مذاکرات کار تعینات نہ کرو ،سفارشات نافذ کرو:فاروق عبداللہ

سرینگر // وقت وقت پر مذاکرات کاروں کی تعیناتی کو کشمیریوں کیلئے ایک تلخ تجربہ بتاتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ نئے مذاکرات کاروں کی تعیناتی کی بجائے پُرانے لوگوں کی سفارشات کو روبہ عمل لائے جانے سے بہتر نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مذاکرات کاری کا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا ہے کہ جب تک نہ اس بارے میں سنجیدہ ہوا جائے۔ فاروق عبداللہ کے بیٹے عمر عبداللہ نے تاہم کہا ہے کہ نئے مذاکرات کار کی تعیناتی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نئی دلی کو با الآخر مسئلہ کشمیر کی ”سیاسی نوعیت“ کو تسلیم کرنا ہی پڑا ہے۔

عمرعبداللہ نے مرکزی سرکارکی پہل پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ آخر کار دلی والوں کو کشمیر مسئلے کی سیاسی نوعیت کااعتراف کرناپڑا۔سابق وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ کشمیرمسئلے کے سیاسی پہلویاسیاسی نوعیت کااعتراف اُن لوگوں کی واضح شکست ہے جوصرف طاقت کے استعمال کومسائل کے حل کاذریعہ مانتے آئے ہیں ۔

اقتدار میں آنے کے تین سال بعد بھاجپا کی مرکزی سرکار نے پیر کے روز جموں کشمیر میں جامع مذاکرات کی شروعات کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے خفیہ ایجنسی آئی بی کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو اپنا نمائندہ بناکر اُنہیں ”کسی کے ساتھ بھی“ مذاکرات کرکے ریاستی عوام کی ”خواہشات“ کو سمجھنے کا اختیار دیا ہے۔

عمرعبداللہ نے مرکزی سرکارکی پہل پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ آخر کار دلی والوں کو کشمیر مسئلے کی سیاسی نوعیت کااعتراف کرناپڑا۔سابق وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ کشمیرمسئلے کے سیاسی پہلویاسیاسی نوعیت کااعتراف اُن لوگوں کی واضح شکست ہے جوصرف طاقت کے استعمال کومسائل کے حل کاذریعہ مانتے آئے ہیں ۔عمر نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ مذاکرات کار کس نوعیت کی بات چیت کا آغاز کریں گے۔

ممبر پارلیمنٹ اور سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ انکی پارٹی قبل از وقت کوئی اُمید نہیں لگا سکتی۔انکا کہنا تھا کہ ماضی میں کئی مذاکرات کار نامزد کئے گئے،جن میں ریاست کے گورنر این این ووہرا بھی ایک ہیں ، اسکے علاوہ مذاکرات کاروں کے کئی گروپ بھی بنائے گئے، لیکن پھر کیا ہوا، کچھ نہیں، تمام سفارشات ردی کی ٹوکری کی نذر کردی گئیں۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ مذاکرات کاروں کی نامزدگی کشمیریوں کیلئے ایک تلخ تجربہ رہا ہے ، اس لئے ضرورت امر کی تھی کہ ماضی کی سفارشات کو لاگو کیا جاتا پھر نئے مذاکرات کار کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

یہ بھی پڑھیئے مودی کی جارحیت کو ہارنا ہی پڑا:پی چدمبرم

یہ بھی پڑھیئے ’متعلقین‘کے ساتھ مذاکرات کا نیا مشن لانچ!

 

Exit mobile version