ہریانہ کے حالات پر کشمیریوں کا تبصرہ،گرمیت سنگھ اور گلزار بٹ کا موازنہ

سرینگر//ڈیرہ سچا سودا کے سربراہ رام رحیم سنگھ کے مجرم قرار پانے کے بعد پنجاب،ہریانہ اور دیگر کئی علاقوں میں جاری تشدد تو سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر موضوعِ بحث تو ہے ہی ساتھ وادی کشمیر میں لوگ زنا کے مجرم رام رحیم کا مقامی نقلی پیر گلزار بٹ کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر ہریانہ کے حالات پر گرما گرم بحث ہورہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ جہاں وادی کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں عام لوگوں کو قتل کردئے جانے کے جیسے جرائم کے خلاف پُرامن احتجاج کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے وہیں پنجاب و ہریانہ میں ایک فاضل عدالت کے فیصلے پر طوفانِ بدتمیزی مچانے والوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

” چلی بم ،پیپر گرینیڈز اور پیلٹ گنز فورسز نے صرف کشمیریوں کے لئے رکھی ہیں“ ؟ (عمر عبداللہ)

ڈیرہ سچا سودا کے رنگین مزاج پیشوا گرمیت رام رحیم سنگھ کے خلاف برسوں کی سماعت کے بعد زنا کا الزام ثابت ہونے پر فاضل عدالت نے اُنہیں قید کا حکم کیا سُنایا کہ پنجاب سے لیکر ہریانہ اور دلی سے لیکر جانے کہاں کہاں تک تشدد کی لہر دوڑ گئی ہے جس میں ابھی تک کروڑوں روپے مالیت کی املاک تباہ اور تیس سے زیادہ جانیں تلف ہوچکی ہیں۔زنا کے مجرم رام رحیم سنگھ کے ہزاروں شیدائی سڑکوں پر ہیں اور اُنکے خلاف عدالتی فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے واپس لئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

چناچہ عدالتی فیصلے کے آتے ہی تشدد بھڑک اُٹھا تو سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر بھی بحث اور تاثرات کا اظہار شروع ہوا ۔وادی میں فیس بُک اور ٹویٹر کا استعمال کرنے والے اس بات پر سنجیدہ اور مزاحیہ تبصے کررہے ہیں کہ کس طرح وادی میں لوگوں کے منھ کھلاتے ہی سرکاری فورسز پیلٹ گنوں اور دیگر ہتھیاروں کے دہانے کھولتی ہیں جبکہ بیرونِ کشمیر کتنے ہی بلوے ہوں اور کتنا ہی تشدد ہوفورسز کو جیسے کوئی ہتھیار دستیاب ہی نہیں ہوتا ہے۔فیس بُک پر ایک شخص نے لکھا تھا”نہ جانے آج ہندوستان کوپیلٹ گن کیوں نہیں مل رہے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ وہ(پیلٹ گن)فقط جانوروں اور کشمیریوں کیلئے مخصوص ہیں“۔اس طرح کے تاثرات کا اظہار ہزاروں لوگوں نے کیا ہے جن میں اورتو اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ بھی شامل ہیں جنہوں نے ٹویٹر پر طنزیہ انداز میں سوال پوچھتے ہوئے کہا ہے کہ کیا پیلٹ گن فقط کشمیریوں کیلئے ہے۔عمر عبداللہ،خود جنکے دورِ اقتدار میں اُنکی ماتحت فورسز نے قریب سوا سو کشمیری نوجوانوں(بشمولِ بچوں)کو بھون کے رکھ دیا تھا،نے اپنے ٹویٹ میں کہا” چلی بم ،پیپر گرینیڈز اور پیلٹ گنز فورسز نے صرف کشمیریوں کے لئے رکھی ہیں“ ؟۔

