عمر قیوم کے والد کی عیال سمیت خود کُشی کرنے کی دھمکی!

سرینگر// 2010میں طفیل متو نامی ایک کمسن کے مارے جانے کے خلاف مہینوں پر محیط ہوئے ایجی ٹیشن کے دوران،مبینہ طور،پولس کی حراست میں تشدد کرکے مارے گئے صورہ سرینگر کے ایک نوجوان کے والد اور بہنیں انصاف کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔انکا کہنا ہے کہ آٹھ سال سے وہ اس معاملے میں ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں لیکن انکی کہیں دادرسی نہیں کی جا رہی ہے۔سوگوار خاندان نے دھمکی دی ہے کہ چند دنوں کے دوران ایف آئی آر درج نہ ہوئی تو وہ یہاں کی پریس کالونی،جہاں بیشتر میڈیا گھرانوں کے دفاتر واقع ہیں،میں آکر اجتماعی طور خود کشی کرینگے جسکے لئے انہوں نے وقت کی سرکار کو ذمہ دار بتایا ہے۔

”ہمیں کوئی معاوضہ،پیسہ،نوکری یاکوئی اور چیز نہیں چاہیئے،ہم صرف اس معاملے میں ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ قاتلوں کو سزا دلائی جاسکے“۔

آٹھ سال قبل تب ریاست میں عمر عبداللہ کی سرکار تھی کہ جب طفیل متو نامی کمسن کو 11جون2010 کوسرینگر کے پائین شہر میں غنی میموریل اسٹیڈیم راجوری کدل کے قریب اُسوقت ٹیئر گیس کا شیل مار کر قتل کر دیا گیا تھا کہ جب وہ ٹیوشن سے لوٹ رہے تھے۔ اس واقعہ کے خلاف وادی میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور سرکاری فورسز نے طاقت کا استعمال کرکے مزید نوجوانوں کو جاں بحق کردیا تھا جنکے مارے جانے کے خلاف ہوئے احتجاج کو روکنے کے لئے مزید نوجوانوں اور بچوں کو مار گرایا گیا تھا اور یوں مارا ماری کے اس سلسلے میں سرکاری فورسز نے سوا سو لوگوں کی جان لی تھی اور وادی کشمیر مہینوں حوالہ آتش رہی تھی۔ایجی ٹیشن کو دبانے جانے کے دوران مارے جانے ان سوا سو افراد میں صورہ سرینگر کے عمر قیوم نامی نوجوان بھی شامل تھے جو ایک چھوٹی دکان چلانے والے عبدالقیوم کی واحد نرینہ اولاد تھی۔عمر کو پولس نے گرفتار کر لیا تھا اور،مبینہ طور،مقامی تھانے میں ان پر اس حد تک تشدد کیا گیا کہ انکے دونوں گردے،پھیپھڑے اور دیگر کئی اندرونی اعضاءبیکار ہوگئے۔چناچہ پولس نے عمر کو تھانے کے باالمقابل ریاست کے سب سے بڑے اسپتال،میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ،میں بھرتی کرایا گیا جہاں وہ مگر جانبر نہ ہوسکے۔ڈاکٹروں نے صاف الفاظ میں عمر قیوم کے زبردست تشدد کے نتیجے میں مارے جانے کی رپورٹ دی تھی تاہم آٹھ سال گذرجانے کے باوجود بھی ابھی تک اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔عبدالقیوم نے اپنے بیٹیوں کے ساتھ کئی بار پولس تھانہ صورہ اور دیگر کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی کئے مگر انکی داد رہی نہیں کی جا رہی ہے۔

”میں نے ہیومن رائٹس کمیشن اورکئی عدالتوں سے لیکر وقت وقت کے وزرائِ اعلیٰ سے لیکر موجودہ گورنر این این ووہرا تک سبھی سے مدد کی اپیل کی لیکن مجھے ٹالا جارہا ہے۔عدالت میں جب بھی معاملہ فیصلے کی سطح تک پہنچ جاتا ہے جج کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور پھر نئے جج صاحب ایک بار پھر نئے سے شروع کرتے ہیں اور یہ دائرہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا ہے“۔

سنیچر کویہاں پریس کالونی میں سوگوار والد نے اپنی چھوٹی بیٹی کی معیت میں ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کیا۔مارے گئے نوجوان کی چھوٹی بہن نے آبدیدہ ہوکر اور گلوگیر آواز میں کہا”ہمیں کوئی معاوضہ،پیسہ،نوکری یاکوئی اور چیز نہیں چاہیئے،ہم صرف اس معاملے میں ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ قاتلوں کو سزا دلائی جاسکے“۔انہوں نے کہا”اس سے بڑھکر ظلم کیا کہ آٹھ سال بعد بھی ہماری ایف آئی آر تک درج نہیں کی جارہی ہے حالانکہ ہم کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں“۔

انکے والد نے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سزا دلانا چاہتے ہیں مگر انکی ایف آر آر نہیں لکھی جارہی ہے۔انہوں نے کہا”میں نے ہیومن رائٹس کمیشن اورکئی عدالتوں سے لیکر وقت وقت کے وزرائِ اعلیٰ سے لیکر موجودہ گورنر این این ووہرا تک سبھی سے مدد کی اپیل کی لیکن مجھے ٹالا جارہا ہے۔عدالت میں جب بھی معاملہ فیصلے کی سطح تک پہنچ جاتا ہے جج کو تبدیل کردیا جاتا ہے اور پھر نئے جج صاحب ایک بار پھر نئے سے شروع کرتے ہیں اور یہ دائرہ کبھی ختم ہی نہیں ہوتا ہے“۔انہوں نے تاہم دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر چند دنوں میں انکی ایف آئی آر نہیں لکھی جاتی ہے تو وہ پورے عیال کے ساتھ آکر پریس کالونی میں سب کے سامنے خود کشی کرینگے جسکے لئے،بقول انکے،سرکار ذمہ دار ہوگی۔

 

Exit mobile version