ایک نوجوان بلکہ کمسن انجینئر اور دِل میں اُتر جانے کی صلاحیت رکھنے والے اسلامی کارکن رائف حماد ،جو معروف قلمکار اشرف حماد کے فرزندِ ارجمند تھے، کینسر کے موذی مرض کا شکار ہوکر کمسنی میں گذشتہ سال اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اُنکے پہلے یومِ وصال پر اشرف حماد صاحب نے شفقتِ پدری سے پُر اور جگر کو چیر دینے والا مضمون لکھا ہے جس میں رائف حماد کی اوصافِ حمیدہ کا تعارف دیا گیا ہے۔ تفصیلات انجینئر رائف کے تئیں خراجِ عقیدت کے بطور اس مضمون کو حماد صاحب کی اجازت کے بغیر معمولی کانٹ چھانٹ کے ساتھ شائع کر رہا ہے۔ اللہ حماد صاحب و دیگر متعلقین کو اس صدمہ عظیم کا سامنا کرنے کی سکت اور بہترین تعم البدل دے اور شہزادے کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے ۔۔۔ (مُدیرِ تفصیلات)
سلسلہ روز و شب کی اس نقش گہہ حادثات میں 14 اکتوبر 2017 کو ہمارے بڑے صاحبزادے ،رائف حماد ، کا یومِ وصال تھا۔ گذشتہ برس یعنی 14 اکتوبر، 2016 جمعہ کے روز ٹھیک ڈیڑھ بجے جب اکثر مسجدوں میں نمازِ جمعہ ادا کی جارہی تھی وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو پیارے ہوئے۔ میں بھی نماز ادا کرنے گیا تھا ۔۔۔۔ سلام پھیرتے ہی واپس آیا لیکن رائف بیٹا اپنے محبوب حقیقی سے واصل ہو رہے تھے۔ اس وصال میں مخل ہونے کا کسے یارا تھا،امانت داری کا یہ فریضہ انجام پذیر ہوچکا تھا۔
حالانکہ بیٹے رائف کو جینے کیلئے بہت کم زندگی ملی لیکن اس دوران وہ بھرپور جئے اور مختصر سی عمر میں اتنی اوصافِ حمیدہ کے مالک ہوئے کہ جنکے تفصیلی تذکرہ کیلئے ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ان میں تدبر، تفکر اور ذہانت و فطانت بدرجہ اتم موجود تھی اور بحیثیت مجموعی ان میں قیادت و سیادت کی جُملہ صفات موجود تھیں۔ مگر اللہ تبارک و تعالٰی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔ لہٰذا اللہ نے انہیں اپنے پاس ہی بلالیا۔
اکتوبر کی 11 تاریخ 1987 کو ہمارا رشتہ ازدواج انجام بخیر ہوا تھا۔ شادی کے بعد 4 سال تک ہمارے یہاں کوئی اولاد نہ ہوئی، اللہ کی مرضی تھی لیکن ہم بھی مایوس نہ ہوئے۔ ایسے میں ایک مختصر مدت کی سنتِ یوسفی کے دوران پوچھنے والوں نے دیگر باتوں کے علاوہ ہم سے استفسار کیا ’’تیرے کتنے بچے ہیں؟‘‘ ہم نے نفی میں جواب دیا تو دوسرے صاحب بولے، ”جلدی کیا ہے، آزادی ہوجائے گی تب بچے پیدا کرے گا‘‘! ان کا یہ طنز زہر آلود تھا جسے ہم نے بادلِ نخواستہ برداشت کیا تھا۔ یہ مئی 1990ٰء کا آخری ہفتہ تھا اور اللہ کرنا ایسا ہوا کہ آئیندہ سال ستمبر 1991کے پہلے ہفتہ میں ہمارے یہاں اللہ کے فضل و کرم سے بیٹا تولد ہوا۔۔۔۔۔۔ جی ہاں رائف حماد۔
