نامعلوم افراد کا چوٹیاں کاٹنا اور معلوم افراد کا ایکدوسرے کو پیٹنا جاری

سرینگر/ سوپور// وادی کشمیر میں خواتین کی چوٹیاں کاٹے جانے کے پر اسرار سلسلہ نے جہاں خوف و حراس پھیلا رکھا ہے وہیں افراتفری کے عالم میں معصوم لوگوں کو شک کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔شمالی کشمیر کے سوپور میں آج ایک مشتعل بھیڑ نے ایک نوجوانپر ،جسے پولس نے دماغی مریض قرار دیا ہے،شک کرکے انکی شدید مارپیٹ اور زندہ جلادینے کی کوشش کی جبکہ سرینگر کے حضرتبل علاقہ میں اسی طرح ایک پولس اہلکار کو ڈلجھیل میں ڈبو دئے جانے سے بمشکل بچالیا گیا۔

پولس کا کہنا ہے کہ مذکورہ اہلکار جنوبی کشمیر کے رہائشی ہیں اور وہ درگاہ کے بغل میں واقع کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم اپنے بھائی سے ملنے آئے تھے اور جب وہ نماز پڑھنے اور ٹہلنے کیلئے درگاہ کی جانب نکلے تو یہاں کے لوگوں نے ان پر شک کیا اور انکی اس حد تک مارپیٹ کی کہ وہ قریب المرگ ہوگئے۔

عینی شاہدین نے پولس کے اس دعویٰ کی تصدیق کی ہے کہ وسیم احمد تانترے نامی ایک شخص کو شمالی کشمیر کے سوپور میں ایک مشتعل بھیڑ نے گھیر لیا اور انہیں خواتین کے بال کاٹنے والا سمجھ کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہوچکی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وسیم کو سینکڑوں لوگوں نے گھیرا ہوا ہے اور درجنوں لوگ ان پر لاتوں اور گھونسوں کی بوچھاڑ کررہے ہیں جبکہ وہ خون میں لت پت اپنا بچاو¿ کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں۔یہاں کے ایس ایس پی ہرمیت سنگھ نے بتایا کہ سوپور کی فروٹ منڈی کے قریب چھ یا سات سو لوگوں کی بھیڑ نے ان نوجوان کو گھیر کر انکی شدید مارپیٹ کی اور وہ انہیں زندہ جلانے کی کوشش کررہے تھے کہ جب پولس نے آکر مذخورہ کو بچالیا۔ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ مذکورہ شخص کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور مشتعل ہجوم ان پر خواتین کے بال کاٹے جانے کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام لگارہا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کو لیکر باضابطہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور بھیڑ میں شامل رہے لوگوں کی شناخت کی جارہی ہے جنہیں جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔

سرینگر کے درگاہ حضرتبل میں اسی طرح کے ایک واقعہ میں لوگوں نے ایک پولس اہلکار کو تب دبوچ لیا کہ جب وہ،پولس کے مطابق،درگاہ میں نماز پڑھنے کیلئے حاضر ہوئے تھے۔پولس کا کہنا ہے کہ مذکورہ اہلکار جنوبی کشمیر کے رہائشی ہیں اور وہ درگاہ کے بغل میں واقع کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم اپنے بھائی سے ملنے آئے تھے اور جب وہ نماز پڑھنے اور ٹہلنے کیلئے درگاہ کی جانب نکلے تو یہاں کے لوگوں نے ان پر شک کیا اور انکی اس حد تک مارپیٹ کی کہ وہ قریب المرگ ہوگئے۔بتایا جاتا ہے کہ لوگ مذکورہ کو ڈل جھیل میں ڈبونے کی کوشش کررہے تھے کہ پولس نے آکر انہیں بچالیا۔حضرتبل علاقہ میں اس سے پہلے کئی خواتین کو شکار بنایا گیا تھا اور لوگ احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔

آج جمعہ کیلئے علیٰحدگی پسند قیادت نے اسی سلسلے میں احتجاجی مظاہرے کرنے کی کال دی ہوئی تھی جسکے ردعمل میں انتظامیہ نے سرینگر شہر کے پائین علاقہ میں کرفیو جیسی بندشیں نافذ کردی تھیں۔

3ستمبر کو جنوبی کشمیر کے کوکرناگ میں ایک دوشیزہ کی چوٹی کاٹے جانے کے بعد سے یہ پر اسرار سلسلہ پوری وادی میں پھیل گیا ہے اور ابھی تک زائد از ایک سو خواتین نے انکے بال کاٹے جانے کی شکایت کی ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ اسے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے لہٰذا وہ ”تحقیقات“میں مصروف ہونے کے باوجود بھی اس حیرانکن جرم کا راز فاش نہیں کرسکی ہے۔چناچہ وادی بھر میں زبردست خوف و حراس اور افراتفری کا عالم ہے۔آج جمعہ کیلئے علیٰحدگی پسند قیادت نے اسی سلسلے میں احتجاجی مظاہرے کرنے کی کال دی ہوئی تھی جسکے ردعمل میں انتظامیہ نے سرینگر شہر کے پائین علاقہ میں کرفیو جیسی بندشیں نافذ کردی تھیں۔علیٰحدگی پسند قیادت نے اب سنیچر کیلئے کشمیر بند کی کال دی ہے جبکہ اس سے قبل بھی خواتین کو حراساں کئے جانے کے خلاف وادی میں علیٰحدگی پسندوں کی کال پر ہڑتال رہی ہے۔

 

Exit mobile version