سرینگر//(وسیم خالد) وادی میں خواتین کی چوٹیاں کاٹے جانے کے پُراسرار سلسلہ کے 45دن گذر جانے کے باوجود بھی پولس کو مجرموں کے بارے میں کوئی سُراغ نہ مل پانے کی وجہ سے پوری وادی میں بے چینی اور خوف و حراس کی لہر تیز سے تیز تر ہورہی ہے۔پولس کے مطابق اسے ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں ہو سکا ہے کہ دن دہاڑے ہورہے اس جُرم کا مقصد کیا ہے اور اسکے پیچھے کونسے ہاتھ کارفرما ہیں جبکہ پکڑے جانے یا جوابدہی کے ڈر سے عاری مجرموں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے اور وہ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ نئی حدود تک بڑھاتے ہی جا رہے ہیں۔
ریاست میں پولس کے چیف ایس پی وید نے کشمیر ریڈر کو بتایا”ہمیں ابھی تک چوٹیاں کاٹنے والوں کے بارے میں کوئی سُراغ نہیں مل سکا ہے،لہٰذا ہم ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کر سکے ہیں“۔اُنہوں نے کہا کہ پولس کو اصل واقعات سے زیادہ جھوٹی خبریں پہنچائی جارہی ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی بھی بھیڑ کی جانب سے پکڑے جانے والے کسی بھی شخص پر الزام لگاکر اُنہیں چوٹی کاٹنے والا مان کر بند کردے۔
”ایک خاتون کے بال اُسکی عزت ہیں۔پھر آپ کو پتہ ہی ہے کہ خواتین کے بال کاٹنا ہمارے یہاں کتنا حساس معاملہ ہے بلکہ یہ تو بے عزتی والا کام مانا جاتا ہے،لہٰذا یہ سب نا قابلِ برداشت ہے۔آخر پولس کب تک اور کس طرح ان مجرموں کے سامنے اس حد تک بے بس ہوسکتی ہے؟‘‘۔
خواتین کی چوٹیاں کاٹے جانے کا پُراسرار سلسلہ اب ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے اور اسکی وجہ سے پوری وادی میں خوف و حراس کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔اس طرح کا پہلا واقعہ 3ستمبر کو جنوبی کشمیر کے کوکرناگ سے رپورٹ ہوا تھا اور تب سے مختلف علاقوں میں اس طرح کے درجنوں واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں پولس چیف کا کہنا ہے کہ کئی خواتین کے بال واقعتاََ کاٹے جاچکے ہیں لیکن کئی افواہیں بھی اُڑائی جا رہی ہیں۔اُنکا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات جاری ہے اور جب تک نہ اس معاملے میں کوئی ٹھوس پیشرفت ہوجائے حتمی طور کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔اُنکا کہنا ہے کہ پولس نے ابھی تک (بال کاٹے جانے کے)110 معاملات درج کئے ہیں جن میں سے ستر فیصد ایف آئی آرپولس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے درج کئے ہیں جبکہ بقیہ تیس فیصد معاملات شکایت کنندگان کی درخواست پر درج کئے جا چکے ہیں۔حالانکہ اس سے قبل پولس کا کہنا تھا کہ ابھی تک کوئی بھی متاثرہ خاتون یا اُسکے رشتہ دار شکایت لیکر سامنے نہیں آئے ہیں اور یہ کہ پولس کے ساتھ تعاون نہیں کیا جا رہا ہے۔
چناچہ اس پُراسرار سلسلہ کے جاری رہنے کی وجہ سے وادی میں خوف و حراس کا عالم یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی بستیوں میں شبانہ گشت کرنا شروع کیا ہے جبکہ بیشتر خواتین نے خود کو اپنے گھروں کی چہار دیواری تک محدود کیا ہوا ہے ۔پولس کی جانب سے بار بار ”بے بسی“کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے کئی جگہوں پر لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر سیاحوں،مزدوروں،بھکاریوں اور دیگراں پر شک کرکے بال کاٹنے والے ہونے کے الزام میں انکی درگت بنادی ہے۔اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف بیشتر غیر ریاستی مزدور وغیرہ وادی سے ہنگامی طور فرار ہورہے ہیں تو دوسری جانب بھکاریوں تک نے گھروں کے دروازوں پر دستک دینے سے احتراز کیا ہوا ہے تاکہ اُنہیں کہیں بال کاٹنے والا سمجھ کر لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
”ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں فقط افواہیں اُڑی ہوں ،جیسا کہ فتح کدل میں ہوا تھا،لیکن بہت سارے معاملات واقعتاََ پیش آچکے ہیں اسلئے پولس اسے ساری چیز کو لیکر نفسیاتی بیماری کی کہانی کے ڈھال کے پیچھے نہیں چھُپ سکتی ہے“۔
پولس کی جانب سے مکرر اپنی بے بسی کا اظہار کئے جانے کی وجہ سے اس فورس کی اعتباریت پر بڑی چوٹ پڑ رہی ہے اور اسکے متعلق سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔خود کئی خواتین کا سوال ہے کہ اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی پولس اس پورے معاملے سے اس حد تک کیسے بے خبر ہوسکتی ہے اور وہ کس طرح ،یہ کہکر کہ اُنہیں کوئی سُراغ نہیں مل سکا ہے، اپنا پلو جھاڑ سکتی ہے؟۔جیسا کہ ایک خاتون کا کہنا ہے”پولس ابھی تک کچھ کیوں نہیں کر پائی ہے؟یا وہ صرف سنگبازوں اور جنگجووں کا ہی پتہ لگاسکتی ہے“۔اُنکا کہنا ہے”ایک خاتون کے بال اُسکی عزت ہیں۔پھر آپ کو پتہ ہی ہے کہ خواتین کے بال کاٹنا ہمارے یہاں کتنا حساس معاملہ ہے بلکہ یہ تو بے عزتی والا کام مانا جاتا ہے،لہٰذا یہ سب نا قابلِ برداشت ہے۔آخر پولس کب تک اور کس طرح ان مجرموں کے سامنے اس حد تک بے بس ہوسکتی ہے؟‘‘۔ایک سوال کے جواب میں اس 27سالہ خاتون کا کہنا تھا”ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ کہیں فقط افواہیں اُڑی ہوں ،جیسا کہ فتح کدل میں ہوا تھا،لیکن بہت سارے معاملات واقعتاََ پیش آچکے ہیں اسلئے پولس اسے ساری چیز کو لیکر نفسیاتی بیماری کی کہانی کے ڈھال کے پیچھے نہیں چھُپ سکتی ہے“۔اُنکا مزید کہنا ہے”اگر پولس ہماری عزت کو نہیں بچاسکتی ہے تو صاف کہے،ہم خود اپنی حفاظت کرسکتے ہیں اور ایسا ہم کر بھی رہے ہیں۔(بشکریہ کشمیر ریڈر)
یہ بھی پڑھیئے چوٹیاں کاٹنے والوں کا سُراغ مل سکا نہ اُنکے مقصد کا پتہ:پولس