ترال//(محمد سُہیل) ترال کے چھتروگام گاوں کے بیچوں بیچ واقع اس سکھ گھرانے کے آنگن میں بڑا ٹینٹ لگا ہوا ہے اور ماحول غم اور افسوس کے جذبات سے پُر….ٹینٹ کے اندر اشکبار آنکھوں کے ساتھ کچھ بچے اور بڑے شبد-گُربانی(گروگرینت صاحب) سُن رہے ہیں….یہ رتن دیپ کور یا پنکی کور کا گھر ہے جہاں اُنکا ماتم ہورہا ہے۔
جے کے سیمنٹ کے سابق ملازم اِشپال سنگھ کی لاڈلی پنکی کور اُن بد نصیبوں میں شامل تھیں کہ جو جمعرات کو قصبے کے بس اڈے کے قریب ہوئے گرنیڈ دھماکے میں مارے گئے۔اس دن یہاں عین اسوقت پُراسرار گرنیڈ دھماکہ ہوگیا تھا کہ جب پی ڈی پی لیڈر اور وزیر تعمیرات نعیم اختر یہاں کے دورے پر تھے۔دھماکے اور،مقامی لوگوں کے مطابق اسکے بعد سرکاری فورسز کی پیلٹ فائرنگ سے،پنکی کے علاوہ غلام نبی تراگ نامی ایک بزرگ شہری اورمحمد اقبال نامی ایک نوجوان کی موت واقع ہوگئی تھی جبکہ قریب تیس دیگر لوگ زخمی ہوگئے تھے۔اس دھماکے کی حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
”حقیقت یہ ہے کہ وہ زخی ہونے کے بعد بڑی دیر تک پڑی رہی اور فورسز نے کسی کو بھی اسکے نزدیک جاکر اسے اٹھانے کی اجازت نہیں دی یہاں تک کہ اسکا کافی خون بہہ گیا اور وہ مر گئی“۔
پنکی کے گھر کے یہاں ماتم داروں اور انکے لواحقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔اِشپال سنگھ غم سے نڈھال ایک کمرے میں پڑے ہوئے ہیں اور لوگ آکر اُنہیں دلاسہ دیکر چلے جاتے ہیں۔گھر کے ایک اور کمرے میں پنکی کی بہنیں اور چچازاد،ممیرے اور خالہ زاد وغیرہ جمع ہوکر بین کر رہے ہیں۔پنکی کے یوں اچانک اور خوفناک انداز میں مارے جانے کی خبر سب سے پہلے اُنکی بہن سگنبیر کو ملی اور وہ بھی یوں غیر متوقع اور اچانک کہ وہ اب بھی سکتے میں ہیں۔ترال کے سب ضلع اسپتال میں زیرِ تربیت سگنبیر کا کہنا ہے”میں اسپتال میں ہی تھی کہ جب دھماکے سے زخمی ہونے والوں کو یہاں پہنچایا گیا،یہ سب خوفناک اور دردناک تھا۔اتنے میں میری ایک ساتھی نے مجھے پکڑ کر کھینچتے ہوئے مری ہوئی ایک لڑکی کی شناخت کرنے کیلئے لے لیا،میں اُن سے پوچھ ہی رہی تھی کہ مجھے ہی کسی کی شناخت کرنے کیلئے کیوں لیا جارہا ہے کہ میری نظر پنکی کے مردہ جسم پر پڑی“۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سگنبیر کی حالت کیا ہوئی ہوگی کہ جب اُنہوں نے یوں اچانک ہی اپنی چھوٹی بہن کو اپنے سامنے مرا ہوا پایا ہو۔وہ کہتی ہیں”اسکے بعد کیا ہوا مجھے کچھ پتہ نہیں“۔
پنکی کے چچا زاد تجندرپال کا کہنا ہے کہ وہ کسی کام سے ترال گئی ہوئی تھیں جہاں کچھ خریدنے کیلئے وہ ایک دُکان پر رُکی ہی تھیں کہ دھماکہ ہوگیا۔وہ کہتے ہیں”وہ چِپس خرید رہی تھیں اور اس دوران ہی اُس نے میری بہن سنی کو فون کیا اور کہا کہ گھر پہنچکر وہ اُسے پھر فون کرے گی۔وہ فون کر ہی رہی تھی کہ دھماکہ ہوگیا“۔قابلِ ذکر ہے کہ وہ دکاندار، جنکے پاس پنکی نے چِپس خریدنا چاہے تھے،بھی زخمی ہیں اور سرینگر کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔تجندر کے مطابق وہ صبح امرتسر میں تھے تو پنکی نے ہی نیند سے جگانے کیلئے اُنہیں فون کیا تھا۔اُنہیں ملال ہے کہ اُنہوں نے یہ کیوں نہ جانا کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ اخری بار بات کررہے ہیں تاکہ اُنہوں نے دیر تک باتیں کی ہوتیں۔وہ کہتے ہیں”ہم سبھی کزنز ایکدوسرے کے ساتھ بہت پیار کرتے ہیں،پنکی نے ہی مجھے صبح جگادیا تھا،کہاں معلوم تھا کہ وہ آخری بار بول رہی ہے،پتہ ہوتا تو ہم نے فون کال کو دیر تک جاری رکھا ہوتا“۔
