کولگام// جنوبی کشمیر میں لڑکیوں اور خواتین کی چوٹیاں کاٹے جانے کے پُراسرار واقعات سے پھیلی خوف و دہشت کے دوران بدھ کوکولگام میں اسوقت ہنگامہ ہوا کہ جب لوگوں نے ایک مشکوک شخص کو پکڑ لیا لیکن فوج نے ہوائی فائرنگ کرکے لوگوں کو حراساں کرکے اسے چھڑا کر اپنے ساتھ لے لیا۔لوگوں کا الزام ہے کہ خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کے واقعات کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے تاہم پولس کی طرفسے اس سلسلے میں پہلے سے تشکیل شدہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم یا ایس آئی ٹی نے تحقیقات کی یقین دہانی دہرائی ہے۔
”اس سے پہلے بھی مالون گاوں میں ایک مشکوک شخص کو پکڑا گیا تو فوج نے آکر اسے چھڑا لیا اوراب تو یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بال کاٹنے کے پُراسرار واقعات میں کوئی اور نہیں بلکہ فوج ملوث ہے اور پولس یا تو اس سازش میں شریک ہے یا پھر فوج کے ڈر سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے“۔
کولگام ضلع میں نور آباد دمحال ہانجی پورہ علاقہ کے چمر نامی گاوں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو اسوقت پکڑ لیا کہ جب وہ یہاں ایک لڑکی کی چوٹی کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔انکا کہنا ہے کہ جونہی ملزم کو پکڑ لئے جانے کی خبر پھیل گئی آس پڑوس کے لوگوں نے یہاں جمع ہونا شروع کیا تاہم اسی دوران نزدیکی فوجی کیمپ سے جوانی کی ایک بھاری جمیعت یہاں آپہنچی اور انہوں نے ہوائی فائرنگ کرکے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر مذکورہ شخص کو لوگوں کے چنگل سے چھڑا کر اپنے ساتھ لے لیا۔اس واقعہ کے خلاف لوگوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جنکے دوران فوج پر خواتین کے بال کاٹ کر خوف و حراس پھیلانے اور پولس پر خاموش تماشائی بنے ہونے کے الامات لگائے جا رہے تھے۔لوگوں کا کہنا تھا”اس سے پہلے بھی مالون گاوں میں ایک مشکوک شخص کو پکڑا گیا تو فوج نے آکر اسے چھڑا لیا اوراب تو یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بال کاٹنے کے پُراسرار واقعات میں کوئی اور نہیں بلکہ فوج ملوث ہے اور پولس یا تو اس سازش میں شریک ہے یا پھر فوج کے ڈر سے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے“۔
واضح رہے کہ جنوبی کشمیر میں کچھ دنوں سے نا معلوم گروہ اچانک گھروں میں گھس کر نوجوان لڑکیوں یا خواتین کی چوٹیاں کاٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔پے در پے پیش آرہے ان واقعات کے خلاف منگل کو کولگام ضلع میں عام ہڑتال رہی تھی جسکے دوران یہاں بازار بند اور سڑکیں سنسان رہیں۔لڑکیوں اور خواتین کے بال کاٹے جانے کا پُراسرار سلسلہ پہلے جموں کے کچھ علاقوں میں شروع ہوکر بعدازاں ڈوڈہ ضلع کے بھدرواہ و دیگر علاقوں کو خوفزدہ کرگیا جسکے بعد کولگام ضلع میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کولگام کے مختلف علاقوں میں کم از کم نصف درجن دوشیزاوں اور خواتین کی کسی پُراسرار گروہ نے چوٹیاں کاٹ دی ہیں۔ان ذرائع کے مطابق اس طرح کے واقع شام دیر گئے یوں پیش آتے ہیں کہ نا معلوم افراد مختلف گھروں میں گھس کر کسی بھی لڑکی کو بے ہوش کرکے اسکی چوٹی کاٹ دیتے ہیں۔دلچسپ ہے کہ یہ پُراسرار گروہ نہ ہی کاٹے گئے بال ساتھ لے جاتا ہے اور نہ ہی شکار بنائے جانے والے گھر میں کوئی چوری وغیرہ کی جاتی ہے۔یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس پُراسرار سلسلہ کے حوالے سے پولس چیف ایس پی وید کو ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی جسکے بعد،ذرائع کے مطابق،ایڈیشنل ایس پی کی قیادت میں ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی بھی جاچکی ہے۔
حالانکہ ایس پی کی جانب سے لوگوں کو اس واقعہ کی تحقیقات کرانے کا یقین دلایا جارہا ہے تاہم مذکورہ جوان کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ چونکہ ریاست میں آرمڈ فورسز اسپیشل ایکٹ(افسپا)نافذ ہے لہٰذا فوج کے خلاف کسی کارروائی کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے
آج کے واقعہ سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر وائرل ہوچکے ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہزاروں لوگوں نے ایس پی اور انکے کارندوں کو گھیرے میں لیا ہے اور وہ انتہائی مشتعل انداز میں پولس سے کچھ ایسے تیکھے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ جنہوں نے ایس پی کو لاجواب کیا ہوا ہے۔ایک دیہی جوان انگریزی میں علاقہ کے ایس پی سے پوچھتے ہیں کہ انکے علاقے میں اگر لوگوں نے بال کاٹنے والے ایک شخص کو پکڑ لیا تھا تو فوج نے کیوں ہوائی فائرنگ کرکے مذکورہ کو چھڑا لیا اور اسے پولس کے حوالے کرنے کی بجائے اپنے ساتھ لے لیا۔ حالانکہ ایس پی کی جانب سے لوگوں کو اس واقعہ کی تحقیقات کرانے کا یقین دلایا جارہا ہے تاہم مذکورہ جوان کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ چونکہ ریاست میں آرمڈ فورسز اسپیشل ایکٹ(افسپا)نافذ ہے لہٰذا فوج کے خلاف کسی کارروائی کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