سیاست چھوڑ کر میدانِ کارزار میں اُترنے کا وقت آیا ہے:فاروق عبداللہ

سرینگر// جموں کشمیر میں حزب اختلاف نیشنل کانفرنس کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے،آئینِ ہند کی،دفعہ 35Aکی منسوخی کوتباہ کن سیلاب کاپیش خیمہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ سبھی پارٹیوں کا سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک ہوکر”میدان کارزارمیں اُترناوقت کی پُکارہے“ ۔

ریاست کی خصوصی پوزیشن کوختم کرنے کیلئے دفعہ370اورآرٹیکل35Aکیخلاف جاری سازشوں وکوششوں کے تناظرمیں جاری عوامی بیداری وجانکاری مہم کے تحت سابق وزیراعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹرفاروق عبداللہ نے بدھ کے روز ڈورو شاہ آباد ،کولگام اور بیروہ سے تعلق رکھنے والے پارٹی عہدیداروں کی الگ الگ میٹنگوں کے دوران کہاکہ جموں وکشمیرکی خصوصی پوزیشن اورریاستی عوام کے تشخص ومفادات کوسنگین خطرہ لاحق ہے ۔انہوں نے خبردارکیاکہ 2014میں جو سیلاب آیا وہ خود بہ خود واپس گیا لیکن دفعہ35Aکے خاتمے کی صورت میں جو سیلاب آئے گا وہ نہ صرف دن بہ دن بڑھتا چلا جائیگا بلکہ تباہ کاریاں بھی کرتا چلا جائے گا اور کشمیری قوم کا وجود اور پہچان اس طوفان کی نذر ہوجائیگا۔

2014میں جو سیلاب آیا وہ خود بہ خود واپس گیا لیکن دفعہ35Aکے خاتمے کی صورت میں جو سیلاب آئے گا وہ نہ صرف دن بہ دن بڑھتا چلا جائیگا بلکہ تباہ کاریاں بھی کرتا چلا جائے گا اور کشمیری قوم کا وجود اور پہچان اس طوفان کی نذر ہوجائیگا۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ اس وقت جموں وکشمیر عوام کے ساتھ ساتھ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو تمام اختلافات اور رنجشیں بالائے طاق رکھ کر میدانِ کارزار میں متحد ہوکر دفعہ35Aکے دفاع کیلئے صف آراءہونا چاہئے۔انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا”ہماری آواز میں اُسی صورت میں وزن آسکتا ہے جب ہم متحد ہونگے“۔ ڈاکٹر فاروق نے کہا کہ دفعہ35Aکے خاتمے سے کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ جموں وکشمیر زمین خریدنے کا اہل ہوسکتا ہے، نوکری حاصل کرسکتا ہے اور اسمبلی انتخابات میں ووٹ بھی ڈال سکتا ہے۔جس سے ”ہماری انفرادیت، پہچان اور کشمیریت مکمل طور پر ختم ہوجائیگی۔ریاست کا آبادیاتی تناسب بگڑ جائیگا، بے روزگاری کے مسائل سے دوچار ہماری ریاست میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد مزید بڑھ جائیگی کیونکہ غیر ریاستی اُمیدوار نوکریاں حاصل کرنے کے اہل بن جائیں گے“۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ دفعہ35Aکیخلاف لڑائی صرف مسلمانوں یا کشمیریوں کی جنگ نہیں، یہ دفعہ کشمیریوں کے مفادات کیلئے جتنی اہم ہے اُس سے زیادہ اہم لداخیوں اور جموں کے رہنے والے لوگوں کیلئے ہے۔سابق وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ دفعہ35Aمسلمانوں کیلئے جتنی ضروری ہے اُتنی ہی اہمیت کی حامل یہاں رہنے والے ہندﺅں، سکھوں، بودھوں اور عیسائیوں کیلئے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ35Aآئین ہند میں جموں وکشمیر کی شناخت کی ضامن ہے اور یہ دفعہ فرقہ پرستوں کو روز اول سے ہی کھٹکتی آئی ہے۔ بھگوا جماعتیں ہمیشہ سے ہی ریاست کی انفرادیت کو ختم کرنے کیلئے سازشیں رچاتی آئی ہیں۔

Exit mobile version