سرینگر// شمالی کشمیر کے اوڑی سیکٹر میں آج صبح دراندازی کی ایک کوشش کے دوران مارے گئے جنگجو کی شناخت حزب المجاہدین کے سرکردہ ایک ریاست میں سرگرم سب سے قدیم جنگجو کمانڈر قیوم نجار کے بطور ہوئی ہے۔قیوم نجار کا مارا جانا سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے ایک بڑی اور حیرت انگیزاور غیر متوقع خبر ہے جسے وہ اپنی بڑی کامیابی بتارہے ہیں۔
فوج نے آج صبح اوڑی کے زوراور سب سیکٹر میں دراندازی کی ایک کوشش کو ناکام بناکر ایک جنگجو کو جاں بحق کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم انکی فوری طور شناخت نہیں ہوپائی تھی۔شام گئے یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ مارے گئے جنگجو کوئی اور نہیں بلکہ حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر اور ریاست میں موجود سب سے قدیم جنگجو قیوم نجار ہیں۔
جن غیر متوقع حالات میں قیوم نجار مارے گئے ہیں اُتنا ہی غیر متوقع یہ بات ہے کہ اُنکے مارے جانے کی خبر سب سے پہلے بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے ٹویٹ کرکے دی۔مادھو نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ”سب سے زیادہ وقت تک زندہ رہنے والے دہشت گرد قیوم نزار(نجار) آج ایل او سی لاسی پورہ اوڑی میں ماراگیا“۔
حزب کے ساتھ اختلافات کے بعد نجار کے کئی ساتھی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے اور انکے لئے پناہ ڈھونڈنا تک مشکل ہوگیا تھا جسکے بعد انکے پاکستان چلے جانے کا انکشاف ہوا اور بعدازاں بعض ذرائع کے مطابق وہ دوبارہ حزب میں شامل ہوگئے تھے۔
قیوم نجار شمالی کشمیر میں حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر مانے جاتے تھے جنکا 2015میںموبائل فون ٹاوروں پر حملے کرنے اور علیٰحدگی پسند تحریک کے قریب تصور کئے جانے والے کئی افراد کو ہلاک کرنے کے معاملے پر تنظیم کے ساتھ اختلاف ہوا تھا۔نجار نے اپنے کئی ساتھیوں سمیت شمالی کشمیر میں کئی موبائل ٹاوروں پر پے درپے حملے کئے تھے اور کئی لوگوں کو ،مبینہ طور،ہلاک کردیا تھا جسکے بعد حزب المجاہدین نے انہیں تنظیم سے نکالدیا اور انہوں نے لشکرِ اسلام کے نام سے الگ تنظیم قائم کرنے کا اعلان کیا۔چناچہ حزب کے ساتھ اختلافات کے بعد نجار کے کئی ساتھی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے اور انکے لئے پناہ ڈھونڈنا تک مشکل ہوگیا تھا جسکے بعد انکے پاکستان چلے جانے کا انکشاف ہوا اور بعدازاں بعض ذرائع کے مطابق وہ دوبارہ حزب میں شامل ہوگئے تھے۔
کشمیر ریڈر نے کسی نامعلوم پولس افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے ”قیوم حزب کی قیادت سنبھالنے کیلئے آرہا تھا،ہمیں خبر ملی ہوئی تھی اور ہم نے اُسے ایل او سی کے قریب مار گرایا“۔ایک اور پولس افسر کا کہنا ہے کہ قیوم نے محض 16سال کی عمر میں بندوق اٹھائی تھی تاہم وہ 1992میں گرفتار ہوئے البتہ رہائی پاتے ہی وہ 1995میں پھر سرگرم ہوئے اور تب سے حزب میں مختلف عہدوں پر رہے۔اندازہ ہے کہ قیوم نجار کا شمالی کشمیر میں موجود ہونا یہاں جنگجوئیت کیلئے آکسیجن کی طرح ثابت ہوسکتا تھا کیونکہ ایک طرف وہ انتہائی تجربہ کار تھے اور ظاہر ہے انکے کافی روابط رہے ہونگے اور دوسری جانب آج کے حالات میں پاکستان میں رہنے کی وجہ سے انہوں نے اپنی قیادت سے خاص ہدایات لینے کے علاوہ جدید آلات کے استعمال کی تربیت بھی لی ہوگی۔
”قیوم حزب کی قیادت سنبھالنے کیلئے آرہا تھا،ہمیں خبر ملی ہوئی تھی اور ہم نے اُسے ایل او سی کے قریب مار گرایا“
واضح رہے کہ حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کے مارے جانے کے بعد شمالی کشمیر میں ان تنظیموں کو ،جیسا کہ پولس کا دعویٰ ہے،تقرباََ نابود کردیا گیا ہے اور ان حالات میں قیوم نجار جیسے تجربہ کار کمانڈر کا یہاں پہنچ جانا سکیورٹی ایجنسیوں کیلئے ایک چلینج پیدا کرسکتا تھا۔