چوٹیاں کاٹنے والوں کا سُراغ مل سکا نہ اُنکے مقصد کا پتہ:پولس

سرینگر// وادی میں خواتین کی چوٹیاں کاٹے جانے کے پُراسرار سلسلہ کے جاری رہنے کے دوران پولس نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اسے ابھی تک اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے اگرچہ ”تحقیقات“ کو جاری بتایا گیا ہے۔ پولس کا کہنا ہے کہ ابھی تک چوٹیاں کاٹنے والے فقط ایک گھریلو نوکر کو پکڑا جاسکا ہے لیکن اُس نے بال کاٹے جانے کے جاری معمہ کی آڑ میں اپنے مالکوں کے بُرے برتاو سے تنگ آکر اسکا بدلہ لینے کے لئے اُنکی بیٹی کے بال کاٹے تھے ۔

جموں کشمیر پولس کے ڈائریکٹر جنرل ایس پی وید نے اتوار کو بتایا کہ وادی میں خوف و حراس پھیلا چکے چوٹیاں کاٹے جانے کے پُراسرار سلسلہ کے بارے میں اُنہیں ابھی تک کوئی سراغ ملا ہے اور نہ ہی پولس کو اس شرانگیزی کے پیچھے کارفرما محرکات کے بارے میں ہی علم ہو سکا ہے۔ ایک خبررساں ایجنسی کے مطابق وید کا کہنا تھا ”ہم نے سبھی اضلاع میں خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں اور وہ اپنا کام کر رہی ہیں ۔ہماری ٹیمیں اس کوشش میں لگی ہیں کہ چوٹیاں کاٹنے والوں کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کرکے اس معمہ کے حوالے سے اصل صورتحال کو سامنے لایا جائے“۔

”ہم نے سبھی اضلاع میں خصوصی تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں اور وہ اپنا کام کر رہی ہیں ۔ہماری ٹیمیں اس کوشش میں لگی ہیں کہ چوٹیاں کاٹنے والوں کے بارے میں صحیح جانکاری حاصل کرکے اس معمہ کے حوالے سے اصل صورتحال کو سامنے لایا جائے“۔

اس سے قبل وسطی کشمیر کیلئے پولس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل غلام حسن بٹ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پولس نے حیدرپورہ میں پیش آمدہ ایک واقعہ کے حوالے سے پوچھ تاچھ کی تو پتہ چلا کہ ایک گھریلو نوکر نے اپنے مالکوں کے بُرے برتاو کا بدلہ لینے کیلئے اُنکی بیٹی کے بال کاٹے ہیں۔ آئی جی پی کشمیر منیر خان نے بھی ایک الگ انٹرویو میں کہا ہے کہ اُنکے لئے اس معمہ کو سمجھنا ابھی ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اُنہوں نے معنیٰ خیز انداز میں کہا تھا کہ چوٹیاں کاٹے جانے کے واقعات کا شکار ہونے والی ستر فی صد خواتین نفسیاتی امراض میں مبتلا پائی گئی ہیں اور یہ بھی اپنے آپ میں عجیب چیز ہے کہ لوگ بند دروازوں کے پیچھے اس طرح کے واقعات پیش آنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زبردست شورشرابا کے باوجود بھی ابھی تک کہیں سے بھی پولس کو کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی متاثرین میں سے کوئی پولس کے ساتھ تعاون کرنے پر آمدہ ہے جسکی وجہ سے پولس کے لئے اس پُراسرار معاملے کو حل کرنا مشکل ہورہا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بعض علاقوں میں لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ اُنہوں نے ،مبینہ طور،چوٹیاں کاٹنے والوں کو پکڑ بھی لیا تھا تاہم فوجی اہلکاروں نے اُنہیں لوگوں کے چُنگل سے چھُڑالیا۔

واضح رہے کہ وادی کشمیر میں قریب ایک ماہ سے خواتین کی چوٹیاں کاٹے جانے کا پُراسرار سلسلہ جاری ہے جو اب ایک خوفناک معمہ بن گیا ہے۔ ابھی تک اس طرح کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں لوگوں کی طرفسے ایسی کئی کوششوں کو ناکام بنانے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ وادی بھر میں خوف و حراس پھیلا ہوا ہے اور اب اس سلسلے میں لوگ باضابطہ سڑکوں پر آنے لگے ہیں جبکہ سوموار کو مزاحمتی قیادت کے کہنے پر اس پُراسرار سلسلہ کے خلاف کشمیر بند ہے۔

 

یہ بھی پڑھیئے حیران ہوں کہ خانیار جیسے علاقہ میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے:منیر خان

Exit mobile version