ہم نے رائف حماد کا پہلے شرجیل حماد نام رکھا تھا لیکن بعد میں ہم نے مصر کے بڑے معروف اور جُراتمند دانشور احمد رائف کے نامِ نامی سے متاثر ہوکر شرجیل کی جگہ رائف نام پسند کیا۔ رائف بیٹے کی ابتدائی تعلیم محمدیہ انسٹی چیوشن شوپیان میں ہوئی لیکن مارچ 2000ء میں ہمیں ڈائریکٹوریٹ آف اسکول ایجوکیشن کے شعبہ ثقافت میں تعینات کیا گیا اس لیے ہم سرینگر میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا داخلہ ہم نے سکالرس سکول (نٹی پورہ) میں کرایا۔
رائف حماد ،اللہ کے فضل سے، شروع ہی سے ذہین ہی نہیں متین بھی تھے۔ یہاں تک کہ انہیں جاننے والے کہتے کہ یہ بزرگوں کی طرح باتیں کرتے ہیں۔ رائف تیسرے جماعت میں تھے اور ایک روز ہم سکالرس سکول سے جواہر نگر آرہے تھے یہاں فُٹ برج کراس کرتے ہی فورسز کا بنکر آتا تھا۔ جب ہم بنکر کے پاس پہنچے تو رائف بیٹے کی نظر سائن بورڈ پر پڑی جس پر ”بورڈر سیکیورٹی فورس“ تحریر تھا۔ انہوں نے فوراََ پوچھا: ”ابو حضور،اگر یہ بورڈر سکیورٹی فورس ہیں تو یہ بورڈر پر کیوں نہیں ہیں یہاں کیوں ہیں“ ہم لاجواب سے ہوگئے، جواب دیتے بھی تو کیا؟۔تیسری جماعت میں ہی ان کو سائنس کا پیریاڈک ٹیبل ازبر تھا اور قران پڑھنا بھی آتا تھا حالانکہ انکے ان اوصاف میں انکے اساتذہ کا بڑا رول تھا۔
اچھے نمبرات سے میٹرک پاس کرنے کی وجہ سے انہیں اقبال میموریل انسٹیچیوٹ میں بہ آسانی داخلہ ملا جہاں سے انہوں نے امتیازی نمبرات کے ساتھ بارہویں پاس کیا۔ ہم چاہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنے جبکہ وہ خود جرنلسٹ بننا چاہتے تھے ۔۔۔۔ قدرت مگر کچھ اور چاہتی تھی ۔انہوں نے اینٹرنس دیا لیکن انہی دنوں مزاحمتی تحریک تیز ہوچکی تھی جسکی وجہ سے ہم کچھ دنوں کیلئے شوپیاں میں اپنے آبائی گھر آگئے۔ چناچہ ہڑتال اس حد تک سخت اور طویل ہوگئی کہ کئی دنوں تک اخبار بھی دستیاب نہیں ہوسکا، بعد میں پتہ چلا انہیں ایم بی بی ایس میں نہیں بلکہ بی ایس سی فارسٹری میں نام آیا تھا لیکن سخت ہڑتال کی وجہ وہ یہ مِس کر گئے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ بایو ٹیکنالوجی میں بی ٹیک کرنے کیلئے جالندھر کی ” لولی پروفیشنل یونیورسٹی‘‘ میں انٹرنس دیا جسے انہوں نے نہ صرف پاس کیا بلکہ اپنی قابلیت کا ایسا لوہا منوایا کہ 30 ہزار روپے کا سالانہ وظیفہ بھی حاصل کرگئے۔ سردیوں میں ہم ان سے ملنے گئے اور دیکھا کہ دیگر ساتھیوں سمیت انہوں نے ایک ریٹائرڈ فوجی میجر کے یہاں ان کے گھر کی دوسری منزل کرائے پر لی ہے۔ میجر ایک قابل اور ہنس مکھ سردار تھے، انہوں نے رائف حماد کی بڑی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ’’رائف بیٹے اور ان کے ساتھی بڑے صالح ہیں اسی لئے ہم نے انہیں گھر میں جگہ دی ہے“۔ اللہ کے فضل سے وہ یہاں باجماعت نماز ادا کرتے اور ایک مقامی امام کے ساتھ ملکر انہوں نے وہاں ایک غیر آباد مسجد کو آباد کیا جہاں بعد میں جمعہ کی نماز باضابطہ ہوگئی۔ اس طرح وہ اپنی نصابی تعلیم میں بھی بڑے مستعد اور فعال رہے۔
