آزادی تو نہیں لیکن آئین کی حدود میں کچھ بھی:فوج

فائل فوٹو

سرینگر// فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے کشمیر میں جنگجوئیت کی کمر توڑ دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام اپنے آس پاس فوج اور اسکے کیمپ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے کہا ہے کہ کشمیر کی آزاد نا ممکن ہے تاہم ’’آئین کے اندر رہتے ہوئے کچھ بھی ممکن ہے“اور یہ بات کشمیری عوام کو بتادی جانی چاہیئے۔

’’ جب تک آپ آزادی مانگتے رہو گے تب تک آپ کو مسائل اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ‘‘۔

جنوبی کشمیر میں تعینات فوج،جسے وِکٹر فورس کہا جاتا ہے،کے سربراہ میجرجنرل بی ایس راجو نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگجوئیت کی کمر توڑ دی جا چکی ہے لیکن نئے لڑکوں کا جنگجو بن جانا اب بھی سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے ایک بڑا چلینج بنا ہوا ہے۔اُنہوں نے جموں کشمیرمیں دہائیوں سے جاری شورش پرقابوکیلئے سیاسی اقدامات کوناگزیرقراردیتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل شروع کئے جانے کا حالیہ اشارہ حوصلہ افزاء ہے ۔ بی ایس راجو نے کہا ہے کہ وادی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری شورش پر ہمیشہ کیلئے قابو پانے کیلئے سیاسی اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا ہے ’’ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ عام کشمیری راحت چاہتے ہیں اور وہ اپنے آس پاس فوج یا فوجی کیمپ دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔کشمیری عوام یقینی طور موجودہ حالات سے نجات چاہتے ہیں اور میں بھی یہ بات مانتا ہوں“۔تاہم اُنہوں نے کہا ہے کہ وادی میں جنگجوئیت کا مکمل خاتمہ ہو تب ہی بستیوں کے نزدیک فوجیوں کی نقل و حرکت اور کیمپوں کی موجودگی میں بھی خاطر خواہ کمی آجائےگی ۔

’’ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ عام کشمیری راحت چاہتے ہیں اور وہ اپنے آس پاس فوج یا فوجی کیمپ دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔کشمیری عوام یقینی طور موجودہ حالات سے نجات چاہتے ہیں اور میں بھی یہ بات مانتا ہوں“۔

ایک اور سوال کے جواب میں میجر جنرل نے کہا ہے’’ہمیں لوگوں کو باور کرانا ہوگا کہ آزادی کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہےتاہم آئینِ (ہند) کی حدود کے اندر کچھ بھی ممکن ہے‘‘۔اُنہوں نے کشمیری عوام سے مخاطب ہوکر کہا ہے’’ جب تک آپ آزادی مانگتے رہو گے تب تک آپ کو مسائل اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ‘‘۔ راجو نے کہاہے’’صورتحال کو اس سطح پر لایا گیا ہے جہاں سیاسی عمل شروع کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اُنہوں نے کہا ہے ’’ یہ ایک خوشگوار بات ہے کہ سیاسی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اب یہ مرکزی حکومت کی سیاسی فراست پر منحصر ہے۔۔تاہم اس بات کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں پر یہ بات براہ راست واضح کی جائے کہ مذاکرات کی میز پر انہیں کیا کچھ دیا جاسکتا ہے‘‘۔

Exit mobile version