اہلیانِ حاجن نے پھر محصورجنگجووں کو بھگادیا!

سرینگر// شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں جمعہ کو فوج اور جنگجووں کے بیچ ہوئی ایک مختصر جھڑپ میں ایک جوان ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ جنگجوکوئی نقصان اٹھائے بغیر فرار ہوگئے ہیں۔شمالی کشمیر کے ہی بانڈی پورہ ضلع میں ایک زبردوست اینکاونٹر کے بعد جنگجووں کا ایک محصور گروہ ڈرامائی انداز میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ کپوارہ ضلع کے ہندوارہ سب ڈویژن کے کژلو نامی گاوں میں جنگجووں کی موجودگی سے متعلق اطلاع ملنے پر فوج کی 32راشٹریہ رائفلز(آر آر)نے جموں کشمیر پولس اور دیگر سرکاری فورسز کے ساتھ یہاں کا محاصرہ کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ابھی محاصرہ کیا ہی جارہا تھا کہ بستہ میں موجود جنگجووں نے زبردست فائرنگ کی اور یوں جانبین کے مابین ایک خونریز جھڑپ شروع ہوگئی۔حالانکہ سرکاری فورسز نے جنگجووں کو چاروں طرفسے گھیر کر ان پر شدید حملہ کیا تاہم انہوں نے کسی طرح راہِ فرار ڈھونڈ کر کئی جوانوں کو زخمی کردیا جن میں سے رائفل مین رام بابو سہائے کی بعدازاں فوجی اسپتال میں موت واقع ہوگئی۔

ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ جھڑپ مختصر تھی اور جنگجووں کے ابتدائی حملے میں ہی رام بابو شدید زخمی ہوگئے تھے جو فوجی اسپتال پہنچائے جانے کے باوجود بھی جانبر نہیں ہوسکے۔

ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ جھڑپ مختصر تھی اور جنگجووں کے ابتدائی حملے میں ہی رام بابو شدید زخمی ہوگئے تھے جو فوجی اسپتال پہنچائے جانے کے باوجود بھی جانبر نہیں ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ جنگجو بظاہر فرار ہوگئے ہیں تاہم ایک وسیع علاقے کا محاصرہ جاری ہے اور مفرور جنگجووں کی تلاش کی جارہی ہے۔

شمالی کشمیر کے ہی بانڈی پورہ ضلع کے مشہور قصبہ حاجن میں فوج کو جنگجووں کے ساتھ ایک طویل لڑائی کے بعد تب خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا کہ جب علاقہ کے لوگوں نے جمع ہوکر فورسز پر سنگباری کی اور محاصرے میں پھنسے جنگجووں کو فرار ہونے میں مدد دی۔معلوم ہوا ہے کہ حاجن کے میر محلہ میں سرکاری فورسز کو جنگجووں کے ایک گروہ کی موجودگی کے بارے میں خبر ملی ہوئی تھی جسکی بنیاد پر یہاں کا محاصرہ کیا گیا تھا۔چناچہ محاصرہ ہوتے دیکھتے ہی جنگجووں نے شدید فائرنگ کرکے سرکاری فورسز کے ساتھ جھڑپ چھیڑ دی ۔حالانکہ فورسز نے عام لوگوں کے بیچ میں آنے کے خدشات کے پیشِ نظر جھڑپ شروع ہوتے ہی علاقے میں کرفیو جیسی پابندیاں لگادی تھیں اور انٹرنیٹ کی سروس بند کرادی تھی تاہم اسکے باوجود بھی آس پڑوس کے گاوں کے ہزاروں لوگوں نے جمع ہوکر احتجاجی مظاہرے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری فورسز پر سنگباری کرکے انکا دھیان ہٹانے کی کوشش کی۔علاقے میں موجود ذرائع نے بتایا کہ فورسز نے عام لوگوں پر قابو پانے کیلئے آنسو گیس،پیلٹ گن اور پھر گولیاں بھی چلائیں تاہم مظاہرین پیچھے نہ ہٹے یہاں تک کہ کافی دیر تک فورسز اور جنگجووں کے بیچ فائرنگ ہوتے رہنے کے بعد جنگجو کہیں سے محاصرہ توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔سرکاری ذرائع نے قصبہ میں جھڑپ ہونے اور پھر محصور جنگجووں کے فرار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ”شرپسندوں“نے جنگجووں کی مدد کرنے کیلئے تشدد بھڑکایا جسکی وجہ سے جنگجووں کیلئے فرار ہونا آسان ہوگیا۔