وہ کشمیر کے ایک سرکردہ قائد کا ٹویٹر پر ایک پیج بھی چلاتے تھے جس کا ہمیں بعد میں علم ہوا۔ یہ الگ بات ہے علیٰحدگی پسند قائدین کو ان کی وفات پر دو بول کہنے کی توفیق بھی نہ ہوئی۔
2014 میں ساری وادئ کشمیر غرقاب ہوئی۔ حالاںکہ ہم خود سیلاب سے متاثر ہوئے تھے لیکن انہوں نے باقی سیلاب زدگان کی حالت دیکھ کر انکی مدد کرنا چاہی اور بڑے سرگرم رہے۔انہوں نے جالندھر سے کلورین کیمکل کی خاصی مقدار حاصل کرکے سرینگر میں امدادی اداروں کے سپرد کی جسکا انہوں نے مناسب مصرف کیا۔ ان کی رحلت کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کسی نجی ادارے کے فعال رکن تھے حالانکہ اس ادارے نے بعد میں ہم سے کوئی رابطہ نہ کیا۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے بھی سرگرم و فعال کار پرداز تھے۔
آپ متین و ذہین ہونے کے علاوہ سخت نفاست پسند تھے۔ اچھا پہناوا ان کی بچپن والی عادت تھی ۔صفائی و ندرت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ برینڈڈ کپڑے اور جوتے پہننے کا شوق رکھتے تھے۔ جمعہ کی نماز کے لیےقیمتی عطر استعمال کرتے تھے۔ کھانے میں بھی وہ نفاست پسند تھے، تیز اور مسالحہ دار کھانے ان کی کمزوری تھی ، لیکن بھاری بھر کھانے کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔ کبھی روکھی سوکھی پر بھی گذارہ کرتے تھے۔
طعام کی طرح کلام میں بھی نفاست پسندی کے قائل تھے۔ وہ بچپن سے کم گو تھے۔ کبھی فضول اور غیر ضروری باتیں نہیں کرتے تھے۔ دو کانوں سے سُنتے اور ایک دہان سے بولتےتھے۔ جب بولتے تھے تو ان کے کلام میں غضب کا ربط اور جواز ہوتاتھا۔مخالف کو قائل کرنے میں انہیں بہت کمال حاصل تھا۔ جب بولتے تھے تو مسکراہٹ آپ کے لبوں پر رقصان ہوتی تھی۔ ہر بات کا جواب خندہ پیشانی سے دیتے تھے شائد اسی لئے سامنے والا متاثر ہوتا تھا بلکہ خطرناک مخالف تک ان کا قائل ہوتا تھا۔ وہ پُرنخوت یا متکبر نہیں تھے، وہ مطالعہ کے بھی بہت رسیا تھے۔ نصابی کتابوں کے علاوہ غیر نصابی کتابیں بھی تواتر سے پڑھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نویں اور دسویں جماعت میں انہوں نے ترکی کے معروف اسلامی مصنف و مفکر ہارون یحییٰ کی بیشتر کتابیں مطالعہ کی تھیں۔ بعد میں انہوں نے مولانا مودودیؒ، سید قطب، محمد قطب، یوسف القرضاوی، نوم چومسکی، ایڈورڈ سیاد، الیسٹر لیمب وغیرہ کی کُتب کا مطالعہ کیا۔ لولی پروفیشنل یونیورسٹی میں رہنے کے دوران انہوں نے تفہیم القران اور سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القران اور محمد اسد کی تفسیر مسیج آف قران کا باضابطہ مطالعہ کیا۔ مجھے بھی سید قطب کی ڈاون لوڈ شدہ انگریزی تفسیر دی۔