پنکی کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ وہ سب بچوں میں سے بڑی نرم ،خوش خلق اور ملنسار تھیں۔اُنکی ایک چچازاد بہن سمپل کور کا کہنا تھا”وہ ہم سب میں بڑی نرم اور نہایت مہذب تھیں،ہم سب کا بڑا خیال رکھتی تھیں،اُنکی اس طرح موت نے تو ہمیں توڑ کے رکھ دیا ہے“۔بڑی مشکل سے اپنے آنسو روکتے ہوئے سمپل کا مزید کہنا تھا”اُنکی ٹانگوں پر بڑے زخم تھے ،شائد گرنیڈ کے آہنی ریزے لگنے سے لیکن اُنکے چہرے اور بائیں طرف اُنکی کمر پر پیلٹ سے کئی زخم لگے تھے،یہ سب خوفناک تھا جسے میں کبھی بھول نہیں سکتی ہوں“۔
حالانکہ پولس نے دھماکے کے بعد پیلٹ فائرنگ کرنے کے الزام کو سختی سے مسترد کردیا ہے تاہم پنکی کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اُنکی لڑکی بظاہر پیلٹ گن کا شکار ہوکر کافی خون بہہ جانے سے مر گئی ہیں۔اُنہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا”حقیقت یہ ہے کہ وہ زخی ہونے کے بعد بڑی دیر تک پڑی رہی اور فورسز نے کسی کو بھی اسکے نزدیک جاکر اسے اٹھانے کی اجازت نہیں دی یہاں تک کہ اسکا کافی خون بہہ گیا اور وہ مر گئی“۔اُنکے ایک رشتہ دار ویر پال سنگھ نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ” کئی لوگ دیکھتے رہے ہیں لیکن فورسز نے کسی کو بھی آگے جانے کی اجازت نہیں دی اور اندھادند فائرنگ کی جارہی تھی یہاں تک کہ دیر ہوگئی اور پھر جب پنکی کو اسپتال لیجایا جارہا تھا وہ مر چکی تھی“۔
”اُسکی اچھائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے رمضان کے دوران وہ کبھی بھی کینٹین نہیں گئیں اور نہ ہی اُس نے کسی مسلمان کے سامنے کچھ کھایا پیا،ہم سب،باالخصوص ہمارے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں،سکتے میں ہیں“۔
اسلامک یونیورسٹی میں پنکی کے جاننے والوں کیلئے یہ واقعہ مساوی طور انتہائی دردناک تھا۔ یونیورسٹی نے پنکی کے احترام میں جمعہ کیلئے طے امتحان ملتوی کردیا جبکہ اُنکے کئی ہم جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت ہی شریف اور مہذب و ملنسار لڑکی تھیں۔اُنکے ساتھ پڑھتے رہے فہیم نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے”اُسکی اچھائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے رمضان کے دوران وہ کبھی بھی کینٹین نہیں گئیں اور نہ ہی اُس نے کسی مسلمان کے سامنے کچھ کھایا پیا،ہم سب،باالخصوص ہمارے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں،سکتے میں ہیں“۔
شام چھ بجے کے قریب جب ہم پنکی کے یہاں سے واپس نکل رہے تھےشبد-گُربانی گاتے رہے لوگ بھی اپنے آلات سمیٹ رہے تھے۔پنکی کے والد اِشپال سنگھ کا کہنا تھا”وہ کل پھر آئیں گے اور پورا دس دن تک گُربانی گانے کا سلسلہ جاری رہے گاجبکہ ماتم مزید ایک ماہ کیلئے جاری رہے گا“۔ اُنہوں نے ساتھ ہی کہا ”ماتم ایک ماہ تک جاری رہے گا لیکن ہمارا درد اب عمر بھر کا ہے“،یہ کہکر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
(بشکریہ کشمیر ریڈر)