معمولی گویئے سے جنگجو اور پھر جنگجو سے فوجی اعانت کار بنے پرے نے فوج کی مدد سے ”اخوان المسلمون“نامی ایک مسلح گروہ کھڑا کیا تھا جسے ”کچھ بھی“کر گذرنے کی آزادی حاصل تھی اور جس نے جنگجووں کے رشتہ داروں،حامیوں اور جماعت اسلامی کے سینکڑوں ارکان کا قتل ،لوٹ مار اور اس طرح کی کارروائیوں سے دہشت مچادی تھی اور جنگجوئیت کو تقریباََ نابود کردیا تھا۔

قابلِ ذکر ہے کہ حاجن کا قصبہ کبھی ’’کونٹر انسرجنسی“کا گڈھ بن چکا تھا اور یہ فوج کے ساتھ کام کرنے والے ”کوکہ پرے“کا آبائی علاقہ ہونے کی وجہ سے انکی سرگرمیوں کا ہیڈکوارٹر بنا ہوا تھا۔ معمولی گویئے سے جنگجو اور پھر جنگجو سے فوجی اعانت کار بنے پرے نے فوج کی مدد سے ”اخوان “نامی ایک مسلح گروہ کھڑا کیا تھا جسے ”کچھ بھی“کر گذرنے کی آزادی حاصل تھی اور جس نے جنگجووں کے رشتہ داروں،حامیوں اور جماعت اسلامی کے سینکڑوں ارکان کا قتل ،لوٹ مار اور اس طرح کی کارروائیوں سے دہشت مچادی تھی اور جنگجوئیت کو تقریباََ نابود کردیا تھا۔کوکہ پرے  نے بعدازاں عوامی لیگ نامی اپنی سیاسی پاٹی بنائی اور الیکشن ”جیت کر“ممبر اسمبلی بن گئے تھے تاہم انہیں حاجن میں ہی ایک تقریب کے دوران جنگجووں کے ایک فدائی دستہ نے ڈھیر کردیا تھا۔

حالیہ برس کے دوران حاجن میں کئی جنگجو اگر فوج کے ہتھے چڑھ بھی گئے تاہم آج ہی کی طرح کئی بار مقامی لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جنگجووں کی حمایت میں سامنے آکر انہیں فرار ہونے میں مدد دی ہے

اخوان کا زوال آنے کے بعد حاجن کو برسوں تک اسی شناخت سے پہچانا جاتا تھا تاہم دو ایک سال سے نہ صرف یہاں کے کئی نئے لڑکے جنگجو بن کر فوج کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں بلکہ یہ علاقہ ایک بار پھر شمالی کشمیر میں جنگجوئیت کے گڈھ کے بطور ابھر رہا ہے۔پولس میں ذرائع کا کہنا ہے کہ علاقہ میں کئی پاکستانی جنگجو سرگرم ہیں جنہیں مقامی لوگوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔چناچہ حالیہ برس کے دوران حاجن میں کئی جنگجو اگر فوج کے ہتھے چڑھ بھی گئے تاہم آج ہی کی طرح کئی بار مقامی لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جنگجووں کی حمایت میں سامنے آکر انہیں فرار ہونے میں مدد دی ہے جیسا کہ پوری وادی میں دو ایک سال سے ایک ”ٹرنڈ“بنی ہوئی ہے جسے فوجی سربراہ جنرل راوت ایک زبردست چلینج قرار دے چکے ہیں۔

Exit mobile version