مذہبی اور فلسفیانہ کُتب کے علاوہ آپ نے کشمیر کی تاریخ اور معاصر لٹریچر کا بھی بھر پور مطالعہ کیا اور پورے کشمیر کانفلیکٹ پر علمی طور دسترس حاصل کی۔ یہی وجہ ہے ان میں یک گونہ تدبر و تفکر پیدا ہوا۔ وہ میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا، پر انتہائی سرگرم تھے۔ تحریکِ کشمیر کے بھی دل سے حمایتی تھے۔ وہ کشمیر کے ایک سرکردہ قائد کا ٹویٹر پر ایک پیج بھی چلاتے تھے جس کا ہمیں بعد میں علم ہوا۔ یہ الگ بات ہے علیٰحدگی پسند قائدین کو ان کی وفات پر دو بول کہنے کی توفیق بھی نہ ہوئی۔
حالانکہ بیٹے رائف کو جینے کیلئے بہت کم زندگی ملی لیکن اس دوران وہ بھرپور جئے اور مختصر سی عمر میں اتنی اوصافِ حمیدہ کے مالک ہوئے کہ جنکے تفصیلی تذکرہ کیلئے ایک ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ان میں تدبر، تفکر اور ذہانت و فطانت بدرجہ اتم موجود تھی اور بحیثیت مجموعی ان میں قیادت و سیادت کی جُملہ صفات موجود تھیں۔ مگر اللہ تبارک و تعالٰی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔۔ لہٰذا اللہ نے انہیں اپنے پاس ہی بلالیا۔
لگ بھگ 4 سال سے زائد عرصہ یونیورسٹی میں گزار کر وہ اگست 2015 میں بی ٹیک مکمل کرکے گھر واپس آئے اور آتے ہی انہوں نے ایک سعادت مند بیٹے کی طرح گھر کے معاملات میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا، افسوس یہ سب جلد ہی ایک سراب ثابت ہوگیا۔ صرف 3 مہینے کے بعد انہیں گلے کی تکلیف لاحق ہوئی۔ ورم کی کیفیت ظاہر ہوئی اور وہ سرینگر میں ایک ڈاکٹر کے پاس گئے۔ انہوں ضروی متعلقہ ٹیسٹ تجویز کئے جو غیر متوقع طور انتہائی دھماکہ خیز ثابت ہوئے ۔ جی ہاں ، ان کو سرطان جیسا مانسٹر مرض لاحق ہوگیا تھا جونہ صرف انکے یا گھروالوں کے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے اعصاب شکن اور حوصلہ شکن تھا۔
شہر سے واپسی کے بعد وہ گھر آنے کی بجائے نانیہال چلے گئے ،اگلے روز جب ہم ان کے پاس گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہے کہ ان کے حوصلہ میں ذرہ بھر تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ہم نے معاملہ اللہ کے سپرد کیا تھا، لہذٰا ہم نے ان سے کہا کہ وہ گھبرا تو نہیں گئے ہیں، موت کے فیصلے تو آسمانوں میں ہوتے ہیں زمین پر نہیں! آپ نے جواب میں حسبِ عادت دل آویز مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا” نہیں ابو حضور، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں گھبراوں، آپ اطمینان رکھیں“۔ بقول علامہ اقبال رح
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھا یا کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی !
