نئی دلی// آئینِ ہند کی دفعہ 35-A کی امکانی تنسیخ کو لیکر جموں کشمیر میں پھیلی ہوئی بے چینی کے بیچ سپریم کورٹ نے ریاست کو خصوصی پوزیشن دلانے والی دفعہ 370کو چلینج کرنے والی ایک اور عرضداشت کو سماعت کیلئے منظور کردیا ہے۔عدالتِ عُظمیٰ نے اس سلسلے میں مرکزی سرکار کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے اسے فقط چار ہفتوں میں اپنا نکتہ نظر لیکر سامنے آنے کیلئے کہا ہے۔یہ سب ان حالات میں ہو رہا ہے کہ جب مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے کہ جو ہمیشہ ہی دفعہ370کی تنسیخ کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہے اور اسکے لئے کوشاں ہونے کا اعلان بھی کرتی رہی ہے۔
ریاست میں ابھی دفعہ35-Aکی ممکنہ تنسیخ کو لیکر بحث و مباحثہ بھی جاری ہے اور بے چینی بھی اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے لیکر مزاحمتی قیادت تک سبھی کی طرفسے اپنی نوعیت کے شدید ترین احتجاج کا انتباہ دیا جارہا ہے۔چناچہ مزاحمتی قیادت نے 12اگست کیلئے عام ہڑتال کی کال دی ہے جبکہ سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ کی قیادت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی مذکورہ دفعہ کی تنسیخ بلکہ اسکے ساتھ معمولی چھیڑ چھاڑ کئے جانے کی صورت میں زبردست عوامی احتجاج کی دھمکی دی ہے۔ اس معاملے کو لیکر بے چینی ابھی باقی ہے کہ اور مرکزی سرکار کو خبردار ہی کیا جارہا ہے کہ ریاست کو خصوصی پوزیشن دلانے والی دفعہ 370کو چلینج کرنے والی عرضداشت کو سپریم کورٹ نے سماعت کیلئے منظور کردیا ہے۔
جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد دفعہ370اور ریاستی آئین کو برقراررکھنا”بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ فراڈ کے مترادف “ہے کیونکہ نہ صدرِ ہند، نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومتِ ہند نے اس کو جاری رکھنے کی منظوری دی ہے۔
دفعہ370کو چلینج کرنے والی عرضداشت کماری وجے لکشمی جھاہ نامی ایک خاتون نے پیش کی ہے۔اُنہوں نے دراصل یہ عرضداشت اپریل کے مہینے میں دلی ہائی کورٹ میں سماعت کیلئے پیش کی تھی اور370کو غیر قانونی قرار دیکر اس کی منسوخی کا مطالبہ کیا تھا تاہم عدالت نے اسے رد کردیا تھا۔دلچسپ ہے کہ اس سے قبل جولائی2014میں سپریم کورٹ نے اسی طرح کی ایک عرضداشت کو یہ کہتے ہوئے خارج کیا تھا کہ اس بارے میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔بعدازاںکماری وجے لکشمی نے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی عرضداشت میں بتایا کہ ان کی عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن سے بالکل مختلف ہے۔اُنہوں نے اپنی عرضداشت میں کہا تھا کہ جموں کشمیر ریاست کو خصوصی درجہ دلانے والی آئینِ ہند کی دفعہ370ایک ”عارضی دفعہ“ ہے اور اسکی مدت1957میں ریاست کی آئین ساز اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی ہے۔اُنہوں نے عدالت کو یہ دلیل دیتے ہوئے مائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد دفعہ370اور ریاستی آئین کو برقراررکھنا”بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ فراڈ کے مترادف “ہے کیونکہ نہ صدرِ ہند، نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومتِ ہند نے اس کو جاری رکھنے کی منظوری دی ہے۔
دلی ہائی کورٹ کے جسٹس جینت ناتھ اور جسٹس جی روہنی نے11اپریل2017کو کماری کی ا دفعہ370 کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کویہ کہتے ہوئے خارج کردیا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ایک عرضی پہلے ہی خارج کی ہے لہٰذاہائی کورٹ پر اسکی سماعت کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ عرضی گذاروجے لکشمی جھاہ نے اب دلی ہائی کورٹ کے اسی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے جہاں اب کے اُنکی درخواست شنوائی کیلئے منظور ہوچکی ہے۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی سپریم کورٹ میں اس معاملے کی شنوائی ہونا ہے اور تب جاکر پتہ چلے گا کہ عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن عدالت کی جانب سے اس نازک معاملے کی سماعت پر آمادہ ہونا بھی اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ عرضی میں دفعہ370کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے اس دفعہ کی تنسیخ کے احکامات مانگے گئے ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس جے ایس کھیہر، جسٹس ڈی وائی چندرچُود اور جسٹس اے کے گوئل کے سہ ُرکنی بنچ نے حکومتِ ہند کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے چار ہفتوں کے اندر اندر اپنا نکتہ نظر رکھنے کیلئے کہا ہے۔اس معاملے کی اگلی شنوائی اگلے ماہ طے ہے اور یہ اپنی نوعیت کا اہم ترین مقدمہ تصور ہوتا ہے کہ جسکے نتیجے میں جموں کشمیر پر انتہائی گہرے اثرات ہونا تقریباََ طے ہے۔
یہ بھی پڑھیئے خبردار! جو سٹیٹ سبجکٹ قانون کو چھیڑا تو:فاروق
جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی سپریم کورٹ میں اس معاملے کی شنوائی ہونا ہے اور تب جاکر پتہ چلے گا کہ عدالت کا فیصلہ کیا ہوگا لیکن عدالت کی جانب سے اس نازک معاملے کی سماعت پر آمادہ ہونا بھی اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔اُنہوں نے کہا کہ اس طرح کے نازک آئینی معاملے کو،باالخصوص جموں کشمیر جیسی حساس ریاست سے متعلق،عدالتوں میں نہیں آنے دیا جانا چاہیئے تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ جموں کشمیر سرکار کا امتحان ہے کہ وہ اس حوالے سے کتنا مظبوط کیس بناکر عدالت کے سامنے جاتی ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینِ ہند کی دفعہ370جموں کشمیر کو ایک خصوصی پوزیشن کی ضمانت دیتی ہے اور اسی دفعہ کے تحت ریاست کا اپنا الگ آئین اور جھنڈا بھی ہے جبکہ دفعہ35-Aکے تحت ریاست کی پُشتینی باشندگی کا قانون طے ہے۔اس دفعہ کے رہتے ہوئے کوئی بھی غیر ریاستی شخص ریاست کا باشندہ نہیں بن سکتا ہے اور نہ ہی ریاست میں کسی جائیداد کا مالک بن سکتا ہے تاہم بی جے پی اور آر ایس ایس کی ایک ذیلی غیر سرکاری تنظیم سپریم کورٹ کے راستے اس دفعہ کی تنسیخ کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