روہنگیا مسلمانوں کے ہمدرد ہزاروں لوگوں کا دلی میں مظاہرہ

نئی دلی// نئی دلی میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں قریب تین ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاءِ مطاہرہ نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کی کڑی الفاظ میں مذمًت کی گئی۔ احتجاج میں شریک ہوئے جماعتِ اسلامی ہند کے لیڈر محمد سلیم انجینئر نے روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار کو ایک انسانی بحران قرار دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سے سے فوری مداخلت کرنے اور مظلوموں کی مدد کو آنے کی اپیل کی۔ مطاہرین نے بیک زبان روہنگیا پناہ گزینوں کی حمایت کرتے ہوئے اُنہیں بھارت بدر نہ کردئے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔

حالانکہ اس احتجاجی مظاہرے میں زیادہ تر جماعتِ اسلامی ہند کے لوگ شامل تھے تاہم اُنہوں نے واضح کیا کہ یہ کسی خاص گروپ یا تنظیم کا پروگرام نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دردمند دل رکھنے والے عام لوگوں کا کیا گیا احتجاجی مظاہرہ ہے۔ چنکیا پوری پولس تھانے کے باہر جمع ہوکر یہ مجمعہ رونگیا مسلمانوں کی حالتِ زار کی مذمت میں اور اُنکی حمایت میں نعرہ بلند کررہا ہے۔ اس موقعہ پر کئی لوگوں نے تقاریر کیں اور کہا کہ جس طرح کی خبریں میانمار سے آرہی ہیں وہ جگر سوز ہیں اور دہلا دینے والی ہیں۔

”میانمار ہوش میں آو،ہوش میں آو“،”آنگ سان سوئی شرم کرو،شرم کرو“،”برما کے مسلمانوں کا قتلِ عام بند کرو،بند کرو“،”یو این آنکھیں کھولو،آنکھیں کھولو“ کے جیسے فلک شگاف نعرے بلند کرنے والے ہزاروں مظاہرین نے اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ برما کے پناہ گزینوں کو بھارت بدر کیا جاسکتا ہے۔

محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کو زبانی بیانات سے آگے بڑھتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کا قتلِ عام بند کرانے کیلئے عملی اقدامات کرنے چاہیں اور ساتھ ہی ابھی تک بے گھر ہوئے افراد کی پناہ گاہوں میں سہولیات بہم کرادینی چاہیئے۔ دیگر کئی شرکاءِ احتجاج نے بتایا کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے سیاست سے بالاتر ہوکر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ مظاہرین میں کئیوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جن پر انسانی لاشوں کو بکھرے ہوئے یا راکھائن ریاست میں کی گئی تباہی کے دیگر مناظر دکھائے گئے تھے۔”میانمار ہوش میں آو،ہوش میں آو“،”آنگ سان سوئی شرم کرو،شرم کرو“،”برما کے مسلمانوں کا قتلِ عام بند کرو،بند کرو“،”یو این آنکھیں کھولو،آنکھیں کھولو“ کے جیسے فلک شگاف نعرے بلند کرنے والے ہزاروں مظاہرین نے اس بات پر بھی مایوسی کا اظہار کیا کہ برما کے پناہ گزینوں کو بھارت بدر کیا جاسکتا ہے۔ مظاہرے میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا”برما سے جو خبریں اور تصاویر ہیں وہ دہلا دینے والی ہیں اور اب ہم یہ بھی سُن رہے ہیں کہ جو لوگ وہاں سے بھاگ کر آرہے ہیں اُنہیں کوئی بھی ملک پناہ نہیں دے رہا ہے جو کہ مایوس کُن ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ان لوگوں کو انسانی بنیادوں پر رہنے دیا جانا چاہیئے بلکہ بنگلہ دیش اور دیگر دیشوں کو بھی ان حالات کے ماروں کی مدد کرنی چاہیئے“۔

مظاہرے سے اور لوگوں کے علاوہ راشٹریہ جنتا دل کے منوج جھا اور کئی طلبائ تنظیموں کے نمائندگان بھی شامل تھے جنہوں نے نے کہا کہ میانمار کے حالات کی جانب فوری توجہ کرکے مظلوموں کی مدد کو آنا چاہیئے۔کئی مظاہرین نے آنگ سن سوئی کی شدید الفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے اُنسے امن کا نوبل انعام واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ موجودہ حالات میں یہ اعزاز اُنکے پاس رہنے کا مطلب خود اس اعزاز کی بے حُرمتی ہوگی۔ رپورٹ ہذا لکھے جانے تک یہ احتجاجی مظاہرہ پُرامن طور جاری تھا تاہم پولس یا کسی اور سرکاری محکمہ کی جانب سے مظاہرین کو منتشر ہونے کیلئے کہنے کیلئے کوئی آیا اور نہ ہی کسی طرح کی زبردستی کی گئی۔

Exit mobile version