رائف حماد اس سے قبل خاصے صحت مند تھے، ان کو معمولی موسمی بخار بھی کبھی چھو کر نہیں گذرا تھا۔ بچپن میں کبھی کبھار ان کی طبیعت بگڑ جاتی تھی لیکن ٹھیک ہو جاتے تھے۔ لڑکپن اور جوانی میں یہ معمولی چیزیں بھی نہ ہوئی تھیں صرف ایک بار یونیورسٹی ہاسٹل میں غیر معیاری غذا کی وجہ سے ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے اقامت تبدیل کی اور پھر ایسی نوبت کبھی نہ آئی۔البتہ بی ٹیک مکمل کرنے کے بعد جب وہ گھر آئے تو تین ماہ کے بعد ہی ان کے گلے میں سوجن پیدا ہوئی جو آناََفاناً سرطان کے موذی مرض کا دھماکہ خیز اور المناک اعلان ثابت ہوئی۔ اس ہیبت ناک اعلان سے ہم سب جیسے سکتے میں آ گئے تھے لیکن معاملہ اللہ کو سُپرد کرکے ہم (میں، ان والدہ ماجدہ، ان کے ماموں جان خورشید احمد، ممانی حسینہ جی اور انکا بیٹا عثمان خورشید) تیسرے روز دہلی کے ایک معروف انکالوجی اسپتال میں تھے۔
علاج و معالجہ اگلے روز ہی شروع ہوا جو خود مرض کی ہی طرح لمبا چوڑا اور سخت صبر آزما اور حوصلہ آزما تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ پر انتہائی زبردست امید تھی۔ اس لئے ہم نے کسی بھی صورت میں حوصلہ نہ ہارا۔خود رائف بیٹے کا ایمان و ایقان واقعی قابل دید تھا۔ کینسر کی طرح اس کا ٹریٹ مینٹ بھی انتہائی صبر آزما اور اعصاب شکن ہوتا ہے لیکن کیا مجال کہ رائف نے کبھی اُف کیا ہو، شکوہ کیا ہو، حوصلہ ہارا ہو، تیزی کی ہو یا جذبات کا ہیجانی اظہار کیا ہو۔
علاج و معالجہ جنوری سے مارچ تک چلا اور ٹیسٹ ٹھیک بھی آئے۔ پھر ہم ایک مہینہ جموں میں رہے۔ یہاں پہلے ریڈیو تھرپی کا صبر آزما دور چلا اور پھر کیمو تھرپی کا بھی ایسا ہی دور چلا۔ بہر طور یہ کٹھن اور طویل دور بھی مکمل ہوا اور ضروری ٹیسٹ ہوئے جو ٹھیک آئے اور ہماری امیدیں قوی ہوتی گئیں۔پھر ڈاکٹروں کے مشورے سے ہم گھر آگئے کیونکہ ان کے بقول رائف صحت یاب ہورہے تھے البتہ ہمیں تین ماہ بعد چیک اپ کیلئے پھر حاضری دینے کی ہدایت دی گئی تھی۔
حالانکہ معروف کشمیری نژاد انگریزی شاعر ،اور خود کینسر کے ویکٹم ،آغا شاہد نے اس عارضہ کو ’’نصف اِنچ ہمالہ(ہاف اِنچ ہمالہ)‘‘ کہا ہے لیکن رائف بیٹے نے اس نصف اِنچ عارضہ کے لیے بلا کسی مبالغہ کے پورے کوہِ ہمالہ سے بھی بلند صبر کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ معمولی سردرد ہونے پر بھی اچھے اچھوں کا توازن بگڑ جاتا ہے مگر اس موقعہ پر بھی وہ قنوطیت و حوصلہ شکنی کے شکار نہ ہوئے۔
یہ عرصہ گھر پر گذار کر ہم چیک اپ کے لیے دہلی چلے گئے۔ڈاکٹروں نے ایم آر کرایا جسکی رپورٹ پریشان کُن تھی۔ ڈاکٹروں نے ”پئٹ سکین“ کرنے کو کہا۔رپورٹ آئی تو حسبِ معمول رائف صاحب نے دیکھی ، کیونکہ روز اول سے وہ پہلے خود ٹیسٹ ملاحظہ کرتے تھے پھر ہماری جانب بڑھاتے تھے، آپ نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا ورنہ ہر بار صبر کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس بار ہم نے دیکھا کہ انہوں نے سرد آہ بھری اور بس۔ کوئی شکوہ نہیں اور کوئی رونا دھونا نہیں، وہ واقعی صبر وعزیمت کا ہمالیہ تھے۔ حالانکہ معروف کشمیری نژاد انگریزی شاعر ،اور خود کینسر کے ویکٹم ،آغا شاہد نے اس عارضہ کو ’’نصف اِنچ ہمالہ(ہاف اِنچ ہمالہ)‘‘ کہا ہے لیکن رائف بیٹے نے اس نصف اِنچ عارضہ کے لیے بلا کسی مبالغہ کے پورے کوہِ ہمالہ سے بھی بلند صبر کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ معمولی سردرد ہونے پر بھی اچھے اچھوں کا توازن بگڑ جاتا ہے مگر اس موقعہ پر بھی وہ قنوطیت و حوصلہ شکنی کے شکار نہ ہوئے۔
