سرینگر// پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی طرفسے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حمایت سے حکومت سازی کا دعویٰ پیش کئے جانے کے فوری بعد گورنر ستیا پال ملک نے جموں کشمیر اسمبلی کو تحلیل کرکے بھاجپا کے مقاصد کا تحفظ کرنا چاہا ہے لیکن ”جانے انجانے“ میںانہوں نے،بصورت دیگر دم توڑتی ،پی ڈی پی کو نئی زندگی دیدی۔مرکزی سرکار کی مرضی کے اس فیصلے سے دوسری جانب پہلے ہی سے جمہوریت پر سے اعتماد کھو چکی ریاست میں جمہوریت مزید داغدار ہوگئی ہے۔
محبوبہ مفتی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کا اعلان کرکے نہ صرف بھاجپا کو حکومت بنانے کا ”جگاڑ“کرنے سے روکا بلکہ دل بدلی پر آمادہ اپنے ممبران کے پیروں میں بھی بھیڑیاں لگائیں۔
بھاجپا کی جانب سے جون میں اچانک ہی محبوبہ مفتی کی سرکار سے حمایت واپس لئے جانے کے بعد سے جموں کشمیر اسمبلی معطل تھی اور ریاست میں گورنر راج جاری ہے۔پی ڈی پی کے اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ہی پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئی تھی اور اسکے کئی ممبران حکومت بنانے والے کسی بھی شخص کے پیچھے پیچھے جانے پر آمادہ دکھائی دے رہے تھے۔چناچہ بھاجپا کے حامی پیوپلز کانفرنس کے سجاد لون کچھ عرصہ سے بڑے متحرک تھے اور وہ پی ڈی پی کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس میں بھی سیندھ لگانے کے اشارے دے رہے تھے ۔اس صورتحال نے دونوں حریف پارٹیوں کو ایک ہونے پر مجبور کردیا اور پھر کانگریس بھی انکے ساتھ ہوگئی یہاں تک کہ ایک ٹیلی ویژن چینل نے انکشاف کیا کہ تینوں پارٹیوں نے گرینڈ ایلائنس بناکر حکومت سازی کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔اس انکشاف کا سامنے آنا تھا کہ ریاست میں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئیں اور بدھ کے روز پی ڈی پی لیڈر اور سابق وزیر الطاف بخاری نے باضابطہ اعلان کیا کہ گرینڈ ایلائنس ایک حقیقت ہے اور اسکی جانب سے جلد ہی حکومت سازی کا دعویٰ پیش کیا جائے گا۔بدھ کی شام کو برق رفتاری سے کئی سیاسی سرگرمیاں ہوتے دیکھی گئیں کہ ایک طرف محبوبہ مفتی نے 56ممبران کی حمایت حاصل ہونے کے دعویٰ کے ساتھ گورنر سے انہیں حکومت سازی کیلئے تیار ہونے کی اطلاع دی تو دوسری جانب سجاد لون نے بھی بھاجپا اور ”دیگر ممبران“کی حمایت کے بل پر حکومت سازی کا دعویٰ پیش کیا۔صورتحال تب دلچسپ ہوگئی کہ جب محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کرکے بتایا کہ راج بھون میں انکا فیکس ریسیو نہیں کیا جارہا ہے۔اسکے ساتھ ہی سجاد لون کا گورنر کے نام خط بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جبکہ گورنر نے اچانک ہی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔
یوں محبوبہ مفتی اس سارے کھیل کی مرد میدان ثابت ہوگئیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے بے وفا ممبران کو ساتھ رکھنے میں کامیابی پائی بلکہ نیشنل کانفرنس جیسی حریف پارٹی کا سہارا بھی پایا جسکے لئے آئیندہ انتخابات میں پی ڈی پی کے خلاف کھل کر بولنا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔
گورنر نے بظاہر پی ڈی پی کو حکومت بنانے سے روکا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انکے اس اقدام سے پی ڈی پی کے ساتھ ساتھ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ممبران کی دغابازی کے راستے بھی بند ہوگئے اور پی ڈی پی کو یکجا رہنے کا موقعہ مل گیا۔واضح رہے کہ اس سیاسی ڈرامہ سے فقط ایک دن قبل پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مظفر بیگ نے ”سجاد لون کی قیادت میں بننے جارہے تھرڈ فرنٹ“کے ساتھ جاملنے کی کھلے عام خواہش ظاہر کی تھی جبکہ سجاد لون نے انکا خیر مقدم کیا تھا۔اندازہ تھا کہ سجاد لون کا وزیر اعلیٰ بننا تقریباََ طے ہے اور پی ڈی پی کے بیشتر ممبران دل بدلی کا دل بنا ہی چکے ہیں۔تاہم محبوبہ مفتی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کا اعلان کرکے نہ صرف بھاجپا کو حکومت بنانے کا ”جگاڑ“کرنے سے روکا بلکہ دل بدلی پر آمادہ اپنے ممبران کے پیروں میں بھی بھیڑیاں لگائیں۔یوں محبوبہ مفتی اس سارے کھیل کی مرد میدان ثابت ہوگئیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے بے وفا ممبران کو ساتھ رکھنے میں کامیابی پائی بلکہ نیشنل کانفرنس جیسی حریف پارٹی کا سہارا بھی پایا جسکے لئے آئیندہ انتخابات میں پی ڈی پی کے خلاف کھل کر بولنا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔گورنر کے فیصلے سے نیشنل کانفرنس کو بھی تالی بجانے کا موقعہ ملا ہے کہ پی ڈی پی کے ”گناہوں“کی سزا کے بطور اپنے لئے ووٹوں کی برسات کی امید کرنے والی یہ پارٹی اسمبلی کو تحلیل کرائے جانے کیلئے بڑی تگ و دو کرتی آرہی تھی۔
ایک طرف علاقائی پارٹیوں کیلئے چت بھی میری پٹ بھی میری کا معاملہ ہے تو دوسری جانب ریاست،باالخصوص وادی،میں مرکزی سرکار کے تئیں احساسِ بے گانگی مزید گہرا ہوگیا ہے اور جمہوریت ایک بار پھر داغدار ہوگئی ہے۔گورنر ستپال ملک نے محبوبہ مفتی کی دعویداری کے باوجود بھی انہیں حکومت سازی کی دعوت دئے بغیر ”بازارو طریقے پر“ اسمبلی کو تحلیل کرکے اس بات پر کشمیریوں کا یقین مزید پختہ کیا ہے کہ ریاست میں جمہوریت کے کچھ اور ہی معنیٰ ہیں اور ،بقولِ انجینئر رشید کے،جموں کشمیر میں ”کنٹرولڈ ڈیموکریسی“ہے۔سوشل میڈیا پر لوگ،باالخصوص نوجوان،ان سیاسی سرگرمیوں کو ”جمہوریت کا ایک اور خون“بتاتے ہوئے ریاست میں انتخابی سیاست کو بے اعتبار اور بے معنیٰ قرار دے رہے ہیں۔