نئی دلی// تفتیشی ایجنسی این آئی اے نے دلی میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر پر بلا کر سرکردہ قانون دان اور جموں کشمیر بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں قیوم کی مسلسل سات گھنٹے تک پوچھ تاچھ کرنے کے بعد اُنہیں آج پھر طلب کر لیا ہے۔قیوم کے ساتھ دلی جاچکی بار ایسوسی ایشن کی ایک آٹھ رُکنی ٹیم نے تاہم کہا ہے کہ قیوم کے پاس چھُپانے کو کچھ بھی نہیں تھا اور اُنہوں نے بہادری کے ساتھ تفتیش کا سامنا کرتے ہوئے سبھی سوالات کا صاف صاف جواب دیا ہے۔
میاں قیوم کے پاس چھُپانے کو کچھ نہیں ہے لہٰذا اُنہوں نے سبھی سوالات کا صاف صاف جواب دیا ہے اور بہادری کے ساتھ تفتیش کا سامنا کیا ہے۔
حُریت کانفرنس کے سابق لیڈر نعیم خان اور بٹہ کراٹے کے ایک ٹیلی ویژن سٹنگ آپریشن میں حوالہ کے ذرئعہ رقومات حاصل کرکے وادی میں شدت پسندی کو فروغ دینے کا سنسنی خیز دعویٰ کرنے کے بعد 30مئی کو این آئی اے نے منی لانڈرنگ کا ایک معاملہ درج کرکے اسکی تحقیقات شروع کردی تھی۔اس معاملے میں ابھی تک خان اور کراٹے کے علاوہ حُریت کانفرنس کے قریب نصف درجن ارکان ،ایک سرکردہ تاجر اور دو عام شہریوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ شبیر احمد شاہ کو اینفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے ایسے ہی ایک پُرانے معاملے میں اپنے ایک ساتھی سمیت گرفتار کیا ہوا ہے۔این آئی اے نے چھاپہ ماری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کئی عام نوجوانوں سمیت قریب تیس افراد کے نام سمن جاری کردئے ہیں جن میں سرکردہ قانون دان اور بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں قیوم بھی شامل ہیں۔قیوم کو اس معاملے میں گواہ کے بطور شامل کرلیا گیا ہے اور اُنہیں 6ستمبر کو ایجنسی کے دلی میں واقع ہیڈکوارٹر پر طلب کرلیا گیا تھا۔
میاں قیوم کے ساتھ بار ایسوسی ایشن کے اٹھ ممبران پر مشتمل وکلاءکی ایک ٹیم بھی دلی گئی ہوئی ہے جن میں سے ایک ایڈوکیٹ ارشد اندرابی نے میڈیا کو بتایا کہ قیوم سے لگاتار سات گھنٹوں تک پوچھ تاچھ ہوئی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ میاں قیوم کے پاس چھُپانے کو کچھ نہیں ہے لہٰذا اُنہوں نے سبھی سوالات کا صاف صاف جواب دیا ہے اور بہادری کے ساتھ تفتیش کا سامنا کیا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پوچھ تاچھ کے دوران معاملے کے انچارج افسر موجود نہیں تھے اور اب میاں قیوم کو آج،جمعرات،صبح گیارہ بجے کو پھر حاضر ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔واضح رہے کہ 67سالہ سینئر ایڈوکیٹ کو یوں ”بلا جواز“طور کسی معاملے میں ملوث کرکے عام مجرموں کی طرح تفتیش کیلئے بلانے سے ناراض کشمیری وکلاءتین دن سے ہڑتال پر ہیں جبکہ اُنہوں نے سرینگر میں احتجاجی مطاہرے بھی کئے ہیں۔