سرینگر// جموں کشمیر میں مزاحمتی تحریک کے بزرگ قائد سید علی شاہ گیلانی کے قریبی اور تحریکِ حریت کے ضلع صدر اننت ناگ میر حفیظ اللہ کو فون پر دھمکیاں ملنے اور انکے گھر کے آس پاس مشکوک حرکات محسوس کئے جانے کے چند ہی دن بعد آج دن دھاڑے گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔ایک معروف مزاحمتی کارکن میر نے انہیں دھمکیاں ملنے کے حوالے سے اپنی تنظیم تحریکِ حریت کے ساتھ ساتھ متعلقہ پولس کو بھی مطلع کیا ہوا تھا تاہم انہیں کوئی تحفظ نہیں مل سکا اور پانچ معصوم بچوں کے والد کو آج اپنے گھر کے باہر مار ڈالا گیا۔مزاحمتی قیادت نے اس واقعہ کیلئے ”سرکاری بندوق برداروں“جبکہ پولس نے جنگجووں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اسلام آباد ضلع کی تحصیل اچھ بل کے ایک گاوں بڈرو کے رہائشی حفیظ اللہ میر آج صبح برلب سڑک واقع اپنے گھر کے باہر کھڑا تھے کہ ایک کار انکے قریب آکر رکی اور اس میں سوار نا معلوم افراد نے ان پر اندھادند فائرنگ کی جس سے وہ خون میں لت پت ہو کر گر گئے۔عینی شاہدین کے مطابق میر کی زوجہ نے اپنے شوہر پر فائرنگ ہوتے دیکھی اور وہ دوڑتے ہوئے ان پر گر گئیں یہاں تک کہ میر کے جسم سے پھواروں کی طرح پھوٹے خون نے انہیں بھی لت پت کردیااور پھر پڑوسیوں کو یہ شک گذرا کہ دونوں میاں بیوی پر فائرنگ ہوئی ہے۔چناچہ بعخ خبررساں اداروں نے یہ خبر چلائی بھی کہ میر کی زوجہ بھی شدید زخمی ہوگئی ہیں حالانکہ یہ خبر غلط تھی۔
نوے سال کے گیلانی کو جب میر کے قتل کی خبر دی گئی تو وہ گویا سکتے میں آگئے اور پھر انکی آنکھیں بہنے لگیں۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سید گیلانی نے کچھ دیر کیلئے گہری خاموشی اختیار کی اور پھر انکی ہچکیاں بندھ گئیں۔
حفیظ اللہ میر کو اپنے پڑوسیوں نے فوری طور ضلع اسپتال اسلام آباد پہنچایا تاہم انہیں ڈاکٹروں نے مردہ قرار دیا۔اسلام آباد کے اس سب سے بڑے اسپتال کے میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر مہراب نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ حفیظ اللہ میر کو کئی گولیاں لگی تھیں اور اسپتال پہنچائے جانے تک انکا کافی خون بہہ چکا تھا۔انہوں نے کہا کہ اسپتال پہنچائے جانے پر انہیں مردہ پایا گیا اور انکا کوئی علاج ممکن نہیں ہوسکا۔
حفیظ اللہ میر ایک معروف مزاحمتی کارکن اور ابھی سید علی شاہ گیلانی کی قائم کردہ تحریک حریت کے ضلع صدر تھے۔حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر برہان وانی کے 2016میں مارے جانے پر اٹھی احتجاجی تحریک میں انکا کافی رول دیکھا گیا تھا جسکے بعد وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے مدت تک روپوش ہوگئے تھے تاہم بعدازاں پولس نے انہیں پکڑ کر جیل بھیجدیا تھا۔وہ بعدازاں عدالتی احکامات پر رہا ہوگئے تاہم گذشتہ سال نومبر میں انہیں ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے کے دوران پھر سے گرفتار کیا گیا ۔وہ ابھی محض ایک ماہ قبل رہا ہوکر آئے تھے تاہم انہوں نے انہیں فون پر دھمکیاں ملنے اور انکے گھر کے آس پاس مشکوک حرکات ہوتے دیکھنے کی شکایت کی تھی جسکے بارے میں پولس تک کو مطلع کیا گیا تھا۔چناچہ تحریکِ حرہت نے ابھی چند ہی دن پہلے اس بارے میں ایک اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ میر حفیظ اللہ کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور نا معلوم افراد انکے گھر کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں جبکہ دوران شب انکے گھر کے دروازے اور کھڑکیاں کھٹکھٹائی جاتی ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ اپنی حفاظت کے حوالے سے خدشات کا شکار ہوکر میر حفیظ اللہ نے گھر آنے سے پرہیز کی ہوئی تھی تاہم وہ اپنے بچے کا اسکول میں داخلہ کرانے کی غرض سے سوموار کی رات گھر آگئے تھے۔
وہ اسی کی دہائی میں جماعت اسلامی کی طلباءتنظیم جمیعت الطلباءکے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے اور پھر انہوں نے مختلف مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔انہیں مختلف اوقات پر گرفتار کرکے جیل بھیجا جاتا رہا اور مجموعی طور انہوں نے ابھی تک چودہ سال کی جیل کاٹی ہے۔
پانچ بچوں کے والد،جن میں سے سب سے بڑا بچہ ساتویں جماعت میں ہے،میر حفیظ اللہ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اسی کی دہائی میں جماعت اسلامی کی طلباءتنظیم جمیعت الطلباءکے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے اور پھر انہوں نے مختلف مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔انہیں مختلف اوقات پر گرفتار کرکے جیل بھیجا جاتا رہا اور مجموعی طور انہوں نے ابھی تک چودہ سال کی جیل کاٹی ہے۔وہ سید علی شاہ گیلانی کے قریبی اور انکے بھروسہ مند تصور کئے جاتے تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ قریب نوے سال کے گیلانی کو جب میر کے قتل کی خبر دی گئی تو وہ گویا سکتے میں آگئے اور پھر انکی آنکھیں بہنے لگیں۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سید گیلانی نے کچھ دیر کیلئے گہری خاموشی اختیار کی اور پھر انکی ہچکیاں بندھ گئیں۔انہوں نے بعدازاں میر کے جلوسِ جنازہ میں شامل لوگوں سے ٹیلی فون کے ذرئعہ تقریر کی اور الزام لگایا کہ جس طرح 1994سے لیکر2002تک فوج کے پروردہ بندوق بردار گروہ ،اخوان،نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو مارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا اسی طرح ”بھارت کے مسلح کردہ ہاتھوں نے“نے تحریک حریت کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔واضح رہے کہ تحریک حریت نامی تنظیم سید گیلانی نے جماعت اسلامی کے مشورے سے ہی قائم کی تھی اور اسکے بنیادی کارکن اصل میں جماعت اسلامی کے ہی متاثرین میں سے ہیں۔
حزب المجاہدین کے نامور کمانڈر برہان وانی کے 2016میں مارے جانے پر اٹھی احتجاجی تحریک میں انکا کافی رول دیکھا گیا تھا جسکے بعد وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے مدت تک روپوش ہوگئے تھے تاہم بعدازاں پولس نے انہیں پکڑ کر جیل بھیجدیا تھا۔
پولس نے تاہم اس قتل میں سرکاری اداروں کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور اسکے لئے جنگجووں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ایک بیان میں ایک پولس ترجمان نے کہا کہ میر کو نا معلوم جنگجووں نے گولی مار کر قتل کردیا ہے۔پولس کے مطابق اس واقعہ سے متعلق ایک ایف آئی آر درج کرکے معاملے کی تحقیقات شروع کی گئی ہے۔