شوپیاں/پلوامہ// پلوامہ کے لتر گاو¿ں میں فوج اور دیگر سرکاری فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے لشکر کمانڈر وسیم شاہ عرف اُسامہ اور اُنکے ساتھی ناصر میر کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کیلئے دونوں کے آبائی علاقوں میں سوگواروں کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ہزاروں لوگوں نے دونوں کی کئی کئی بار نمازِ جنازہ پڑھی اور اُنہیں انتہائی جذباتی ماحول میں نم آنکھوں کے ساتھ لحد میں اُتارا۔وسیم شاہ اور اُنکے ساتھی سنیچر کی صبح کو لتر میں اُسوقت جاں بحق ہوگئے تھے کہ جب فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے اُنکی کمین گاہ بنے ہوئے ایک گھر پر چھاپہ مارا اور پھر جانبین میں جھڑپ ہوگئی۔
وسیم شاہ شوپیاں کیلئے لشکرِ طیبہ کے ضلع کمانڈر تھے اور وہ پورے جنوبی کشمیر میں خاصے مشہور تھے جبکہ حزب المجاہدین کے آئیکانک کمانڈر بُرہان وانی کے ساتھ اُنکی کئی تصاویر پہلے ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہیں۔ چناچہ اُنکے محاصرے میں پھنس جانے کی خبر پاتے ہی آس پڑوس کے ہزاروں لوگ اُنہیں فرار ہونے میں مدد دینے کیلئے احتجاجی مظاہرے کرنے لگے تھے لیکن سرکاری فورسز نے ان مظاہرین میں سے ایک کو جاں بحق اور درجنوں کو زخمی کرکے انکی کوششیں ناکام بنادیں۔
وسیم شاہ کے جسدِ خاکی کو اُنکے آبائی گاوں،ہف شوپیاں،پہنچایا گیا تو یہاں پہلے ہی ہزاروں لوگ جمع ہوچکے تھے اور یہاں کے ایک میدان میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔جونہی وسیم کے جسدِ خاکی کو یہاں پہنچایا گیا تو منتظر سوگوار انتہائی جذباتی ہوگئے اور اُنہوں نے گویا وجد میں آکر ”بھارت کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کیلئے“زبردست نعرہ بازی کی۔اس موقعہ پرکچھ دیر کیلئے تب ایک غیر معمولی صورتحال پیدا ہوگئی کہ جب بعض جذباتی نوجوانوں نے حزب المجاہدین کے باغی اور خود کو القائدہ سے منسلک بتانے والے ذاکر موسیٰ کے حق میں نعرہ بازی کی اور وسیم شاہ کے والد غلام محمد نے اُنہیں ایسا کرنے سے منع کیا۔اُنہوں نے کہا”ہم فقط حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ کو جانتے ہیں ہمیںنہیں معلوم ذاکر موسیٰ کون اور کیا ہے لہٰذا اُنکے حق میں یہاں نعرہ بازی نہ کی جائے“۔چناچہ لوگوں کی بھاری تعداد اور اُنکے دیر تک آتے رہنے کی وجہ سے وسیم کا کم از کم سات مرتبہ جنازہ پڑھا گیا جسکے بعد اُنہیں انتہائی جذباتی ماحول میں سُپردِ خاک کیا گیا۔
یہاں لوگوں سے معلوم ہوا کہ وسیم شاہ کا گھرانہ ایک متوسط اور صاحبِ ثروت گھرانہ ہے اور انکے پاس سیبوں کے کئی بڑے باغ ہیں۔ اُنکے بچپن کے کئی دوستوں کے مطابق جنگجو بننے سے قبل وہ علاقے کے نامور کرکٹ کھلاڑی تھے اور اُنہیں بائیں ہاتھ سے بہترین گیند بازی کرنے کی وجہ سے ”وسیم کھوش“کی کُنیت سے جانا جاتا تھا۔جیسا کہ یہاں کے ایک نوجوان نے کہا”وہ ایک بہترین کھلاڑی تھا اور میرے خیال میں بندوق اُٹھانے سے قبل تک جنوبی کشمیر کو شائد ہی کوئی بڑا ٹورنامنٹ رہا ہوگا کہ جس میں وسیم نے شرکت نہ کی ہو اور پھر اعزازات حاصل نہ کئے ہوں“۔اُنکے ایک بزرگ پڑوسی نے کہا ”وہ جتنا ظاہری طور خوبصورت تھا اتنا ہی وہ اندر سے بھی وسیع القلب تھا،اُسکا شہید ہونا اس سارے علاقے کو دیر تک تڑپاتا رہے گا،اللہ اُسے اپنے دربار میں قبول کرے“۔
پلوامہ کے لتر میں بھی ماحول اس سے زیادہ مختلف نہ تھا کہ جہاں ہزاروں لوگوں کا ایک اور مجمعہ وسیم شاہ کے ساتھ مارے گئے اُنکے ساتھی ناصر میر کی آخری جھلک پانے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی جستجو کرتے رہے۔ناصر کو اُنکے جاننے والے ایک صالح اور نرم مزاج پوسٹ گریجویٹ کے بطور یاد کرتے تھے کہ جنہوں نے عربی اور ایجوکیشن میں ایم اے کیا ہوا تھا اور اسلامیات میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے کہ جب اُنہوں نے بندوق اُٹھاکر باغی بننے کا فیصلہ کرلیا۔میر کے پڑوسیوں کا کہنا تھا کہ وہ اُنہیں ایک انتہائی نیک بچے سے صالح نوجوان بنتے دیکھ چکے ہیں۔جیسا کہ رو رو کر بے حال ہوچکیں اُنکی ایکپڑوسن نے کہا”وہ میرے بیٹے کی طرح تھا،بچپن سے ہی بڑا نیک بچہ تھا اور پھر جوان ہوا تو وہ اور بھی زیادہ خداپرست بن گیا،یہ اُسکے مرنے کی عمر نہیں تھی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے“۔میر کو سُپردِ خاک کئے جانے سے قبل اُنکی کم از کم چار بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی جبکہ جنون کی حد تک جذبات سے لبریز نوجوان دیر تک نعرہ بازی کرتے رہے۔کئی نوجوان زاروقطار روتے رہے اور وہ کہہ رہے تھے کہ وہ جنگجو بننے سے قبل میر کے دوست رہے ہیں۔
الائے پورہ پلوامہ میں بھی ماحول سوگوار تھا کہ جہاں کے گلزار احمد میر نامی ایک عام شہری کو اُسوقت سرکاری فورسز نے گولی مار کر جاں بحق کردیا ہے کہ جب وہ وسیم شاہ اور ناصر کے محاصرے میں آنے کے بعد احتجاجی مظاہرے کرنے والے ہزاروں لوگوں کے ساتھ شامل تھے۔فورسز نے اس جلوس پر پیلٹ گن چلانے کے علاوہ فائرنگ بھی کی تھی جس سے درجنوں افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے گلزار احمد نے بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا تھا اور محمد اشرف نامی ایک اور شہری کی حالت سرینگر کے صدر اسپتال میں نازک بتائی جارہی ہے۔