سرینگر// جموں کشمیر پولس نے اپنے ایک اہلکار کے ،ابھی تک کی سب سے بڑی،ہتھیاروں کی کھیپ لوٹ کر فرار ہونے کے سنسنی خیز واقعہ کی باضابطہ تحقیقات شروع کرکے سابق حکمران جماعت پی ڈی پی کے نوجوان لیڈر اور ممبر اسمبلی اعجاز میر کی سرکاری رہائش کو سیل کردیا ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ مفرور پولس اہلکار پہلے سے جنگجووں کے ساتھ رابطہ میں رہے ہیں اور اس معاملہ میں کچھ اہم سراغ مل گئے ہیں جبکہ خود ممبر اسمبلی اعجاز میر،جنکی سرکاری رہائش گاہ پر یہ واقعہ پیش آیا ہے،سے بھی پوچھ تاچھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جارہا ہے۔
سرینگر کے پاش اور سکیورٹی کے اعتبار سے حساس،کیونکہ یہاں بیشتر بیروکریٹ اور سیاسی لیڈروں کی سرکاری رہائش ہے،جواہر نگر میں جمعہ کی شام کو اعجاز میر نامی ممبر اسمبلی کے یہاں سے پولس کے آٹھ اور میر کا ایک لائسنس یافتہ ہتھیار غائب اور انکے یہاں تعینات پولس اہلکار کو فرار پائے جانے کے بعد یہ معاملہ پولس کی نوٹس میں لایا گیا تھا۔ایک پولس ترجمان کے مطابق جمعہ کی شام ساڑھے چھ بجے کے قریب جنوبی کشمیر کے حلقہ انتخاب وچی کے ممبر اسمبلی اعجاز میر کے ایک سکیورٹی افسر نے پولس تھانہ راجباغ میں یہ رپورٹ درج کرائی کہ میر کی سرکاری رہائش گاہ،کوارٹر نمبرJ-11سے سات اے کے 56رائفلیں اور ممبر اسمبلی کا ذاتی پستول غائب ہے اور عادل بشیر نامی اسپیشل پولس اہلکار(ایس پی او)فرار ہےں۔واضح رہے کہ جموں کشمیر پولس نے گذشتہ برسوں کے دوران جنگجو مخالف آپریشن کیلئے قریب تیس ہزار عارضی اہلکار بھرتی کئے ہیں جو ایس پی او کہلاتے ہیں اور ماہانہ چھ ہزار روپے کے مشاہرے پر کام کرتے ہیں۔ان میں سے سینکڑوں اہلکار پولس افسروں اور سیاسی لیڈروں کے یہاں گھریلو نوکروں کا کام کرتے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ عادل بشیر اعجاز میر کی سرکاری رہائش گاہ پر باورچی کا کام کرتے تھے اور یہاں کی صفائی ستھرائی بھی انہی کے ذمہ تھی۔
مذکورہ سیاسی لیڈر کو پوچھ تاچھ میں شامل کئے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں دلباغ سنگھ نے کہا کہ اگرچہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ ”نہیں کہہ سکتے ہیں“تاہم تحقیقات جاری ہے اور ضرورت پڑنے پر”کسی سے بھی“پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے۔
پولس نے ایف آئی آر نمبر57/18درج کرکے تحقیقات شروع کی ہے تاہم اسکا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ مفرور اہلکار ایک ساتھ سارے ہتھیار ہتھیا لے کر گئے ہیں یا انہوں نے ایک ایک کرکے کئی دنوں میں یہ سنسنی خیز کام انجام دیا ہے۔البتہ جموں کشمیر پولس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے آج شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں ایک تقریب کے حاشیئے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ پولس کو کئی سراغ ملے ہیں جن پر کام جاری ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ اس واقعہ کے چند ہی گھنٹوں کے بعد سوشل میڈیا پر مذکورہ ایس پی او اور لوٹے گئے ہتھیار کی تصاویر وائرل ہوگئیں اور دعویٰ سامنے آیا کہ مذکورہ نے جنگجووں کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی ہے۔پولس کے مطابق ان تصاویر کے اصلی ہونے کی تصدیق کی جارہی ہے تاہم ڈائریکٹر جنرل پولس نے کہا کہ مفرور پولس اہلکار پہلے سے جنگجووں کے رابطے میں رہے ہیں۔انہوں نے البتہ تسلیم کیا کہ یہ معاملہ ممبر اسمبلی کی رہائش گاہ کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے جسکے لئے انکے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا ہے مذکورہ ممبر اسمبلی وہاں موجود نہیں تھے بلکہ وہ گذشتہ 12دن سے ریاست کی سرمائی راجدھانی جموں میں مقیم ہیں۔مذکورہ سیاسی لیڈر کو پوچھ تاچھ میں شامل کئے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں دلباغ سنگھ نے کہا کہ اگرچہ وہ ابھی اس بارے میں کچھ ”نہیں کہہ سکتے ہیں“تاہم تحقیقات جاری ہے اور ضرورت پڑنے پر”کسی سے بھی“پوچھ تاچھ کی جاسکتی ہے۔
حالانکہ وادی کشمیر میں کسی پولس اہلکار کے ہتھیار لیکر فرار اور پھر جنگجووں کے ساتھ جاملنے کا یہ پہلا واقعہ تو نہیں ہے تاہم یہ پہلی بار ضرور ہے کہ جب کسی پولس اہلکار نے ایک ساتھ ہتھیاروں کی بڑی کھیپ لوٹ لی ہے۔
دریں اثنا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سنسنی خیز معاملے کی کئی زاویوں سے تحقیقات شروع کی گئی ہے اور جائے واردات پر تعینات پورے حفاظتی عملہ پر کڑی نظررکھی جارہی ہے۔ان ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اہلکاروں کو ابھی تک باضابطہ گرفتار تو نہیں کیا گیا ہے تاہم تحقیقاتی ٹیم نے آج انکی انگلیوں کے نشان لے لئے جبکہ ممبر اسمبلی کی رہائش گاہ کو سیل کردیا گیا ہے۔ان ذرائع آج کم از کم ایک پولس اہلکار اور ممبر اسمبلی کے ڈرائیور سے مفصل پوچھ تاچھ ہوئی ہے اور ان سبھی پولس اہلکاروں کی گرفتاری بھی متوقع ہے کہ جنکا ہتھیار لوٹ لیا گیا ہے۔
حالانکہ وادی کشمیر میں کسی پولس اہلکار کے ہتھیار لیکر فرار اور پھر جنگجووں کے ساتھ جاملنے کا یہ پہلا واقعہ تو نہیں ہے تاہم یہ پہلی بار ضرور ہے کہ جب کسی پولس اہلکار نے ایک ساتھ ہتھیاروں کی بڑی کھیپ لوٹ لی ہے۔پھر یہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا ہے کہ جب ریاست میں انتہائی کشیدہ ماحول کے درمیان بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں۔ریاست کی بنیادی سیاسی پارٹیوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے جبکہ جنگجووں نے ووٹ دہی کے عمل میں کسی بھی طرح کی شرکت کرنے والوں کی آنکھیں تیزاب ڈال کر تباہ کرنے کی دھمکی دی ہوئی ہے۔
کیا آپکو خبر ہے؟