الیکشن پر نظررکھ کر عمر عبداللہ کو کشمیریوں کا جذبہ آزادی”دکھائی دینے لگا“!

سرینگر// اب جبکہ جموں کشمیر میں محبوبہ مفتی کی سرکار گر کر یہاں گورنر راج نافذ ہوا ہے اور نئی حکومت بنانے کیلئے انتخابات ناگزیر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے اپنی بولی بدلنے کی روایت پر آنا شروع کیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو اچانک ہی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کشمیرمیں ”آزادی “کاایک مضبوط جذبہ ہے جسے طاقت پرمبنی پالیسی سے دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ریاست کو چھینی ہوئی ”اٹانومی“کی بحالی کو مسئلہ کشمیر کا ”بہترین حل“بتاتی آرہی نیشنل کانفرنس کے نائبِ صدر اور سابق وزیر اعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیرکے لوگ مسئلہ کشمیرکاآئین ِ ہندکے باہرحل چاہتے ہیں ۔

عمر عبداللہ ایسے وقت پر مرکز کی ”سخت گیر پالیسی“کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے ”جذبہ آزادی“کا اعتراف کرتے دکھائی دینے لگے ہیں کہ جب ریاست میں گورنر راج نافذ ہوچکا ہے اور نئے انتخابات ناگزیر ہوگئے ہیں۔

ایک نجی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے انٹرویو میں عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ کشمیرکی موجودہ صورتحال کیلئے مرکزی حکمران اورسرکاریں ذمہ دارہیں کیونکہ انہوں نے کبھی کشمیری عوام کیساتھ کئے گئے وعدوں کوعملی جامہ نہیں پہنایااورنہ انہوں نے اپنی کہی باتوں کابھرم رکھا۔عمرعبداللہ نے کہاکہ سابق وزیر اعظم نرسمہاراﺅنے کشمیریوں کیلئے”آسمان حدہے“کی بات کہی مگر عملی طور کچھ نہیں کیا جبکہ واجپائی نے انسانیت ،جمہوریت اورکشمیریت کی بات کی مگر اس پر کوئی عمل نہیں کیا۔انہوں نے کہاکہ آج کی مرکزی سرکارتوکشمیرمسئلے کے سیاسی پہلوکوماننے کیلئے ہی تیارنہیں ہے بلکہ مودی سرکارکی نظرمیں یہ امن وقانون اوراقتصادی معاملہ ہے۔ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ کشمیرمسئلے کے کم سے کم تین پہلوہیں ،ایک یہ کہ کشمیرہندوستان اورپاکستان کے درمیان ایک تنازعہ ہے ،دوسرا یہ کہ مرکزاورریاست کے مابین کئی معاملات حل طلب ہیں ،اورتیسراپہلواندرونی سطح کاہے جوریاست کے تین خطوں کشمیر،جموں اورلداخ کے درمیان ہے یاکہ ان تینوں خطوں کے اندرپایاجاتاہے۔عمرعبداللہ نے مودی سرکارکی” طاقت پرمبنی کشمیرپالیسی “کوبے سودقراردیتے ہوئے خبردارکیاکہ اس قسم کے اپروچ سے کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں میں پائی جانے والی بیگانگی میں تشوشناک طورپراضافہ ہواہے ۔انہوں نے کہاکہ کچھ نیوزچینلوں نے کشمیراورکشمیریوں کیخلاف زہرافشانی پرمبنی جونہج اپنارکھی ہے،اُس سے بھی کشمیری نوجوانوں میں اشتعال بڑھ رہاہے ۔

