ڈیرا سچا سوداکے انجام پر فیس بُک کی دنیا میں شوپیاں کے تذکرے

سرینگر// ڈیرا سچا سودا کے متنازعہ گرو گرمیر رام سنگھ کو زِنا کے مقدمے میں سزا سنائے جاے کے عدالتی فیصلے کو لیکر جہاں ہریانہ میں کشیدگی پھیلی ہوئی ہے وہیں وادی کشمیر میں لوگ ،باالخصوص فیس بُک کی دُنیا کے باسی،خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔گرمیت سنگھ کے خلاف سُنائے گئے فیصلے کی تعریفیں کرتے ہوئے تاہم کشمیریوں کا سوال ہے کہ 2009میں شوپیاں میں پیش آمدہ آسیہ نیلوفر واقعہ کی اسی طرح تحقیقات کرکے مجرموں کو سزا کیوں نہیں دی جائے۔

گرو گرمیت رام کو گذشتہ جمعے کو اپنی دو خاتون پیرکاروں کے ریپ کے مقدمے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ مقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج نے روہتک جیل میں ہی جا کر فیصلہ سنایا۔گرمیت رام رحیم کو مجرم قرار دئے جانے پر پنچکولا ہونے والے پُرتشدد واقعات کے بعد فیصلے سنائے جانے سے قبل ہریانہ پولیس نے روہتک جیل کو قلعے میں تبدیل کر دیا ہے۔

”ڈیرا چیف کیلئے سزااور ہم شوپیاں اور کُنن پوشہ پورہ کے متاثرین کے لئے انصاف کے منتظر ہیں“۔

ڈیرہ سچا سودا نامی تنظیم کے سربراہ گرمیت سنگھ کو جنسی زیادتی کیس میں جمعہ کو مجرم قرار دیا گیا تھا جس کے بعد اُنہیں روہتک کی جیل میں رکھا گیا تھا۔ روہتک کی سوناریا جیل میں سپیشل سی بی آئی جج جگدیپ سنگھ نے مدعی اور مدعا علیہ کے دلائل سُنے اور اس کے بعد مجرم کو 10 سال قید کی سزا سنادی۔ بھارتی آئین میں جنسی زیادتی کی زیادہ سے زیادہ سزا 10 سال ہے اور گرو گرمیت کو آخری درجے کی سزا دی گئی ہے۔ کیس کی سماعت دوران گرمیت سنگھ نے جج کے روبرو جنسی زیادتی کے الزامات کا اعتراف کیا اور روتے ہوئے رحم کی اپیل کی تھی جسے جج نے مسترد کردیا۔

ڈیرہ سچا سودا تنظیم کے سربراہ گرو گرمیت رام رحیم سنگھ پر 2002 میں 2 خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام لگا تھا جس میں جمعہ کے روز انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ انہیں مجرم قرار دیے جانے کے بعد بھارتی ریاستوں پنجاب اور ہریانہ میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جن میں 38 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

سی بی آئی کے خصوصی جج جگدیپ سنگھ نے آج یہ فیصلہ سُنایا تو ہریانہ اور دیگر کئی علاقوں میں حفاظت کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ ہریانہ ڈی جی پی بی ایس سندھو نے بتایا کہ کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے فوج کو تیار رکھا گیا ہے۔

اس دوران وادی میں انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو اس فیصلے میں بڑی دلچسپی لیتے پایا گیا۔لوگ اس فیصلے کیلئے عدالت کی تعریفیں کرتے ہوئے تاہم شوپیاں میں 2009میں پیش آمدہ، آسیہ-نیلوفر عصمت دری و قتل،واقعہ کو سرِ نو زیرِ تبصرہ لایا ہے۔چناچہ محمد معراج نامی ایک شخص نے اپنے فیس بُک وال پر لکھا ہے”ڈیرا چیف کیلئے سزااور ہم شوپیاں اور کُنن پوشہ پورہ کے متاثرین کے لئے انصاف کے منتظر ہیں“۔جموں کشمیرہائی کورٹکے ایک وکیل اعجاز دھر نے بھی اسی طرح کا سوال اُٹھاتے ہوئے لکھا”اگر ڈیرا چیف کو سزا ملتی ہے تو آسیہ نیلوفر ریب کیس اور کُنن پوشہ پورہ کے اجتماعی ریپ کیس میں ملوث بے لگام فوج کو کیوں نہیں۔ یہ دوہرے معیار کیوں،کشمیر میں ان جیسے معاملوں میں ان جیسی ہی سزائیں کیوں نہیں ہو سکتی ہیں“۔

واضح رہے کہ 2009میں شوپیاں میں آسیہ جان اور نیلوفر نامی دو خواتین،جو آپس میں نند بھابی تھیں،کا پُراسرار حالات میں قتل ہوا تھا اور بعدازاں معلوم ہوا کہ اُنکے ساتھ پہلے جنسی زیادتی ہوئی ہے۔اس واقعہ کو لیکر وادی میں مہینوں ہڑتال رہی اور واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی لوگ جاں بحق اور دیگر کئی زخمی ہوگئے تھے۔گوکہ اس معاملے کی تحقیقات کا کام سی بی آئی کو بھی سونپا گیا تھا تاہم لوگوں کے زبردست مطالبے کے باوجود بھی اس معاملے کی تحقیقات کا کوئی نتیجہ سامنے لایا گیا تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی کو کوئی سزا ہی دی گئی تھی۔

Exit mobile version