….جب ایک سکھ نوجوان نے سر کی پگڑی کو انسانیت کا دستار کردیا!

سرینگر// اسوقت جب جموں کشمیر سے باہر اقلیتوں کی حالت زار انسانیت کو شرمسار کئے ہوئے ہے،وادی میں انسانی اقدار کے باقی ہونے کا ایک تازہ واقعہ پیش آیا ہے۔یہ واقعہ جنوبی کشمیر میں قصبہ اونتی پورہ کا ہے کہ جہاں ایک سکھ نوجوان نے اپنے سر کی پگڑی کھول کر اسے انسانیت کے سر کا دستار بنادیا۔

منجیت سنگھ محض 20سال کے ہیں لیکن جس طرح انہوں نے سر راہ زخمی حالت میں پڑی ایک مسلمان خاتون کو بچانے کیلئے اپنے سر کی پگڑی کھولی اسکے لئے انہیں بڑے بڑوں کی جانب سے بھی واہ واہی مل رہی ہے۔منجیت سنگھ تب کسی کام سے ،بلکہ ایک زخمی خاتون کی اچھی قسمت سے،اونتی پورہ میں تھے کہ جب انہوں نے انسان دوستی کا اعلیٰ مظاہرہ کرکے وادی کشمیر میں اکثریت اور اقلیت کے روایتی بھائی چارہ کی لاج رکھی۔

45سال کی ایک مسلمان خاتون کو اونتہ پورہ میں ایک تیز رفتار ٹرک نے ٹکر ماری تھی اور انہیں خون میں لت پت چھوڑ کر خود فرار ہوگیا تھا۔ظاہر ہے کہ ایک خاتون کو بر لبِ سڑک خون میں لت پت کراہتے دیکھ کر یہاں لوگ جمع ہوگئے تاہم کسی نے بھی تماشہ بین بننے کی بجائے مذکورہ خاتون کا مسیحا بننے کی کوشش نہیں کی۔اس دوران منجیت سنگھ نامی ایک خوبرو سکھ نوجوان بھی یہاں پہنچ گئے اور انہوں نے جونہی خون میں لت پت خاتون کو کراہتے ہوئے دیکھا تو انسے رہا نہ گیا….وہ آگے بڑھے اور زخمی کی مدد کرنے لگے۔مذکورہ کی زخمی ٹانگ سے کافی خون بہتے دیکھ کر انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے سرکی پگڑی کھول دی اور اسی پٹی بناکرایک انجان خاتون کا زخم باندھ دیا جس سے خون رک گیا اور بصورت دیگر خطرے میں پڑنے والی خاتون کی جان بچ گئی۔

منجیت سنگھ تب کسی کام سے ،بلکہ ایک زخمی خاتون کی اچھی قسمت سے،اونتی پورہ میں تھے کہ جب انہوں نے انسان دوستی کا اعلیٰ مظاہرہ کرکے وادی کشمیر میں اکثریت اور اقلیت کے روایتی بھائی چارہ کی لاج رکھی

حالانکہ سکھ مذہب میں پگڑی کی بڑی اہمیت ہے اور سکھوں کیلئے اسے یوں سر راہ کھولنا آسان نہیں ہے لیکن منجیت کو ایک بے بس انسان کی جان بچانا ہی سب سے بڑا مذہب معلوم ہوا اور انہوں نے ادھر ادھر کی سوچے بغیر اپنی پگڑی کو انسانیت کا دستار کرلیا۔جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں”میں نے انہیں خون میں لت پت سڑک کنارے پڑے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا،میں نے پگڑی اتار کر انکی پٹی کردی جس سے انکا خون رک گیا“۔انہیں اس بات پر کوئی بہت زیادہ فخر بھی نہیں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں ”میں نے وہی کیا جو کسی بھی انسان کو کرنا چاہیئے تھا،میری جگہ کوئی اور انسان دوست شخص ہوتا تو وہ بھی ایسا ہی کرتا“۔

منجیت سنگھ ترال کے معروف گاوں دیور کے باشندہ ہیں اور وہ خود بھی حالات اور قسمت کے ستائے ہوئے ہیں۔سال بھر قبل منجیت کے والدکرنیل سنگھ،جو ذرعی یونیورسٹی میں 25سال سال ڈیلی ویجر کے بطور کام کرتے تھے،کا انتقال ہوا اور منجیت پر اپنی ناتواں ماں اور بہن کا بوجھ آپڑا۔یونیورسٹی حکام اس حد تک ”مہربان“ثانت ہوئے کہ انہوں نے اپنے یہاں 25سال کی عارضی نوکری کرنے والے کرنیل سنگھ کے بیٹے کو باپ کی جگہ رکھ لیا تاہم یہ ایک عارضی نوکری ہے۔حالانکہ انہیں انکے والد کی خدمات کے عوض مستقل نوکری دئے جانے کا وعدہ ضرور دیا گیا ہے لیکن اسے ابھی پورا نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ ریاست میں ہزاروں ڈیلی ویجروں کے ساتھ برسوں سے ہوتا آرہا ہے۔منجیت کہتے ہیں کہ عارضی نوکری سے ملنے والے تھوڑے سے مشاہرے پر انکے گھر کا گذارہ نہیں ہوپاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انکی نوکری مستقل ہوجائے تو انکے لئے گھر چلانا آسان ہوجاتا….کیا پتہ اپنے والد کی طرح انہیں اس خواب کی تعبیر دیکھنے کیلئے کتنی عمر درکار ہوگی….!!!

Exit mobile version