سرینگر// ریاستی گونر این این ووہراکی کشمیر یونیورسٹی آمد پر آج یہاں کے سینکروں طلباءنے پُرامن احتجاجی مظاہرہ کیا اور گورنر،جو یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں،کی موجودگی میں” گو انڈیا گو بیک“کے نعرے لگائے۔تاہم اس دوران کوئی پُرتشدد واقعہ پیش آیا اور نہ ہی کوئی ہنگامہ آرائی ہوئی۔گورنر ووہرا یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کے اہتمام سے منعقدہ تقریب کی صدارت کیلئے یہاں آئے ہوئے تھے۔
گورنر کی گاڑی طلباءکے قریب آکر دھیمی رفتار کے ساتھ چلنے لگی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ احتجاجی طلباءکو سُننا چاہتے تھے۔چناچہ یہ پروگرام کسی نا خوشگوار واقعہ کے بغیر اختتام کو پہنچا اور اسکے بعد بیشتر طلباءاپنے اپنے شعبہ جات میں کلاس رومز کو لوٹ گئے۔
گورنر کے پروگرام کے بارے میں جانتے ہی سینکڑوں طلباءانسٹیچیوٹ آف کشمیر اسٹیڈیز کے باہر دھرنا پر بیٹھ گئے اور اُنہوں نے نعرہ بازی شروع کی۔طلباءنے ہاتھوں میں مختلف نعروں والی تختیاں اور بینر اُٹھارکھے تھے جن پر جموں کشمیر کی ”آزادی“کے مطالبہ کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت کی حمایت کا اظہار کیا گیا تھا۔ایک بینر پر درج تھا”ہم مزاحمتی قیادت کے ساتھ کھڑا ہیں“۔اس موقعہ پر طلباءنے”آزادی“اور ”آزادی پسند قیادت“کی حمایت میں نعرے لگائے گئے۔
نعرہ بازی کے دوران ان طالبِ علم نے بتایا”چونکہ گورنر ریاست میں بھارت کے رابطہ کار اور حاکم ہیں لہٰذا ہم اُن تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے تھے کہ اُنکی طرفسے یہاں انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور یہاں کے نوجوانوں کو قتل کیا جارہا ہے“۔اُنہوں نے مزید کہا”چونکہ یونیورسٹی کے طلباءکسی بھی مہذب سماج کی سوچ کے نمائندہ تصور ہوتے ہیں لہٰذا ہم گورنر کو بتادینا چاہتے تھے کہ جموں کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں“۔اُنہوں نے کہا کہ یہ ایک پُرامن پروگرام ہے جسکا واحد مقصد گورنر تک بات پہنچانا ہے۔
گورنر این این ووہرا جب کیمپس سے واپس جانے لگے تو نوجوانوں نے نعرہ بازی میں شدت لائی اور وہ ایک خاص لے میں ”گو بیک گوبیک،گو انڈیا گو بیک“کے نعرے لگانے لگے۔چناچہ گورنر کی گاڑی طلباءکے قریب آکر دھیمی رفتار کے ساتھ چلنے لگی اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے وہ احتجاجی طلباءکو سُننا چاہتے تھے۔چناچہ یہ پروگرام کسی نا خوشگوار واقعہ کے بغیر اختتام کو پہنچا اور اسکے بعد بیشتر طلباءاپنے اپنے شعبہ جات میں کلاس رومز کو لوٹ گئے۔