اگر وادی میں معمولی احتجاجی مظاہرہ ہونے پر بھی بندوقوں اور دیگر ہتھیاروں کے دہانے کھول دئے جاتے ہیں تو پھر ہریانہ میں ایسا کیوں نہیں ہوا اور اگر ہریانہ میں اس قدر تحمل کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے تو پھر کشمیر میں مظاہرین کے ساتھ نمٹنے کے دوران اسی طرح صبر سے کیوں نہیں کام لیا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکرہے کہ گزشتہ سال وادی کشمیر میں حزب کمانڈر بُرہان وانی مارے گئے تو سرکار نے لوگوں کو اُنکے جنازے میں جانے سے روکا اور پھرمہینوں تک احتجاجی مظاہرین کے خلاف اس حد تک طاقت کا استعمال کیا جاتا رہا کہ سو بھر کے قریب لوگوں کے مارے جانے کے علاوہ قریب پندرہ ہزار افراد چھرے دار بندوق(پیلٹ گن)کا شکار ہوکر زخمی ہوئے جن میں سے ایک ہزار ایسے بھی ہیں کہ جنکی بینائی کُلی یا جزوی طور متاثر ہوکے رہ گئی ہے۔کشمیرمیں فیس بُک کا استعمال کرنے والے سوال کر رہے ہیں کہ اگر وادی میں معمولی احتجاجی مظاہرہ ہونے پر بھی بندوقوں اور دیگر ہتھیاروں کے دہانے کھول دئے جاتے ہیں تو پھر ہریانہ میں ایسا کیوں نہیں ہوا اور اگر ہریانہ میں اس قدر تحمل کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے تو پھر کشمیر میں مظاہرین کے ساتھ نمٹنے کے دوران اسی طرح صبر سے کیوں نہیں کام لیا جا سکتا ہے۔کئی لوگوں نے 9اپریل کو بڈگام میں ایک شہری کو فوجی جیپ کے بونٹ پر رسیوں سے باندھ کر انسانی ڈھال کے بطور استعمال کرنے کے واقعہ کی یاد دلاتے ہوئے بعض لوگوں نے طنزاََ یہ تجویز دی ہے کہ رام رحیم سنگھ کو بھی ایک جیپ کے بونٹ پر بٹھاکر تشدد کرنے والے کے سامنے کرنا چاہیئے تاکہ وہ تشدد بند کردیں۔ اس سلسلے میں فیس بُک پر فوج کے میجر گگوئی کی جانب سے انسانی ڈھال بناکر استعمال کئے گئے فاروق احمد ڈار کی تصویر کا فوٹو شاپ کرکے رام رحیم سنگھ کا پوسٹر بھی بنایا تھا جو فیس بُک پر وائرل ہوچکا ہے۔

سرکاری سطح پر کشمیریوں اور بھارت کے دیگر حصوں کے لوگوں میں کی جانے والی اس تمیز کو محسوس کرنے کے علاوہ رام رحیم سنگھ کے معاملے میں کشمیریوں نے خود بھارتی سماج میں اخلاقی اقدار کے تنزل کو بھی محسوس کیا ہے۔چناچہ ایک زانی کے حق میں ہزاروں لوگوں کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں پر یہاں حیرانگی کا اظہار تو ہوہی رہا ہے ساتھ ہی لوگ سنگھ کا بڈگام کے گلزار بٹ کے ساتھ موازنہ کر رہے ہیں۔ گلزار بٹ عرف گلزار پیر کو 2013میں پولس نے اپنی مرید خواتین کی آبروریزی کے الزام میں گرفتار کیا تو گلزار کی ایک طبقے میں بڑی شہرت کے باوجود بھی کشمیریوں نے پولس کے اس اقدام کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ گلزار کے خلاف مقدمے میں اُنکی برات کی گنجائش چھوڑنے پر پولس کے خلاف احتجاج بھی کیا۔چناچہ ایک شخص نے لکھا ہے”یہ ہے فرق کشمیر میں اور بقیہ بھارت میں،یہاں ایک ڈھونگی پر زنا کا الزام آتا ہے تو پولس کے ساتھ بصورتِ دیگر نفرت ہونے کے باوجود بھی لوگ اسکے پیچھے کھڑا ہوجاتے ہیں اور بھارت میں ایک زانی کی حمایت میں پورا سماج کھڑا ہوکر یہ اشتہار دیتا ہے کہ وہ سب زانی ہیں ہیں زانیوں کے حامی ہیں“۔

Exit mobile version