نئی دہلی// سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک غیر معمولی فیصلے میں مسلمانوں میں ایک ساتھ تین طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے بیک وقت تین طلاقوں پر پابندی عائدکرنے کے ساتھ ساتھ حکومت سے اس بارے میں پارلیمان میں نئے قوانین وضع کرنے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ کی ایک پانچ رُکنی آئینی بنچ کے تین ارکان (جسٹس روھگٹن ایف نریمن، جسٹس ادے امیش للت اور جسٹس کورین جوزف) نے سہ طلاق کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ روایت” غیر اسلامی“ ہے۔ آئینی بنچ کی صدارت کر رہے چیف جسٹس جے ایس کیہر اور جسٹس اے عبدالنذیر نے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کے تین دیگر ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ جسٹس کیہر نے پہلے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو تین طلاق کے معاملے میں قانون بنانے کا مشورہ دیا اور چھ ماہ تک سہ طلاق پر روک لگانے کا حکم دیا۔ جسٹس کیہر نے کہا کہ اگر حکومت چھ ماہ میں قانون بنانے میں ناکام رہی تو پھر پابندی جاری رہے گی۔ لیکن جسٹس نریمن، جسٹس للت اور جسٹس جوزف نے بعد میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تین طلاق کو مسلم خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ تین ججوں نے اس عمل کو غیر آئینی اور غیر اسلامی قرار دیا۔
”تین طلاق اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور اس روایت کو آئین کے آرٹیکل 25 (بنیادی حقوق سے متعلق قانون) کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔لہٰذا اسے ختم کرنا چاہئے“۔
عدالتِ عظمیٰ نے اکثریت کے فیصلے میں کہا کہ سہ طلاق خواتین کی مساوات کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جوزف نے کہا”تین طلاق اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اور اس روایت کو آئین کے آرٹیکل 25 (بنیادی حقوق سے متعلق قانون) کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔لہٰذا اسے ختم کرنا چاہئے“۔ جسٹس نریمن نے کہا کہ تین طلاق کو آئین کی کسوٹی پر پرکھا جانا ضروری ہے۔ غور طلب ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ 18 مئی کو مسلم خواتین سے منسلک تین طلاق کے معاملے پر سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ آئینی بنچ نے موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران مسلسل سماعت کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقوں کی دلیلیں سنی تھیں۔آئینی بنچ میں تمام مذاہب کے فاضل ججوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں ہندو (جسٹس للت)، مسلم (جسٹس نذیر)، سکھ (چیف جسٹس)، عیسائی (جسٹس جوزف) اور پارسی (جسٹس نریمن) شامل تھے۔سپریم کورٹ میں اس بارے میں کئی درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور سوالات اُٹھائے گئے تھے کہ کیا تین طلاقوں سے مسلمان خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے یا نہیں۔ عدالت نے اس پر مئی میں سماعت مکمل کر لی تھی اور اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔عدالت کا کہنا تھا کہ جب مذہب کے مطابق بھی تین طلاق کا چلن درست نہیں ہے تو پھر یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے؟۔
یہ بھی پڑھیئے طلاق پر پابندی مداخلت فی الدین، عدالتیں مذہب میں دخل نہ دیں:انجینئر رشید
سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت تین طلاق کی متاثرہ ایک خاتون سائرہ بانو اور بعض دیگر خواتین کی درخواستوں پر شروع کی تھی۔موجودہ مرکزی حکومت نے بھی عدالت میں بیک وقت تین طلاقوں کی مخالفت کی تھی۔