پاکستانی شیطانوں نے اسلام سے وفا نہیں کیا:صحرائی

سرینگر// بزرگ راہنما سید علی شاہ گیلانی کے دست راست اور تحریکِ حُریت کے سینئر لیڈر اشرف صحرائی نے دو قومی نظریہ کے ناقدین کی شدید مخالفت کرتے ہوئے تاہم پاکستان کے سیاستدانوں کو شیطان قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے اسلام کے ساتھ دغا بازی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کے بعد پاکستان وہ اکیلا ملک ہے کہ جو کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے تاہم ستر سال گذرنے کے باوجود بھی یہ ملک عملاََ ایک اسلامی ملک نہیں بن سکا ہے۔ انہوں نے تاہم نظریہ پاکستان کی مخالفت کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ اس ملک کے وجود سے کہیں قبل غیبی طاقتوں نے اسکے وجود میں آنے کی بشارت دیدی تھی۔

صحرائی نے دو قومی نظریہ اور پاکستان کے وجود کی مخالفت کرنے والوں کی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ لا الاہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم اس ملک کے موجودہ نظام کی مخالفت تو کی جا سکتی ہے لیکن اس نظریہ کی مخالفت کرنا غلط ہے کیونکہ دو قومی نظریہ تب بھی صحیح تھا اور آج کے ہندوستان کے حالات بھی اسکے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

سید علی شاہ گیلانی کی رہائش گاہ سے منسلک تحریکِ حُریت کے دفتر واقع حیدرپورہ میں نظریہ سازِ پاکستان اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے یوم پیدائش کے موقعہ پر سید گیلانی کی صدارت میں منعقدہ ایک سیمینار میں بولتے ہوئے اشرف صحرائی نے،جو اقبالیات پر خاصی دست رس رکھتے ہیں، علاقہ اقبال کی شاعری میں پنہاں انکے پیغام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ کوئی عام یا معمولی شاعر اور فلسفی نہیں تھے بلکہ انہوں نے اسلام کی روح کو بہترین انداز میں سمجھا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ علاقہ کی شاعری ہی نہیں بلکہ انکی نثر میں بھی مسلمانوں کو جگانے اور انہیں اپنا منصب و مقام پہچاننے کا درس ملتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اقبال کا پیغام اس قدر بڑا ہے کہ انہوں نے خود ایک جگہ کہا ہے کہ وہ شائد خود بھی اپنے پیغام کی عظمت پوری طرح نہیں جان پائے ہیں۔ اشرف صحرائی نے کہا کہ اقبال کو یہ ملال رہا ہے کہ انکی قوم نے انکے پیغام کی قدر نہیں کی بلکہ حد تو یہ ہے کہ بعض لوگوں نے انکے کلام کی غلط تشریح کرتے ہوئے انکے بعض اشعار کو سوشل ازم کی حمایت قرار دینے تک کی کوشش کی ہے۔

تحریکِ حُریت کے لیڈر نے اقبال کے نظریہ پاکستان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلے پہل انہوں نے ہندوستانی وفاق میں ہی مسلمانوں کے لئے ایک الگ نظام کی بات کی تھی لیکن بعدازاں آر ایس ایس جیسی تنظیموں کی شرارتوں سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد مسلمانانِ ہند کو ہندو سامراج کی غلامی میں آنا ہوگا لہٰذا انکے لئے ایک الگ ملگ وجود میں آنا چاہیئے۔ اشرف صحرائی نے کہا کہ مدینہ طیبہ کے بعد پاکستان ہی وہ ملک ہے کہ جو کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ تاہم انہوں نے موجودہ پاکستان کے سیاستدانوں کے تئیں شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ پاکستان کے سیستدانوں ،شیطانوں ،نے اسلام کے ساتھ وفا نہیں کیا۔وہ ابھی تک عملی طور اسلامی ملک نہیں بن سکا ہے“۔ انہوں نے مزید کہا اقبال نے آج کے پاکستان کا تصور نہیں دیا ہے کہ جہاں نواز شریف،عمران خان،بٹھو وغیرہ دھندناتے پھر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقبال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرفسے قائم کردہ مدینہ کی ”ویلفئیر اسٹیٹ“ کی طرح ایک ملک قائم کرنا چاہتے تھے جہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے حکمران ہوں کہ جو راتوں کے دوران گشت کرکے یہ پتہ لگاتے تھے کہ انکی سلطنت میں کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سورہا ہے یا کوئی پریشان حال تو نہیں ہے۔

اقبال نے آج کے پاکستان کا تصور نہیں دیا ہے کہ جہاں نواز شریف،عمران خان،بٹھو وغیرہ دھندناتے پھر رہے ہیں۔

صحرائی نے دو قومی نظریہ اور پاکستان کے وجود کی مخالفت کرنے والوں کی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ لا الاہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم اس ملک کے موجودہ نظام کی مخالفت تو کی جا سکتی ہے لیکن اس نظریہ کی مخالفت کرنا غلط ہے کیونکہ دو قومی نظریہ تب بھی صحیح تھا اور آج کے ہندوستان کے حالات بھی اسکے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔انہوں نے تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا حسین احمد مدنی (رح) کو کس طرح پاکستان کے وجود میں آنے سے کہیں قبل خواب میں غیبی بشارت ملی تھی جبکہ کئی بزرگوں نے خواب میں بانی پاکستان قائدِ اعظم جناح کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور کتنے ہی علماء کی معیت میں دیکھا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کام کرنے کیلئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے راضی ہیں۔

Exit mobile version