’طالبان کی نرسری‘ کے مالی مولانا سمیع الحق کا قتل!

سرینگر// پاکستان کے سرکردہ مذہبی و سیاسی راہنما اور ’’طالبان کی نرسری کے مالی‘‘ مانے جانے والے مولانا سمیع الحق کا انکے گھر میں پُراسرار حالات میں قتل ہوا ہے۔ اس واقع کے بعد پاکستان کے کئی علاقوں میں حالات کشیدہ ہوگئے ہیں یہاں کہ انتظامیہ نے حفاظتی اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے گھروں کے اندر رہنے کی اپیل کی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق مولانا سمیع الحق کو،راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں سفاری ون ولاز میں واقع رہائش گاہ میں، اسوقت قتل کیا گیا کہ جب انکے محافظ پولس اہلکار اور ڈرائیور خلافِ معمول ایک ساتھ گھر سے باہر گئے تھے اور مولانا کو اکیلے چھوڑا گیا تھا۔مولانا سمیع الحق کے پوتے عبدالحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ راولپنڈی میں اپنے مکان میں اکیلے تھے جب کسی نامعلوم شخص نے ان پر چھریوں سے وار کر کے انہیں قتل کر دیا۔

یہ وہی دارالعلوم ہے کہ جہاں ان ہزاروں طلبا نے دینی تعلیم پائی تھی کہ جنہوں نے ’’طالبان‘‘ بن کر افغان جہاد میں حصہ لیا تھا۔ مبصرین کے مطابق مولانا سمیع الحق کے ساتھ طالبان کی ایک طرح سے ’’روحانی وابستگی‘‘ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’وہ اکیلے تھے اور ان کے محافظ اور ڈرائیور مکان سے باہر گئے ہوئے تھے ، جب وہ واپس آئے تو مولانا سمیع الحق خون میں لت پت تھے‘‘۔پولس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو لیکر ایک معاملہ درج کرکے تحقیقات شروع کی گئی ہے جبکہ مولانا کے محافظ دستے اور ڈرائیور کو بھی شاملِ تفتیش کیا گیا ہے اور انسے یہ پوچھا جارہا ہے کہ وہ خلافِ معمول ایک ہی وقت گھر سے باہر کیوں گئے تھے اور مولانا کو اکیلے کیوں چھوڑا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ محافظ اور ڈرائیور کے باہر جانے کے بعد حملہ آور دیوار پھلاند کر مکان میں داخل ہوا ہےاور گولی مارنے سے قبل مولانا سمیع الحق پر چھری سے وار کیا گیا ہے۔ پولس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مولانا کو اس سے قبل بھی دھمکیاں ملتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں ان کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کیلئے کہا گیا تھا۔

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں جبکہ انتظامیہ نے حالات کے کشیدہ ہونے کے خدشات کے پیشِ نظر حفاظت اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے شہریوں سے غیر ضروری طور گھروں سے باہر نہ نکلنے کی بھی اپیل کی ہے۔

’’وہ اکیلے تھے اور ان کے محافظ اور ڈرائیور مکان سے باہر گئے ہوئے تھے ، جب وہ واپس آئے تو مولانا سمیع الحق خون میں لت پت تھے‘‘۔

80 برس سے زائد عمر کے مولانا سمیع الحق ایک اہم مذہبی و سیاسی راہنما اور جمیعت علما اسلام کے ایک دھڑے کے سربراہ تھے۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کے ایوانِ بالا کے رکن بھی منتخب ہوئے تھے۔ مولانا سمیع الحق ’’طالبان کی نرسری‘‘ مانے جانے والے دارالعلوم حقانیہ، جسے دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتہ فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانہ جاتا ہے ، کے زائد از تیس سال سے سربراہ تھے۔ یہ وہی دارالعلوم ہے کہ جہاں ان ہزاروں طلبا نے دینی تعلیم پائی تھی کہ جنہوں نے ’’طالبان‘‘ بن کر افغان جہاد میں حصہ لیا تھا۔ مبصرین کے مطابق مولانا سمیع الحق کے ساتھ طالبان کی ایک طرح سے ’’روحانی وابستگی‘‘ رہی ہے۔ خود مولنا سمیع الحق نے ایک بار مولانا سمیع الحق نے طالبان کے بانی مُلا عمر کو اپنے بہترین طالبعلموں میں سے ایک اور ’’فرشتہ نما انسان‘‘ کہا تھا۔

Exit mobile version