میں نے اپنے کئی کارٹون چھُپا کے رکھے ہیں!

جموں کشمیر کے نامور اور پہلے پیشہ ور کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر (بی اے بی)کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔انکے کارٹون کی شہرت و مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ انکے اخبار سرینگر ٹائمز کو اپنے ٹائیٹل سے زیادہ انکے کارٹون ہی کی وجہ سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔قریب پچاس سال قبل اُنہوں نے پہلا کارٹون بنایا تھا اور تب سے اُنہوں نے شاذ ہی ناغہ کیا ہوگا۔عمر مختار نے کشمیر لائف کیلئے اُنکا تفصیلی انٹرویو کیا ہے جسکا ترجمہ ہم قارئینِ تفصیلات کی دلچسپی کیلئے کشمیر لائف کے شکریہ کے ساتھ پیش کررہے ہیں۔

سوال:آپ کارٹونسٹ کیسے بنے؟

جواب:میں سوچ سمجھ کر کارٹونسٹ نہیں بنا ہوں بلکہ میرے والدین تو مجھے ڈاکٹر بنتے دیکھنا چاہتے تھے جبکہ میں اُن سے متفق تھا۔لیکن میرے اندر ایک فنکار تھا جو مجھے بے چین کئے ہوئے تھا۔چونکہ میں ڈل جھیل اور زبرون پہاڑی سلسلہ کی خوبصورتی سے بڑا متاثر تھا لہٰذا میں نے لکیریں کھینچنااور فن پارے بنانا شروع کیا۔
1969میں میری زندگی میں تب ایک ٹرننگ پوائینٹ آیا کہ جب میرے برادر اور سرینگر ٹائمز کے بانی مدیر صوفی غلام محمد نے مجھے دفتر میں اُنکی مدد کرنے کیلئے کہا۔اُنہیں چونکہ میری فنکاری کے بارے میں معلوم تھا ایک دن اُنہوں نے کہا”ہمیں اپنے اخبار میں کچھ نیا متعارف کرانا چاہیئے“۔اسکے بعد ہم نے شیخ عبداللہ کا ایک خاکہ بنایا اور اسے ایک خبر کے ساتھ شائع کیا،اُن دنوں یہ ایک نئی چیز تھی اور یہ غالباََ کشمیر میں کارٹون شائع کرنے والا پہلا اخبار تھا۔اس طرح میں ایک کارٹونسٹ بن گیا۔

1981میں اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران ممبران آپس میں اس حد تک لڑ پڑے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور کپڑے پھاڑ دئے۔اگلے دن میں نے اپنے کارٹون میں ان لوگوں کو بندروں،بھیڑوں اور گدھوں سے مشابہت دی جس سے ناراض ہوکر اسمبلی کے سپیکر نے مجھے اور ایڈیٹر کو اپنے یہاں طلب کیا اور مجھ سے معافی مانگنے کیلئے کہا مگر میں نے انکار کیا۔

سوال:آپ نے ابھی تک کتنے کارٹون بنائے ہیں؟کیا کچھ ایسے کارٹون بھی ہیں کہ جو شائع نہ ہوئے ہوں؟

جواب:مجھے مکمل شمار یاد تو نہیں ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ میں روز ہی ایک(کارٹون)بناتا ہوں۔اور ہاں میری تحویل میں کچھ ایسے کارٹون ہیں کہ جو کبھی شائع نہیں ہوئے۔اُنہیں شائع نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ہمیں اکثر مختلف کھچاو اور دباوکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ماحول مناسب نہیں ہوتا ہے۔بعض اوقات میں نے اپنی زندگی کو خطرے سے بچانے کیلئے اپنے کئی کارٹون اپنے تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن میں انہیں مناسب وقت پر شائع کروں گا تاکہ لوگ جان لیں کہ میں نے اپنے اندر کیا رکھا ہوا تھا۔

سوال:آپ کی فنکاری سے کئی بار لوگ ناراض ہوتے ہونگے؟

جواب:ہاں ایسا بہت بار ہوا ہے کہ جب مجھے اپنے کام کی بڑی قیمت چکانا پڑی ہے لیکن میں نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔مجھے میرے کام کی وجہ سے تین بار عدالت میں گھسیٹاگیا۔یہاں تک کہ سرینگر ٹائمز پر حکومت نے تین بار پابندی لگائی۔
1981میں اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران ممبران آپس میں اس حد تک لڑ پڑے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور کپڑے پھاڑ دئے۔اگلے دن میں نے اپنے کارٹون میں ان لوگوں کو بندروں،بھیڑوں اور گدھوں سے مشابہت دی جس سے ناراض ہوکر اسمبلی کے سپیکر نے مجھے اور ایڈیٹر کو اپنے یہاں طلب کیا اور مجھ سے معافی مانگنے کیلئے کہا مگر میں نے انکار کیا۔میں نے اُنسے کہا کہ میں نے حقِ آزادی اظہارکا استعمال کیا ہے۔اسکے اگلے دن میں نے کارٹون میں اپنا سر اپنے ہاتھوں میں دکھا کر اسکے ساتھ لکھا”سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں“۔اس کارٹون سے میں نے ممبرانِ اسمبلی کی طرفسے مجھ سے معافی مانگنے کے مطالبے کا جواب دیا۔

