سرینگر// وادی کشمیر میں عید الاضحی کے حوالے سے بازاروں میں خاصا رش ہے تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ دفعہ35Aسے متعلق سپریم کورٹ میں دائر عرضی کو لیکر موجود خدشات کی وجہ سے بازار مندی کا شکار ہے۔تاجروں کا کہنا ہے کہ نہ خریداروں کا اتنا رش ہے اور نہ ہی تاجروں نے عید پر اس طرح کی سرمایہ کاری کی ہے کہ جس طرح معمول کے مطابق عیدین کے موقعہ پر ہوتی آرہی ہے۔گو بازاروں میں لوگوں کا اژدھام ہے لیکن دکانداروں کا کہنا ہے کہ” لوگ خریدنے سے زیادہ فقط دیکھ کر چلے جاتے ہیں“۔
”ایک طرف لوگوں کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے اور دوسری جانب حالات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لہٰذا دل کھول کر خریداری کیسے کی جا سکتی ہے“۔
سرینگر کے لالچوک،ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ،نمائشی کراسنگ،گونی کھن،مہاراجہ بازار،حضوری باغ اور دیگر بازاروں میں آج لوگوں کی بڑی گہما گہمی تھی یہاں تک کہ جگہ جگہ ٹریفک جام لگا ہوا تھا تاہم دکانداروں کے مطابق یہ رش ”اوپری“ہے جبکہ تجارت پر مندی چھائی ہوئی ہے۔جیسا کہ خواتین اور اطفال کی چیزوں کیلئے مشہور گونی کھن بازار میں ایک دکاندار نے کہا”رش تو ہے لیکن سچ پوچھیئے تو سیل کچھ بھی نہیں ہے،ایک تو لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی غیر یقینیت کا ماحول ہے“۔انہوں نے کہا کہ لوگ آتے ہیں اور چیزیں دیکھ کر چلے جاتے ہیں ۔اسی بازار میںریڈی میڈ کپڑوں کی ایک دکان کے سیلز مین منیر نے کہا”بازار تو اب ایک عرصہ سے مندا پڑا ہے لیکن عید کو لیکر جو توقعات تھیں وہ بھی پوری نہیں ہورہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے اور دوسری جانب مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ خریدار کو قیمت بتاتے ہوئے ہمیں بھی ایک طرح سے دقعت ہوتی ہے“۔دکان کے مالک نے انکے سیلز مین کی بات کاٹتے ہوئے کہا”کیا کریں قیمتیں تو پیچھے سے ہی آسمان چھو رہی ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں،جو ڈریس ہمیں سال بھر پہلے تھوک میں چھ سو کا متلا تھا وہ آج نو سو بلکہ ہزار تک ملتا ہے،سچ بات ہے کہ خریدار کو قیمت بتاتے ہوئے ہمارے بھی پسینے چھوٹتے ہیں“۔انہوں نے کہا ”ہم چونکہ بچوں کے کپڑے بیچتے ہیں کئی خریدار آکر محض دیکھ ہی پاتے ہیں ،میں محسوس کرسکتا ہوں کہ کئی لوگ خریداری کی طاقت ہی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ بازار میں کہیں پیسہ ہی نہیں ہے اور غربت بڑھتی جارہی ہے“۔
”کشمیر کی صورتحال آپکو معلوم ہی ہے،یہاں تو پہلے بھی بازاروں میں مندی چھائی رہی ہے لیکن اب کی بار دفعہ35Aکو لیکر خدشات نے بازار کو شدید چوٹ پہنچائی ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے اس دفعہ کی تنسیخ کا فیصلہ دیا تو حالات بہت خراب ہوسکتے ہیں لہٰذا نہ وہ خریداری کے موڈ میں ہیں اور نہ ہی خود تاجر برادری سرمایہ کاری پر آمادہ ہے“۔
تاجر تنظیم کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچرس کے ترجمان فرحان کتاب نے بتایا”کشمیر کی صورتحال آپکو معلوم ہی ہے،یہاں تو پہلے بھی بازاروں میں مندی چھائی رہی ہے لیکن اب کی بار دفعہ35Aکو لیکر خدشات نے بازار کو شدید چوٹ پہنچائی ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے اس دفعہ کی تنسیخ کا فیصلہ دیا تو حالات بہت خراب ہوسکتے ہیں لہٰذا نہ وہ خریداری کے موڈ میں ہیں اور نہ ہی خود تاجر برادری سرمایہ کاری پر آمادہ ہے“۔کتاب نے مزید کہا کہ اب کی بار تاجروں نے مقابلتاََ کم مال لایا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں”چونکہ دفعہ35Aکو لیکر غیر یقینی صورتحال ہے لہٰذا ہم نے بہت زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی ہے،لوگ بھی پیسہ بچائے رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وادی میں 2016کی طرح ایک لمبی ہڑتال ہوسکتی ہے“۔انہوں نے مزید کہا کہ لوگ فوری ضرورت کی چیزیں ہی خرید رہے ہیں جبکہ وہ معمول کے مطابق دل کھول کر خریداری پر آمادہ نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ جموں کشمیر میں پُشتینی باشندگی کے قانوں کی بنیاد آئینِ ہند کی دفعہ 35Aکی تنسیخ کیلئے بھاجپا کے حمایت یافتہ درخواست گذاروں نے سپریم کورٹ میں الگ الگ عرضیاں دائر کی ہوئی ہیں اور افواہ ہے کہ مرکزی سرکار نے اس دفعہ کو ہٹانے کا من بنالیا ہے۔اس دفعہ کے ہٹائے جانے کی صورت میں ابھی کے مقابلے میں کوئی بھی غیر ریاستی شہری ریاست میں جائیداد بناسکتا ہے اور ریاستی سرکار کا ملازم بن سکتا ہے۔کشمیریوں کو مدت سے یہ خدشہ ہے کہ اس دفعہ کے ہٹائے جانے سے دراصل مسلم دشمن طاقتیں جموں کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار ختم کرنے کیلئے یہاں کا آبادیاتی تناسب بدلنے کی کوشش کرتی ہیں۔
”کیا کریں قیمتیں تو پیچھے سے ہی آسمان چھو رہی ہیں ہم کیا کرسکتے ہیں،جو ڈریس ہمیں سال بھر پہلے تھوک میں چھ سو کا متلا تھا وہ آج نو سو بلکہ ہزار تک ملتا ہے،سچ بات ہے کہ خریدار کو قیمت بتاتے ہوئے ہمارے بھی پسینے چھوٹتے ہیں“۔
لالچوک میں خریداری کرنے آئے ایک نوجوان جوڑے نے بتایا”ایک طرف لوگوں کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے اور دوسری جانب حالات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے لہٰذا دل کھول کر خریداری کیسے کی جا سکتی ہے“۔ادھیڑ عمر کے ایک شخص بشیر احمد ،جنکے پاتھ میں کئی تھیلیاں تھیں،نے بتایا”دیکھیئے خریداری تو کرنی ہی پڑتی ہے نا،میں نے مصالحہ جات کے علاوہ بچوں کیلئے کپڑے خریدے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ عید کے بعد لمبی ہڑتال ہونے کے خدشات نے عید کا مزہ خراب کیا ہے“۔انہوں نے کہا”لوگوں کے ذہن میں یہ ہے کہ اگر لمبہ ہڑتال ہوئی تو مشکلات کا سامنا ہوگا لہٰذا سنبھل سنبھل کر خریداری کر رہے ہیں۔