اس کے بعد پھرعلاج چلا مگر یہ لاحاصل عمل ثابت ہوا۔ وہ روز بروز نحیف و لاغر ہوتے گئے۔ مرض میں تفاوت کی بجاے اضافہ ہوتا چلا گیا حالانکہ لیکن نہ انہوں نے امید کا دامن چھوڑا اور نہ ہم نے۔ موت کا مگر کوئی کیا علاج کرے وہ اپنے وقت پر ایک ساعت کی ہیر پھیر کے بغیر آ ہی جاتی ہے۔
رائف بیٹے کی موت غیر متوقع تھی اور اتنا ہی غیر متوقع انکا صبرو ثبات اور ایمان و اطمینان کا مظاہرہ بھی تھا۔ ورنہ آجکل کے دور میں اتنی سی عمر کے بچوں سے اتنی زیادہ صفات کا مظاہرہ متوقع نہیں ہے۔وہ صبر سکون سے، ہم سے باتیں کرتے ہوئے اور محبوب حقیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مالکِ حقیقی سے ملے۔ مہینوں پر محیط درد و کرب اور علاج و معالجہ کے بعد رائف بیٹے کی روح نے عین نمازِ جمعہ کے وقت یوں پرواز کیا کہ ہم دیکھتے بھی رہے اور ایک طرح سے انجان بھی۔ چناچہ ہم بھی جمعہ کی نماز کیلئے گئے تھے ۔۔۔۔ سلام پھیرتے ہی واپس آئے لیکن رائف بیٹا اپنے محبوب حقیقی سے واصل ہو رہے تھے۔ اس وصال میں مخل ہونے کا کسے یارا تھا،امانت داری کا یہ فریضہ انجام پذیر ہوچکا تھا اور ہماری دُنیا گویا خالی ہوچکی تھی۔
ان کی عزیمت، توکل براللہ، برداشت، ایمان و ایقان اور اللہ پر کامل بھروسہ لا مثال و لا جواب تھا۔ وہ صبرِ جمیل کے پیکرِ جمیل تھے،استقامت کے رجلِ جلیل تھے۔ وہ عزم و جُرأت اور ہمت واستقلال کے بطلِ جلیل تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس نشیط مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
ہر واقعہ جسے انسان خیر یا شر سمجھتا ہے، زمین پر واقع ہوتا ہے۔ اور انسانوں کی زندگیوں میں وہ پیش آتا ہے، یہ اللہ کی کتاب میں ثبت ہے۔ اس حقیقت کا فائدہ یہ ہے کہ ایک انسان جسے اس دنیا کے واقعات پر خوشی ہوتی ہے یا پریشانی ہوتی ہے، وہ اسے من جانب اللہ سمجھے۔ اور اس دنیا میں سکون و اطمینان سے زندگی بسر کرے۔ اگر کوئی ناگوار چیز دیکھے تو حسرتوں سے اپنے آپ کو فنا نہ کردے اور اگر کوئی فرحت بخش واقعہ دیکھے تو آپے سے باہر نہ ھو جائے اور یہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر اللہ قران میں فرماتے بھی ہیں’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل اور دل لگی اور ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تمہارا اپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بارش ہوگئی تو اس سے پیدا ہونی والی نباتات کو دیکھ کر کاشت کار خوش ہو گئے۔ پھر وہی کھیتی پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہو گئی۔ پھر وہ بھس بن کررہ جاتی ہے۔ اس کے برعکس آخرت وہ جگہ ہے جہاں سخت عذاب ہے اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے۔یہ دنیا کی زندگی ایک مکر و فریب کے نیتٹ ورک کے سوا کچھ نہیں۔ دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے اللہ چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ کوئی ایسی مصیبت نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہواور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے کتاب یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔‘‘(، الحدید، 19- (23