لشکر کے میر کی پُرہجوم علی باباکی خاموش تدفین

نصراللہ(انسٹ)کے جلوسَ جنازہ میں لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا

حاجن// حاجن میں نامور مقامی جنگجو نصراللہ میر کے جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جسکے بعد انہیں آبائی قبرستان میں دفن کردیا گیا ہے۔اس دوران علاقے میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اورجنگجووں کے ساتھ وابستگی جتلانے کیلئے یہاں کی خواتین نے جلوسِ جنازہ کے پیچھے پیچھے روایتی ”ونون“ گایا۔

شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں فوج اور جنگجووں کے مابین ہوئی ایک خونریز جھڑپ میں ایک پاکستانی سمیت لشکر طیبہ کے دو جنگجو اور ائر فورس کے اعلیٰ تربیت یافتہ دو کمانڈوز مارے گئے ہیں۔صبح سویرے ہوئی اس جھڑپ کے بارے میںمعلوم ہوا ہے کہ فوج اور دیگر سرکاری فورسز کو ضلع کے حاجن علاقہ میں آٹھ جنگجووں پر مشتمل ایک گروپ کے موجود ہونے کی اطلاع ملی تھی جسکی بنا پر یہاں کا محاصرہ کر لیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ جونہی سرکاری فورسز نے محاصرہ کرنا شروع کیا علاقے میں موجود جنگجووں نے زبردست فائرنگ شروع کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی۔جنگجوﺅں کے ابتدائی حملے میں ہی انڈین ائر فورس کے ”گروُڈ فورس“ سے وابستہ دو خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز بری طرح سے زخمی ہوئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ان کی شناخت سرجنٹ ملند کشور اور کارپوریل نلیش کمارنائن کے بطور کی گئی ہے۔مہاراشٹرا کے ناشک علاقے سے تعلق رکھنے والے33سالہ ملند کشور نے سال2002میں فضائیہ جوائن کی تھی۔نلیش کمار نائن کا تعلق بھاگلپور بہار سے تھا، اس کی عمر31سال تھی اور وہ سال2005میں ائر فورس میں شامل ہوا تھا۔فاعی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کمانڈوز جنگجو مخالف کارروائیوں کا تجربہ حاصل کرنے کے سلسلے میں تربیت حاصل کررہے تھے ۔

یہ نصراللہ میر ہی تھے کہ جنکی وجہ سے ایک زمانے میں فوجی اعانت کاروں کا گڈھ تصور کئے جاتے رہے حاجن میں جنگجووں نے پیر جمانا شروع کئے تھے۔

جنگجوﺅں کے اچانک حملے کے ساتھ ہی فورسز اہلکاروں نے بھی پوزیشن سنبھالی اور جوابی کارروائی شروع کی جس کے نتیجے میں طرفین کے مابین گولیوں کا تبادلہ شروع ہوا۔ذرائع کے مطابق یہ جھڑپ مختصر مدت تک جاری رہی اور اس دوران قریب نصف درجن جنگجو فورسز کا محاصرہ توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، البتہ ان کے دو دیگر ساتھی فورسز کی گولیوں کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے جس کے ساتھ ہی گولیاں چلنے کا سلسلہ تھم گیا۔ایس پی بانڈی پورہ ذوالفقار آزاد نے مارے گئے جنگجوﺅں کے نام ابوبکر عرف علی بابا عرف ابو معاز ساکن پاکستان اور نصراللہ میر ولد نذیر احمد میرساکن حاجن کے بطور ظاہر کئے۔پولس کے مطابق نصراللہ میر،جو محض چند ماہ قبل جنگجووں کے ساتھ جا ملے تھے،کا مارا جانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ مقامی باشندہ ہونے کی وجہ سے وہ حاجن کے جغرافیہ سے بڑی واقفیت رکھتے تھے اور وہ پاکستانی جنگجووں کے گائیڈ کے بطور کام کررہے تھے۔ ان ذرائع کے مطابق یہ نصراللہ میر ہی تھے کہ جنکی وجہ سے ایک زمانے میں فوجی اعانت کاروں کا گڈھ تصور کئے جاتے رہے حاجن میں جنگجووں نے پیر جمانا شروع کئے تھے۔پولس کے مطابق انہیں توقعات کے برعکس محض دو جنگجووں کی نعشیں ملی ہیں اور اندازہ لگایا جارہا ہے کہ دیگر جنگجوفرار ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔ جائے واردات سے دو رائفلیں،کئی گرنیڈ اور دیگر اسلحہ و گولہ بارود بر آمد کرلیا گیا ہے۔

جھڑپ ختم ہوتے ہی علاقے میں زبردست احتجاجی مطاہرے شروع ہوئے اور پھر ہزاروں لوگوں نے نصراللہ میر کے جنازہ میں شرکت کی۔انہیں ایک مقامی قبرستان میں دفن کردیا گیا ۔جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور پھر میر کو پُر نم آنکھوں کے ساتھ سپردِ خاک کردیا گیا۔جلوس میں شامل مرد ”بھارت کے خلاف اور اسلام و آزادی “کے حق میں نعرہ بازی کر رہے تھے جبکہ خواتین ” ونون“کے انداز میں غم ظاہر کرنے والے گانے گاتے ہوئے جنگجووں کے ساتھ وابستگی جتلا رہی تھیں۔ذرائع کے مطابق پاکستانی جنگجو علی بابا کو پولس بارہمولہ ضلع میں غیر ملکی جنگجووں کیلئے مختص کئے گئے قبرستان میں چپ چاپ دفن کر دیا گیا ہے۔

جنگجوﺅں کے ابتدائی حملے میں ہی انڈین ائر فورس کے ”گروُڈ فورس“ سے وابستہ دو خصوصی تربیت یافتہ کمانڈوز بری طرح سے زخمی ہوئے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔

وادی میں جنگجوئیانہ سرگرمیوں میں متواتر ہورہے اضافہ کے بعد فوج نے آپریشن آل آوٹ شروع کیا ہوا ہے جسکی ابتداءمیں چند ہی دنوں کے دوران درجنوں جنگجووں کو جاں بحق کردیا گیا جن میں کئی اعلیٰ کمانڈر بھی شامل تھے تاہم بعدازاں جنگجووں کی جانب سے اپنی حکمت عملی تبدیل کردئے جانے کی وجہ سے فوج کیلئے انکا سراغ لگانا آسان نہ رہا۔تاہم چند دنوں سے ایک بار پھر پے درپے جھڑپیں ہونے لگی ہیں یہاں تک کہ ہفتے بھر کے دوران زائد از نصف درجن جنگجووں کو مار گرایا گیا ہے جن میں جیشِ محمد کے آپریشنل چیف خالد بھائی اور اب لشکر طیبہ کے نصراللہ میر بھی شامل ہیں۔فوج کا کہنا ہے کہ آپریشن آل آوٹ آخری جنگجو کے موجود رہنے تک جاری رہے گا۔

Exit mobile version