عمرعبداللہ نے کہاکہ سبھی کشمیریوں کوانتہاپسنداورامن دشمن قراردینے کی میڈیاپالیسی کے منفی نتائج برآمدہوتے ہیں ۔سابق وزیراعلیٰ نے سینئرصحافی شجاعت بخاری کی ہلاکت کے تناظر میں کہاکہ ایک جانب کشمیری صحافیوں کوکھلی دھمکی دی جارہی ہے تودوسری جانب نیوزچینلوں نے کشمیرمخالف اپروچ اپنارکھاہے۔انہوں نے واضح کیاکہ کشمیرمیں طاقت کی پالیسی یاملٹری اپروچ کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہوگابلکہ ایسی پالیسی اوراپروچ سے حالات مزیدابترہوتے جائیں گے ۔عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ اب بھی موقعہ ہے کہ کشمیرکے حوالے سے حکومت ہندسیاسی پالیسی اپنائے کیونکہ کشمیرایک سیاسی مسئلہ ہے نہ کہ خالصتاًامن وقانون یاکوئی اقتصادی مسئلہ ،جسکوطاقت یاترقیاتی پیکیج دیکرحل کیاجاسکتاہے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ صورتحال میں کشمیری نوجوانوں کواسبات کیلئے قائل کرنابہت ہی مشکل ہے کہ مذاکرات سے کشمیرمسئلے کوحل کیاجاسکتاہے۔عمرعبداللہ کاکہناتھاکہ شجاعت بخاری کے قتل سے سیول سوسائٹی اورسیاسی لیڈرشپ بشمول حریت لیڈروں کویہ سخت پیغام ملاہے کہ بھارت کیساتھ مذاکرات کاکوئی فائدہ نہیں ۔

کانگریس لیڈران ،غلام نبی آزاداورسیف الدین سوز،کے حالیہ بیانات کے تناظرمیں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سابق وزیراعلیٰ نے کہاکہ کشمیروادی میں آزادی ایک مضبوط جذبہ ہے اوریہ کہ اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ کشمیرکے لوگ مسئلہ کشمیرکا آئین ِ ہندکے باہرحل چاہتے ہیں ۔ عمرعبداللہ نے سوالیہ اندازمیں کہاکہ اگرکشمیرمیں آزادی کاجذبہ نہ ہوتاتواپریل2017میں ہوئے ضمنی پارلیمانی چناﺅکے دوران سری نگرلوک سبھانشست کیلئے صرف7فیصدووٹ نہ ڈالے گئے ہوتے ۔انہوں نے غلام نبی آزادکے بیان کی تائیدکرتے ہوئے کہاکہ کشمیرمیں جھڑپوں کے دوران اگرجنگجومارے جاتے ہیں توعام شہری بھی گولیوں کانشانہ بنکرجاں بحق ہوتے ہیں ۔عمرعبداللہ نے واضح کیاکہ شہری ہلاکتیں کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ہیں ۔قابلِ ذکر ہے کہ 2010میں خود عمر عبداللہ کے دورِ اقتدار میں زائد از سوا سو افراد ،جن میں کئی کمسن اور بزرگ بھی شامل تھے،مارے گئے تھے جبکہ انکے والد فاروق عبداللہ نے اپنے وقت پر سخت اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی سرکار کو پاکستان پر بم گرانے کی تجویز دی تھی۔

خود عمر عبداللہ کے دورِ اقتدار میں زائد از سوا سو افراد ،جن میں کئی کمسن اور بزرگ بھی شامل تھے،مارے گئے تھے جبکہ انکے والد فاروق عبداللہ نے اپنے وقت پر سخت اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی سرکار کو پاکستان پر بم گرانے کی تجویز دی تھی۔

بھاجپاکی جانب سے پی ڈی پی سے حمایت واپس لیکرمحبوبہ مفتی کی سرکارکوگرانے کو عمر عبداللہ نے”جموں وکشمیرکی سیاست پرسرجیکل اسٹرائیک جیسا“بتایاانہوں نے کہاکہ محبوبہ مفتی کوبھاجپافیصلہ کی جانکاری ریاستی گورنرنے فون پراسوقت دی جب محبوبہ مفتی اوراُنکی کابینہ میں شامل کئی وزیرسیول سیکرٹریٹ سرینگرمیں اپنے دفاتر میں کام کررہے تھے جبکہ راجناتھ سنگھ کویہ خبرنیوزچینلوں سے ملی ۔واضح رہے کہ عمر عبداللہ ایسے وقت پر مرکز کی ”سخت گیر پالیسی“کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے ”جذبہ آزادی“کا اعتراف کرتے دکھائی دینے لگے ہیں کہ جب ریاست میں گورنر راج نافذ ہوچکا ہے اور نئے انتخابات ناگزیر ہوگئے ہیں۔انتخابات کے دوران ”علیٰحدگی پسندانی سوچ“کے اعتراف اور ”دلی کے تئیں ناراضگی کے اظہار“کو یہاں کی سیاسی پارٹیاں ووٹ بٹورنے کے ایک حربے کے بطور استعمال کرتی آرہی ہیں۔

Exit mobile version