سرینگر// ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ انہوں نے ”ہر ایرے غیرے“کو نام نہاد اسٹیک ہولڈر بتائے جانے پر سخت اعتراض جتاتے ہوئے مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما پر واضح کردیا ہےکہ مسئلہ کشمیر کو کسی شارٹ کٹ سے نہیں بلکہ فقط رائے شماری سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے اور یہی ایک معزز اور معتبر طریقہ ہے کہ جس کے ذرئعہ مسئلہ کشمیر کو حتمی طور حل کیا جا سکتا ہے۔انجینئر رشید نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو لیکر کشمیریوں میں کسی طرح کا ابہام نہیں ہے بلکہ یہ نئی دلی ہے کہ جو اس مسئلے کے حوالے سے ابہام کا شکار دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نئی دلی کو یہ بات طے کر لینی چاہیئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر آمادہ ہوکر پورے جنوب ایشیائی خطہ میں امن کا ماحول بنانا چاہتی ہے یانہیں۔
میں نے مسٹر شرما سے یہ بھی کہا کہ ریاستی عوام کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ریاست میں مسنند ِاقتدار پر کون بیٹھا ہے بلکہ اگر خود حریت کانفرنس بھی مسئلہ کشمیر کے حل ہوئے بغیر حکومت بنائے تو ریاست کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔
مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما اپنے مشن کشمیر کے تحت وادی کے سہ روزہ دورے پر ہیں جسکے پہلے دن انہوں نے درجنوں وفود اور شخصیات کے ساتھ ملاقات کی ۔تاہم ان ”شخصیات“میں سے بیشتر کا نام و پتہ لوگوں نے پہلی بار سنا ہے۔ وادی میں قیام کے آج دوسرے دن تاہم دنیشور شرما نے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ممبر اسمبلی یوسف تاریگامی اور ممبر اسمبلی انجینئر رشید سے ملاقات کی۔ملاقات کے بعد نامہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اور پھر جاری کردہ ایک بیان میں انجینئر رشید نے کہا کہ انہوں نے شرما پر یہ بات واضح کردی ہے کہ جنگجو قیادت اور پاکستان سمیت سبھی متعلقین کو شامل کئے گئے کی جانے والی کوئی بھی بات چیت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔بیان کے مطابق انہوں نے مذاکرات کار سے کہا ہے کہ ہر ایرے غیرے کو نام نہاد اسٹیک ہولڈر بتاکر مسئلہ کشمیر کی نوعیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں افسوسناک اور نا قابل قبول ہیں۔
بیان میں درج ہے” کسی بھی سیاسی تنازعے کے متعلقین کے نکتہ ہائے نظر مختلف ہوتے ہیں لیکن فیصلہ تاریخی حقائق،عہدو پیمان اور سب سے بڑھکر عوام کی اکثریت کے جذبات و خواہشات کے مطابق ہونا چاہیئے۔ اس بات کو اصول مان کر مسئلہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو ہندوستان کا دشمن نہیں سمجھا جانا چاہیئے۔میں نے مسٹر شرما سے یہ بھی کہا کہ ریاستی عوام کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ریاست میں مسنند ِاقتدار پر کون بیٹھا ہے بلکہ اگر خود حریت کانفرنس بھی مسئلہ کشمیر کے حل ہوئے بغیر حکومت بنائے تو ریاست کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ اٹانومی کیلئے قربانیاں نہیں دیتے آرہے ہیں لہٰذا اٹانومی کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دینے والے بیوقوفوں کی جنت کے باسی ہیں“۔ انجینئر رشید نے،بقول انکے، اس بات کو واضح کردیا کہ جنگجو قیادت،پاکستان اور جموں کشمیر کی سیاسی قیادت کو شامل کرکے مسئلہ کشمیر کا حتمی حل نکالے جانے کے بغیر جموں کشمیر بلکہ پورے خطے میں قیام امن کا خواب تک نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔انہوں نے تاہم کہا کہ اس بات کیلئے بی جے پی اور کانگریسکا سنجیدہ ہوکر ایک مشترکہ نکتے پر جمع ہونا اور کشمیر کو ووٹ بنک کا مسئلہ بنانے سے احتراز کرنالازم ترین ضرورت ہے۔
جب سرکاری ایجنسیاں پر امن سیاسی سرگرمیوں پر روک لگانے کیلئے بے تحاشا طاقت استعمال کرنے کو معمول بناچکی ہوں تو پھرنئی دلی کے تئیں کشمیریوں کی بے گانگی اور سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں ظاہر کئے جانے والی مایوسی اور غصہ کیلئے کشمیریوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیئے۔
بیان کے مطابق انہوں نے دنیشور شرما سے اس بات،کہ نئی دلی کس طرح مسئلہ کشمیر کو حل کرنا چاہتی ہے اور وہ فریق مخالف کو کیا پیش کرنے پر آمادہ ہے، کی وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا ”اگر نئی دلی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق پر آمادہ ہے اور نہ سہ فریقی مذاکرات کیلئے راضی تو پھر یہ بھی بتادیا جانا چاہیئے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔نئی دلی کو یہ بات واضح کرنا ہوگی کہ اگر وہ ان دونوں باتوں کیلئے راضی نہیں ہے تو پھر اسکے پاس فریق مخالف کو پیش کرنے کیلئے کیا ہے“۔ممبر اسمبلی لنگیٹ نے کہا کہ اگر نئی دلی کو یہ لگتا ہے کہ اس نے 1947سے لیکر جموں کشمیر کے عوام کیلئے بہت کچھ کیا ہے اور اگر وہ واقعی ریاستی عوام کو اپنے لوگ کہنے اور ماننے میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے رائے شماری کرانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے۔
انہوں نے کہا ”لازمی نہیں ہے کہ رائے شماری کا مطالبہ کرنے والے فقط پاکستان ہی کا حصہ بننا چاہتے ہوں۔اگر نئی دلی واقعی کشمیریوں کو اپنا مانتی ہے اور اسے اپنے اس دعویٰ پر اعتماد ہے تو پھر اسے رائے شماری کرانے سے خوفزدہ ہوئے بغیر اس پر فوری طور تیار ہونا چاہیئے،ایسے میں تو پارلیمنٹ میں منظور کردہ اس قرارداد پر بھی عملدرآمد کا موقعہ مل سکتا ہے کہ جس میں جموں کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ قرار دیا جا چکا ہے“۔انجینئر رشید نے کہا کہ ریاست میں قیام امن کی سب سے زیادہ خواہش کشمیریوں کی ہے کہ جو خون خرابا کو بند ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں تاہم انکے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب سرکاری ایجنسیاں پر امن سیاسی سرگرمیوں پر روک لگانے کیلئے بے تحاشا طاقت استعمال کرنے کو معمول بناچکی ہوں تو پھرنئی دلی کے تئیں کشمیریوں کی بے گانگی اور سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں ظاہر کئے جانے والی مایوسی اور غصہ کیلئے کشمیریوں کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ نئی دلی کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ملی ٹینسی کو ختم کرنے کے بہانے اور نام نہاد قومی مفاد کے نام پر جموں کشمیر میں کی جانے والی ناپسندیدہ کارروائیاں اور شرارتیں کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوسکتی ہیں۔