کشمیری خواتین خود اپنے بال کاٹیں،آئی اے ایس افسر کا مشورہ

تصویر رویدا سلام کے فیس بُک سے لی گئی ہے

سرینگر// اسوقت جب وادی کشمیر میں خواتین کے بال کاٹے جانے کے پُراسرار سلسلہ نے خوف و دہشت مچارکھی ہے ایک خاتون آئی اے ایس افسر نے سبھی خواتین کو خود ہی بال کاٹ دینے کا مشورہ دیا ہے۔ اُنکے اس اظہارِ خیال سے تاہم انٹرنیٹ پر آگ سی لگی ہے اور اُنہیں تنقید کا سامنا ہے۔

رویدا سلام انکم ٹیکس محکمہ(جموں) کی اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔وادی میں خواتین کی زُلف تراشی کے خوفناک سلسلہ پر اُنہوں نے ایک متنازعہ بیان دیتے ہوئے اپنی فیس بُک وال پر لکھا ہے’’کشمیری خواتین کو  میرا مخلصانہ مشورہ ہے،قنچی اُٹھاو اور، اس سے پہلے کہ چوٹی کاٹنے والا ہونے کے شک میں کسی کو مارا جائے یا زندہ جلادیا جائے،اپنی چوٹیاں کاٹ ڈالو۔ میں دونوں،لمبے اور چھوٹے،بالوں کے ساتھ رہی ہوں اور میرا بھروسہ کرو کہ اس سے آپکے عورت ہونے/نسوانیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے“۔

’’آج خواتین کے بال کاٹے جارہے ہیں تو اس عورت نے سبھی خواتین کو بال کاٹنے کا بیہودہ مشورہ دیا ہے ،فرض کریں کہ کل کو کوئی عورتوں کے کپڑے پھاڑنے لگے تو کیا یہ سبھی خواتین کو ننگا نکلنے کیلئے کہیں گی“۔

رویدا،جو خود بھی ایک عورت ہیں،کا یہ فیس بُک پوسٹ انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکا ہے اور سینکڑوں مرتبہ لائیک اور شئیر کئے جاچکے اُنکے اس مشورے پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ اس پر تبصرہ کرنے والوں نے اسے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا ہے اور اسے مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ کئی لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چونکہ اسلام میں عورتوں کی زُلف تراشی حرام ہے لہٰذا رویدا سلام نے ایک طرح سے مذہب کی توہین کی ہے ۔ ایک شخص نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے ’’آج خواتین کے بال کاٹے جارہے ہیں تو اس عورت نے سبھی خواتین کو بال کاٹنے کا بیہودہ مشورہ دیا ہے ،فرض کریں کہ کل کو کوئی عورتوں کے کپڑے پھاڑنے لگے تو کیا یہ سبھی خواتین کو ننگا نکلنے کیلئے کہیں گی“۔ کئی لوگوں نے اس مشورے کو کسی شخصیت کی بجائے حکومتِ ہند کے ایک افسر کے بیان کی طرح دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بہ الفاظِ دیگر زُلف تراشی کے جرم کو قبول کرنے لگی ہے۔

آئی اے ایس افسر نے یہ،مفت کا، مشورایسے وقت پر دیا ہے کہ جب وادی کا مسلم اکثریتی سماج چوٹیاں کاٹے جانے کے پُراسرار سلسلہ سے خوف و دہشت میں مبتلا ہے اور اس کے خلاف ہڑتال پر ہے۔ زائد از ڈیڑھ ماہ سے جاری اس پُراسرار سلسلے کے تحت ابھی تک زائد از ایک سو خواتین کو نشانہ بنایا جاچکا ہے جبکہ پولس کے  اس معمے کو حل کرنے میں خود کو معذور بتانے کی وجہ سے پوری وادی میں خوف و حراس کا عالم یہ ہے کہ لوگوں کی نیند حرام ہوچکی ہے۔ پولس نے شکایت کُنندہ خواتین کی اکثریت کو نفسیاتی مریض قرار دیکر، وضاحتاََ نہ سہی،اشارتاََ یہ کہنا چاہا ہے کہ چوٹی کاٹے جانے کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ سب محض ایک افواہ ہے حالانکہ سرینگر میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیاتی امراض نے کئی متاثرہ خواتین کا ملاحظہ کرنے کے بعد اس کہانی کو ماننے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان خواتین کے بال واقعتاََ کاٹے جاچکے ہیں۔

پولس نے شکایت کُنندہ خواتین کی اکثریت کو نفسیاتی مریض قرار دیکر، وضاحتاََ نہ سہی،اشارتاََ یہ کہنا چاہا ہے کہ چوٹی کاٹے جانے کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ سب محض ایک افواہ ہے حالانکہ سرینگر میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیاتی امراض نے کئی متاثرہ خواتین کا ملاحظہ کرنے کے بعد اس کہانی کو ماننے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان خواتین کے بال واقعتاََ کاٹے جاچکے ہیں۔

رویدا سلام نے اُنکے ’’مخلصانہ مشورے“ پر جاری بحث کا جواب دیتے ہوئے تاہم پولس کی ہی طرح اس پورے معاملے پر نہ صرف شک ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ انہوں نے دہراتے ہوئے کہا ہے کہ انکا مشورہ ہی بہترین علاج ہے۔ انہوں نے لکھا ہے’’(چوٹیاں کاٹے جانے کے بارے میں) کچھ بھی ثابت نہیں ہوا ہے اور اگر عورتیں اپنی حفاظت کو لیکر فکر مند ہیں بھی تو پھر بہترین احتیاط یہی ہے کہ جو میں نے تجویز کیا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ سر بھی ڈھانپ لیا جائے،یہ سب حملوں ،اگر کوئی ہوا بھی ہے تو،کا احتجاج بھی ہوسکتا ہے“۔

 

Exit mobile version