خانقاہِ معلیٰ میں آ گ،گنبد کو نقصان دِلوں میں درد!

سرینگر// وادی کشمیر میں مسلمانوں کی معروف اور قدیم ترین خانقاہ آگ کی ایک پُر اسرار واردات میں جزوی طور تباہ ہوگئی ہے جسکی وجہ سے اس خانقاہ کے ساتھ عقیدت رکھنے والوں میں افسوس اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔خانقاہ میں منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو آگ لگی اور جونہی آس پڑوس کی بستی کے لوگوں نے اس زیارت گاہ کی اوپری منزل سے لپٹیں بلند ہوتے دیکھیں وہ واویلا کرتے ہوئے باہر آئے اور اسکے ساتھ ہی آگ بھجانے والے عملہ کو بلایا گیا جس نے مقامی لوگوں کی اعانت سے جلد ہی آگ پر قابو پالیا۔تاہم تب تک خانقاہ کے گنبد اور چھت کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔

میرا جگر درد کررہا ہے،اگر میر سید علی ہمدانی (رح)یہاں نہ آئے ہوتے تو ہم مسلمان ہی کہاں ہوتے،یہ(خانقاہ)اسلام کی ایک نشانی ہے

خانقاہ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہے تاہم بعض لوگوں نے واقعہ کا عینی شاہد ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واردات آسمانی بجلی گرنے سے پیش آئی ہے۔آج صبح خانقاہ کے باہر واویلا کرنے والے ہزاروں لوگوں میں سے کئی ایک نے بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے آسمانی بجلی گرتے دیکھی جسکی وجہ سے خانقاہ کو آگ لگ گئی۔اسکے ساتھ ہی یہاں چہ گوئیاں کرتے ہوئے لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ زمین پر روز بروز برے کام ہونے کی وجہ سے قدرت نے اپنی ناراضگی کا عندیہ دیا ہے۔ایک پولس افسرنے تاہم کہا کہ انہوں نے معاملہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہے۔

سرینگر شہر کے پائین علاقہ میں جہاں یہ خانقاہ واقعہ ہے اس پورے علاقے کو اس خانقاہ کی وجہ سے خانقاہ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے اور یہ یہاں کی تاریخی جامع مسجد سے قریب ایک کلومیٹر دور زینہ کدل کے قریب دریائے جہلم کے کنارے واقعہ ہے۔خانقاہِ معلیٰ نامی عبادت گاہ چودہویں صدی کے ابتدائی دور میں وسطی ایشیا اور فارس سے کشمیر آنے والے مسلم علماءکی طرف سے وادی میں اسلام متعارف کرائے جانے کے بعد تعمیر کی گئی تھی اور اس کا شمار ہمالیائی خطے کی اولین مساجد میں ہوتا ہے۔ اس خانقاہ کو سلسلہِ کبرویہ سے تعلق رکھنے والے مبلغ میر سید علی ہمدانی کا مسکن اور کشمیر میں اسلام کی تبلیغ کا ابتدائی مرکز بھی خیال کیا جاتا ہے۔میر سید علی کا تعلق ایران کے ہمدان شہر سے تھا اور وہ چودہویں صدی کے اواخر میں کشمیر آئے تھے۔ انہوں نے کشمیر میں اسلام کے پیغام کو عام کیا تھایہاں تک کہ انہیں کشمیر میں بانی اسلامی کی طرح دیکھا جاتا ہے۔مورخین کے مطابق،کشمیریوں میں امیرِ کبیر کے نام سے مشہور، میر سید علی کی تبلیغ سے 37 ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ خانقاہ میں جو مقامی اور وسطی ایشیا کے فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے آگ بجلی کے شارٹ سرکٹ کے نتیجے میں لگی جس سے خانقاہ کی چھت اور منارہ تباہ ہوگئے۔

آئے دنوں پھیلتی جارہی بے حیائی اور گناہوں کی وجہ سے اس طرح کی وارداتیں پیش آرہی ہیں

جائے واردات پر صبح سویرے سے سرکاری حکام کا رش لگا ہوا تھا جو نقصان کا جائزہ لینے کیلئے آرہے تھے جبکہ دوپہر کے قریب وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی یہاں حاضری دی اور نقصان کا جائزہ لیا۔یہاں جمع لوگ انتہائی افسوس کا اظہار کر رہے تھے اور ان میں سے بیشتر کا کہنا تھا کہ وہ اس واردات کی وجہ سے دل میں درد محسوس کررہے ہیں۔چناچہ نم آنکھوں کے ساتھ ایک بزرگ کا کہنا تھا”میہ چھہ جگرس دگ ،یہ خانقاہ چھہ اسلامچ نشانی،اگر شاہِ ہمدان یور آسہن نہ آمت نہ ائس کتیہ آسہو مسلمان“ (میرا جگر درد کررہا ہے،اگر میر سید علی ہمدانی (رح)یہاں نہ آئے ہوتے تو ہم مسلمان ہی کہاں ہوتے،یہ(خانقاہ)اسلام کی ایک نشانی ہے)۔تاہم لوگ ایکدوسرے کو یہ کہکر تسلی دے رہے تھے کہ خانقاہ کو معمولی نقصان ہوا ہے اور یہ تباہ ہونے سے بچ گئی ہے۔یہاں موجود بعض خواتین آپس میں یہ کہہ رہی تھیں کہ آئے دنوں پھیلتی جارہی بے حیائی اور گناہوں کی وجہ سے اس طرح کی وارداتیں پیش آرہی ہیں۔

محبوبہ کے یہاں پہنچنے پر تب صورتحال دلچسپ ہوگئی کہ جب یہاں موجود لوگوں نے اسلام اور آزادی کے حق میں زبردست نعرہ بازی کی۔

اس دوران محبوبہ کے یہاں پہنچنے پر تب صورتحال دلچسپ ہوگئی کہ جب یہاں موجود لوگوں نے اسلام اور آزادی کے حق میں زبردست نعرہ بازی کی۔وزیر اعلیٰ نے حکام کو خانقاہ کی تعمیر نو کا منصوبہ مرتب کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا ہے کہ خانقاہ کو اپنی اصل حیت میں بحال کیا جائے گا۔انہوں نے حکام کو سبھی زیارتگاہوں کے حفاظتی انتظامات کا جائزہ لینے کی بھی ہدایت دی ہے ۔

Exit mobile version