلئے کسی نئے ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے پہلے سے سرکاری فورسز کے زیر استعمال AK47اورAK56رائفلوں سے فائر کیا جاسکے گا۔بتایا جاتا ہے کہ لیبارٹری نے ابتدائی طور ایک ہزار گولیاں تیار کی ہیں جنہیں سی آر پی ایف کے وادی¿ کشمیر میں قائم تربیتی مراکز میں آزمایا اور کار آمد پایا گیا ہے۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کامیاب آزمائش کے بعد ایک لاکھ گولیوں کی تیاری کا کام شروع کیا گیا ہے اور سی آر پی ایف کو پہلی کھیپ کے تحت پلاسٹک کی دس ہزار گولیاں سپلائی کی جاچکی ہیں۔

پیلٹ گن کا شکار ہوئے ایک بچے کی فائل فوٹو

حالانکہ ڈی آر ڈی او کی نئی ایجاد کو کشمیریوں کیلئے ”خیرسگالی“کے ایک اقدام کے بطور پیش کیا جارہا ہے تاہم خود کشمیریوں نے اسے انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔چناچہ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سے کشمیر میں اس حوالے سے سماجی رابطے پر خوب بحثیں ہورہی ہیں اور لوگ ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔ایک شخص نے فیس بُک پر لکھاہے”ان(مرکزی سرکار)کیلئے ہماری حیثیت لیبارٹری کے چوہوں سے زیادہ نہیں ہے،وہ لوگ نئے نئے ہتھیار بناکر انہیں ہم پر آزماتے ہیں“۔ایک اور شخص نے طنزیہ انداز میں لکھا ہے”کون کہتا ہے کہ ہم کم اہم ہیں،کیا نئے ہتھیاروں کی آزمائش اور انکا مزہ چکھانے کیلئے ہمارا ترجیحی بنیادوں پر انتخاب نہیں کیا جاتا ہے“۔

انسانی حقوق کی تنظیم جموں کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس)کے کارڈی نیٹر نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوششوں کی بجائے نئے نئے ہتھیار بنانے اور انہیں کشمیر میں آزمانے کو انتہائی بدقسمتی کی بات قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ 2010میں بھی مرکزی سرکار نے یہ کہکر پیلٹ گن کو متعارف کرایا تھا کہ یہ ”غیر مہلک“ہتھیار ہے لیکن یہ بات اب کوئی راز نہیں ہے کہ پیلٹ گن سے نہ صرف لوگ جان سے گئے ہیں بلکہ اس سے ہزاروں لوگ شدید زخمی ہوچکے ہیں جن میں سے سینکڑوں کی آنکھیں کلی یا جزوی طور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ضائع ہوچکی ہیں۔کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسکالر نے بھی کچھ اسی طرح کا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی جڑ بنے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ایڈرس کرنے کی بجائے نئے ہتھیاروں سے حالات کو قابو کرنا نادانی بھی ہے،بد قسمتی بھی اور افسوسناک بھی۔انہوں نے کہا کہ طاقت کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرنے سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ نئی دلی کو متعلقین کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات شروع کرنے چاہیئے تھے جو صورتحال کو بہتر کرنے کا واحد ذرئعہ ہوسکتا ہے۔

 2010کی عوامی ایجی ٹیشن میں زائد از ایک سو لوگوں،جن میں بچوں کی خاصی تعداد شامل تھی،کے گولیوں کا شکار ہوکر مارے جانے کے بعد مرکزی سرکار نے ایک ”راحت“کے بطور پیلٹ گن متعارف کرائی تھی تاہم اس سے نہ صرف لوگ انتہائی حد تک زخمی ہوئے یا مارے گئے بلکہ اس ہتھیار کے ایک ساتھ سینکڑوں چھرے پھینکنے کی وجہ سے اسکا شکار ہوکر سینکڑوں لوگ ہمیشہ کیلئے اندھے ہوچکے ہیں

جیسا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں 2010کی عوامی ایجی ٹیشن میں زائد از ایک سو لوگوں،جن میں بچوں کی خاصی تعداد شامل تھی،کے گولیوں کا شکار ہوکر مارے جانے کے بعد مرکزی سرکار نے ایک ”راحت“کے بطور پیلٹ گن متعارف کرائی تھی تاہم اس سے نہ صرف لوگ انتہائی حد تک زخمی ہوئے یا مارے گئے بلکہ اس ہتھیار کے ایک ساتھ سینکڑوں چھرے پھینکنے کی وجہ سے اسکا شکار ہوکر سینکڑوں لوگ ہمیشہ کیلئے اندھے ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے حکومت ہند کو عالمی سطح پر زبردست بدنامی اٹھانا پڑی ہے۔پیلٹ گن کا تازہ شکار حبا نامی اٹھارہ ماہ کی بچی ہے جنکی ایک آنکھ ضائع ہوچکی ہے جبکہ بنیادی طور حیوانوں کو نشانہ بنانے کیلئے مخصوص اس ہتھیار کا شکار ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہوں نے اپنی ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے تاکہ وہ اپنی حالتِ زار کی طرف توجہ دلا سکیں۔

Exit mobile version