مولوی عمر اور پولس کا امن بنائے رکھنے پر زور

سرینگر// جموں کشمیر میں پُشتینی باشندگی کے قانون کی بنیاد ،آئینِ ہند کی،دفعہ35Aکی تنسیخ سے متعلق معاملے کے آج سپریم کورٹ میں زیرِ بحث آنے کی ”افواہ“نے پوری وادی میں آگ لگادی ہے۔جنوبی کشمیر سے لیکر سرینگر سے ہوتے ہوئے شمالی کشمیر کے مختلف علاقوں میں ہڑتال ہوگئی ہے اور لوگ احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔مختلف علاقوں میں نوجوانوں کی ٹولیاں سرکاری فورسز پر سنگبازی کر رہی ہیں اور افراتفری کے عالم میں کئی اسکولوں نے وقت سے پہلے ہی بچوں کی چھٹی کردی ہے۔پولس نے تاہم اس خبر کو محض ایک ”افواہ“قرار دیتے ہوئے لوگوں سے امن و قانون بنائے رکھنے کیلئے کہا ہے جبکہ سہ رُکنی ”مشترکہ مزاحمتی قیادت“کے سینئر لیڈر مولوی عمر فاروق نے بھی” افواہ بازوں “کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر 35Aکے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔

مولی عمر فاروق نے ایک ٹویٹ میں کہا”آج ہندوستانی سپریم کورٹ میں دفعہ35Aسے متعلق معاملے کی شنوائی ہونے کے حوالے سے لوگوں میں ابہام پیدا کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں،جو کچھ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے،یہ ہے کہ دفعہ 35Aکو چلینج کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں تازہ عرضی دائر کی گئی ہے جاکا اصل معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے“۔انہوں نے مزید کہا کہ اصل معاملہ 31اگست کو زیر شنوائی آنے والا ہے اور ممکن ہے کہ تازہ عرضی کو بھی اسی کے ساتھ نتھی کیا جائے گا۔

”آج ہندوستانی سپریم کورٹ میں دفعہ35Aسے متعلق معاملے کی شنوائی ہونے کے حوالے سے لوگوں میں ابہام پیدا کیا جا رہا ہے۔اس سلسلے میں،جو کچھ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے،یہ ہے کہ دفعہ 35Aکو چلینج کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں تازہ عرضی دائر کی گئی ہے جاکا اصل معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے“۔

جموں کشمیر پولس کی جانب سے بھی ایک وضاحتی بیان میں لوگوں سے ”افواہوں“پر کان نہ دھرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ایک پولس ترجمان نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ کے ایک حصے میں من گھڑت اور بے بنیاد خبریں آئی ہے جبکہ دفعہ35Aسے متعلق معاملے کی شنوائی 31اگست کو طے ہے۔

واضح رہے کہ آر ایس ایس کی حامی بعض ”غیر سرکاری تنظیموں“نے دفعہ35A،جو جموں کشمیر میں کسی بھی غیر ریاستی باشندے کے جائیداد بنانے کو ممنوع بنائے ہوئے ہے اور یوں ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کی ڈھال بنا ہوا ہے،کی تنسیخ کا مطالبہ کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہوئی ہے۔حالانکہ قانونی ماہرین کے مطابق آئینِ ہند کی اس دفعہ کو دفع کیا جانا تقریباََناممکن ہے اور کسی جگاڑ سے ایسا کئے جانے کی صورت میں ایک قانونی بحران پیدا ہونے کا احتمال ہے تاہم حالیہ مہینوں میں سرینگر سے نئی دلی تک ہوئیں چند پیشرفتوں اور تبدیلیوں نے ریاستی،باالخصوص کشمیری،عوام کو بے چین کیا ہوا ہے۔اس متنازعہ معاملے کی شنوائی 27اگست کیلئے طے تھی اور مشترکہ ماحمتی قیادت نے اس دن کیلئے عام ہڑتال کی کال دی ہوئی تھی تاہم سپریم کورٹ نے معاملے کو موخر کرکے اسے31اگست کو شنوائی کیلئے رکھا ہے۔مزاحمتی قیادت نے بھی اسی حساب سے اپنے احتجاجی شیڈول میں تبدیلی کی ہے جبکہ سیول سوسائٹی گروپ،طلباءاور عام لوگ احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبہ میں احتجاجیوں اور سرکاری فورسز کے بیچ شدید لڑائی جاری ہوئے کی اطلاعات ہیں جبکہ کولگام، پلوامہ،شوپیان،بانڈٰ پورہ،شمالی کشمیر کے دیگر علاقوں اور یہاں سرینگر میں بھی افراتفری کا عالم ہے۔

چناچہ آج اچانک ہی اس معاملے کے زیرِ شنوائی آںے کی ’’خبر‘‘ کے فوری بعد مختلف علاقوں میں کسی باضابطہ کال کے بغیر ہڑتال ہوئی اور لوگ سڑکوں پر آکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگے۔جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبہ میں احتجاجیوں اور سرکاری فورسز کے بیچ شدید لڑائی جاری ہوئے کی اطلاعات ہیں جبکہ کولگام، پلوامہ،شوپیان،بانڈٰ پورہ،شمالی کشمیر کے دیگر علاقوں اور یہاں سرینگر میں بھی افراتفری کا عالم ہے۔سرینگر کے کئی اہم بازاروں میں بھی ہڑتال ہوگئی ہے اور کئی جگہوں پر نوجوانوں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپیں ہورہی ہیں جبکہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کئی اسکولوں نے ،ذرائع کے مطابق،وقت سے پہلے ہی بچوں کی چھٹی کرکے انہیں انکے گھروں کو روانہ کر دیا ہے۔

Exit mobile version