انجینئرنیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کو تیار!

سرینگر// نیشنل کانفرنس کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ فاروق عبداللہکے، دفعہ35Aکے دفاع کی ضمانت نہ ملنے تک، انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس اپنے ”اصل“کی طرف لوٹے تو وہ اسکے ساتھ ہولینے کوتیار ہیں۔آج یہاں سے جاری کردہ ایک بیان میں انجینئر رشید نے کہا”حقائق نے ثابت کیا ہے کہ 1975میں اندرا-عبداللہ ایکارڈ کے بعد تحریک رائے شماری کا ختم کیا جانا ایک ہمالیائی غلطی تھی اور اگر شیخ صاحب نے استقامت دکھائی ہوتی تو حالات یکسر مختلف ہوتے“۔انجینئر رشید نے مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس کی جانب سے بلدیاتی اداروں، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ خوش آئیندہ تو ہے ہی البتہ ساتھ ہی یہ اپنے آپ میں اس بات کا اعتراف ہے کہ عوام کے بائیکاٹ کے باوجود 1996میں فوج کے بل پر کرائے گئے عام انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی شرکت ایک بہت بڑی غلطی اور ہندوستان کے حق میں ایک ”ٹرننگ پوائینٹ“تھا۔انہوں نے کہا کہ بعدازاں انتخابات میں شرکت لوگوں کی ایک مجبوری بن گئی اور انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کیلئے اس عمل میں حصہ لینا شروع کیا۔تاہم انجینئر رشید نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو لیکر ایک دوسرے پر الزام لگانے سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے اور اگر فاروق عبداللہ اور انکے ساتھیوں کو نئی دلی کی ”کشمیریوں کواستعمال کرو اور پھینک دو“کی پالیسی سمجھ آئی ہے تو اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیئے۔

جموں کشمیر کے لوگ سیاسی طور کافی بالغ النظر ہوچکے ہیں اور انہیں دہائیوں قبل کے حالات کی طرح دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اگر اچھا کہنے اور کرنے پر کسی بھی لیڈر کی حمایت کرسکتے ہیں تو ایک موقف پر قائم نہ رہنے والوں کو بروقت رد بھی کرسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ فاروق عبداللہ نے دفعہ35Aکے خلاف جاری سازشوں کے احتجاج میں پہلے آئیندہ ماہ کیلئے طے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس دفعہ کے دفاع کی ضمانت نہ ملی تو نیشنل کانفرنس اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کرے گی۔انجینئر رشید کا کہنا ہے کہ فاروق عبداللہ کے ماضی کے متعلق باتیں کئے جانے کی بجائے ابھی انکے اچھے فیصؒے کی حمایت کی جانی چاہیئے۔تاہم انہوں نے کہا ہے” شرط یہ ہے کہ فاروق عبداللہ اور انکی پارٹی اس تبدیل شدہ اور مبنی بر حقیقت موقف پر ثابت قدمی دکھائیں“۔انہوں نے کہاہے”فاروق عبداللہ کا دفعہ35Aکے دفاع میں کھڑا ہونا وہی ہے کہ جو ہر کشمیری کی آواز ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مختلف الخیال سیاسی پارٹیاں نئی دلی کو 70سال پرانے مسئلہ کشمیر کے متنازعہ و معلق مسئلے کو حل کرنے پر کس طرح آمادہ کرے۔وقت آگیا ہے کہ نیشنل کانفرنس وقت گذاری کے سبھی نعروں کو ترک کرکے لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں رائے شماری کے اپنے اصل ایجنڈاپر واپس لوٹ آئے“۔

انجینئر رشید نے مزید کہاہے کہ ایسے میں نہ صرف عوامی اتحاد پارٹی اور دیگر ہم خیال پارٹیاں ہی نیشنل کانفرنس کی حمایت کرینگی بلکہ ہر قوم پرست کشمیری انکی آواز کو مظبوط بنانا چاہے گا۔البتہ انجینئر رشید نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر کے لوگ سیاسی طور کافی بالغ النظر ہوچکے ہیں اور انہیں دہائیوں قبل کے حالات کی طرح دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اگر اچھا کہنے اور کرنے پر کسی بھی لیڈر کی حمایت کرسکتے ہیں تو ایک موقف پر قائم نہ رہنے والوں کو بروقت رد بھی کرسکتے ہیں۔قابلِ ذکر ہے کہ فاروق عبداللہ اپنے لا اُبالی مزاج کیلئے جانے جاتے ہیں اور انکے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کب ،کہاں اور کیا بولیں گے۔وہ حال ہی میں تب سرخیوں میں آئے کہ جب انہوں نے نئی دلی میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران چیخ چیخ کر ”بھارت ماتا کی جئے“اور ”جئے ہند“کے متنازعہ نعرے لگائے اور حاضرین کی جانب سے قدرے پست آواز میں جواب دینے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔انکی یہ نعرہ بازی ابھی خبروں میں ہی تھی کہ انہوں نے سرینگر آکر انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔

Exit mobile version