سوال:آپ نے کہا کہ آپ بچپن میں قدرتی نظاروں سے متاثر تھے جس نے آپ کے اندر کے فنکار کو جگایا لیکن آپ کو مزاحیہ اور سیاسی کارٹونسٹ کس چیز نے بنایا؟

جواب:یہ سب کشمیر کا سیاسی ماحول کی وجہ سے ہوا ہے کہ جو میری راہ متعین کرتا گیا۔جو کچھ یہاں کے سیاسی منظرنامہ پر ہوتا رہا میں اسے اپنے کارٹونوں میں دکھاتا رہا۔

سوال:آپ کو کس کارٹون نے شہرت دلائی؟

جواب:میں نے ایک کارٹون بنایا جس میں دو بیلوں کو ایک دوسرے سے سینگ لڑاتے دکھایا گیا تھا۔ان میں سے ایک بیل کو بخشی غلام محمد اور دوسرے کو غلام محمد صادق بنایا گیا تھا اور ان دونوں کی مخاصمت کو اجاگر کیا گیا تھا۔یہ کارٹون بڑا مشہور ہوا اور ہر کوئی اسکے بارے میں باتیں کرتا رہا۔یہ کارٹون بھی سرینگر ٹائمز پر پابندی لگانے کا بہانہ بنا تھا۔پھر لوگ میرے کارٹون روز ہی دیکھنے لگے اور یہ جملہ ”آج کا کارٹون کیا ہے“عام ہوگیا۔

بشیر احمد بشیر کے چند حالیہ کارٹون

سوال:آپ کو ایک سیاسی کارٹونسٹ اور مزاح نگار کہا جاتا ہے؟

جواب:ہاں،میں اس طرح کے القاب سے پکارا جانا پسند بھی کرتا ہوں۔اصل میں یہ القاب ایسے ہیں کہ جن پر مجھے فخر ہونا چاہیئے۔میں طنز کرتا ہوں لیکن میں نے کبھی بھی کسی پر ذاتی حملہ نہیں کیا ہے۔

سوال:آپ کا کونسا کارٹون آپ کے دل کے قریب ہے؟

جواب:کئی کارٹون ہیں کہ جنکی مختلف سمتوں سے تعریفیں ہوئی ہیں۔مختلف اوقات پر مختلف کارٹون میرے دل کے قریب رہے ہیں۔یہ سب آپ کے اردگرد کے ماحول اور لوگوں کے تبصروں پر منحصر رہتا ہے۔میں روز کارٹون بناتا ہوں اور روز سمجھتا ہوں کہ آج کا کارٹون سب سے بہترین ہے۔

سوال:آپ اپنے کارٹون کا موضوع کیسے منتخب کرتے ہیں؟

جواب:یہ ایک روحانی عمل جیسا ہے،یہ(خیال)قدرتی طور ابھرتا ہے۔میں بیٹھتا ہوں،کاغذاور پنسل ہاتھ میں لیتا ہوں اور پھر کارٹون بنانے لگتا ہوں۔دراصل فن قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ہمیں بس مثبت سوچنا ہوتا ہے اور قدرت کی دین کو برباد نہیں ہونے دینا ہوتا ہے۔

یہ کارٹون بھی سرینگر ٹائمز پر پابندی لگانے کا بہانہ بنا تھا۔پھر لوگ میرے کارٹون روز ہی دیکھنے لگے اور یہ جملہ ”آج کا کارٹون کیا ہے“عام ہوگیا۔

سوال:کیا ہم ایسا کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے کارٹون تاریخِ کشمیر کے گواہ ہیں؟

جواب:میں نے 1969سے کارٹون بنائے ہیں۔تب سے جو کچھ بھی یہاں ہوتا آیا ہے میں نے اپنے کارٹون سے بیان کیا ہے۔میں نے اپنے فن کے توسط سے ہر چھوٹا بڑا واقعہ رپورٹ کیا ہے۔

سوال:ہمارے سماج میں فنکاروں کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟کیا اُنہیں وہ سب ملتا ہے جسکے وہ حقدار ہیں؟

جواب:کچھ لوگ فنکاروں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتے ہیں لیکن اب رجحان بدل رہا ہے۔اب لوگ فن کو تسلیم کرتے ہیں اور اسکی تائید کرتے ہیں۔

سوال:ہم آپکا غیر شائع شدہ کام دیکھنے کی توقع کب کرسکتے ہیں؟

جواب:میں دراصل ایک کتاب لکھ رہا ہوں،ہوسکتا ہے کہ وہ اگلے سال مکمل ہوجائے۔میں وہ سب کام شائع کرنے جارہاہوں کہ جو میں نے کیا ہے۔
(بشکریہ کشمیر لائف)

Exit mobile version